کنوئیں سے ڈول نکالے جا رہے ہیں۔ ضرور نکالے جانے چاہئیں۔ اس کا کوئی متبادل نہیں! مگر اللہ کے بندو! مرے ہوئے اس کتے کے بارے میں تم کیوں نہیں سوچ رہے جو ابھی تک کنوئیں کے اندر ہی ہے؟
الیکشن ہونے چاہئیں۔ ضرور ہونے چاہئیں، اس کا کوئی متبادل نہیں! مگر ان خاندانوں سے نجات کیسے ہوگی جو پیرانِ تسمہ پا کی طرح لوگوں کی گردنوں پر سوار ہیں۔ ان زمینداریوں کا کیا ہوگا جو جنوبی پنجاب اور سندھ میں کسی کو آزادی سے ووٹ نہیں ڈالنے دیتیں۔ ان زمین داریوں کے مالکوں نے 1951ء میں، جب بھارت میں زرعی اصلاحات بغیر ڈنڈی مارے نافذ کر دی گئی تھیں، سجدۂ شکر ادا کیا تھا کہ پاکستان میں زرعی اصلاحات کا کوئی امکان نہیں! یونینسٹ اتنے کچے نہیں تھے کہ یوں ہی قیامِ پاکستان سے پہلے، شام کے وقت، مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے! لومڑی کی طرح ان چالاک فیوڈل سیاست دانوں کو معلوم تھا کہ پاکستان میں فیوڈلزم، جاگیرداری، سرداری نظام، ہمیشہ رہے گا! جبھی تو اس نظام کے ختم ہونے کے آثار دُور دُور تک نظر نہیں آ رہے۔
انقلاب کا نعرہ لگانے والے فریبی ہیں اور شعبدہ باز! جس جماعت کا وزیراعلیٰ جلسوں میں حبیب جالب کے اشعار لہک لہک کر گاتا ہے اور ’’خونی انقلاب‘‘ کی کبھی نوید دیتا ہے اور کبھی دھمکی‘ اس جماعت کا ذرا تصورِ انقلاب دیکھیے۔ دو دن پہلے روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے رپورٹ کیا ہے:
’’مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے مخدوم فیصل صالح حیات، دانیال عزیز، سردار یوسف، وزیر مملکت شاہجہان یوسف کو پارٹی میں شامل کرنے کے لیے اپنے نمائندوں کو ٹاسک دے دیا۔ فیصل صالح حیات کی شمولیت کے لیے خواجہ آصف کو ٹاسک دیا گیا ہے۔ عمرہ سے واپسی پر فیصل صالح حیات کی نوازشریف سے ملاقات متوقع ہے۔ مانسہرہ سے پانچ مرتبہ منتخب رکن قومی اسمبلی سردار یوسف اور ان کے صاحبزادے وزیر مملکت شاہ جہان یوسف کی شمولیت کے لیے ٹاسک اقبال ظفر جھگڑا، پیر صابر شاہ اور مہتاب عباسی کو دیا گیا ہے۔ خانیوال میاں چنوں سے (ق) لیگ کے رکن اسمبلی اسلم بودلہ کو (ن) لیگ نے آئندہ انتخابات کے لیے اوکے کر دیا ہے۔ وہ (ن) لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے‘ جبکہ جہانیاں سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی چودھری افتخار نذیر جنہوں نے خود (ن) لیگ سے رابطہ کیا ہے، ان کی شمولیت پر غور کیا جا رہا ہے۔ این اے 116 سے (ن) لیگ دانیال عزیز کو ٹکٹ دینے کی خواہاں ہے…‘‘
یہ ہے اس انقلاب، اس تبدیلی کی ہلکی سی جھلک جو الیکشن کے بعد ہانکے جانے والے ہانپتے عوام کی گردنوں پر رکھی جائے گی۔ ایک دانشور نے لکھا ہے… ’’عوام نے اس حکومت کی کارکردگی پر اپنا فیصلہ سنانا ہے‘‘… کون سے عوام؟ جن کے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے کے لیے سردار انہیں جلتے انگاروں پر چلاتے ہیں؟ جن کے نام پر اسلم رئیسانی نے اپنی ہی حکومت سے اسّی کروڑ روپے ’’تلافی‘‘ کے لے لیے؟ وہی عوام جن کی عورتیں حویلیوں میں جمع ہو کر بیگمات سے پوچھتی ہیں کہ ’’بی بی جی! ہم نے پھر ٹھپّہ کس نشان پر لگانا ہے؟‘‘ نہیں! ہرگز نہیں! جب تک کتا کنوئیں سے نہیں نکالا جائے گا، ایک ہزار ڈول نکالنے سے بھی پانی پاک نہیں ہوگا! اسمبلیوں میں خاندانی نشستیں؟؟ ممتاز بھٹو کہتے ہیں یہ ہمارے خاندان کی نشست ہے! خاندانی نشستوں کا جمہوریت سے کیا تعلق ہے؟ یہ انتخابات نہیں، نامزدگیاں ہیں جو فرنگی دور سے چلی آ رہی ہیں!
حیرت ہے اور افسوس! عمران خان نے آج تک زرعی اصلاحات کے بارے میں اپنے کسی منصوبے سے عوام کو آگاہ نہیں کیا! دو سو کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ’’بی بی جی! ہم نے پھر ٹھپّہ کس نشان پر لگانا ہے؟‘‘ عمران خان کے پاس ان بیگمات اور ان کے چوہدریوں، ملکوں، سرداروں اور خانوں سے نجات حاصل کرنے کا کوئی نسخہ نہیں! لاہور اور لندن میں زندگی گزارنے والے کو پاکستانی دیہات کی مکروہ DYNAMICS کا کیا پتہ؟ سردار آصف احمد علی، شاہ محمود قریشی، وصی ظفر، جہانگیر ترین… کیا یہ حضرات عمران خان کو زرعی اصلاحات کی تجاویز دیں گے؟ ہتھیلی پر بال کبھی نہیں اُگتے نہ سوئی کے ناکے سے اونٹ گزرتا ہے۔ پھر عمران خان سے وابستہ نوجوان، کالم نگاروں کو جس زبان میں ای میلیں بھیجتے ہیں، اس سے یہ بھی واضح ہے کہ فسطائیت کے پودے کو پانی دیا جا رہا ہے، وہی فسطائیت جس کا شکار پنجاب یونیورسٹی میں خود عمران خان ہوا تھا! اگر وہ برسرِ اقتدار آیا تو یہ نوجوان جو ای میلوں میں ننگی گالیاں دے رہے ہیں، بے قابو ہو جائیں گے۔
انقلاب اور تبدیلی کی بات ہو رہی تھی! بارہ ہزار روپے تنخواہ پانے والے نائب قاصد کی ماں ٹیلی ویژن پر کہہ رہی تھی کہ اس کے گھر میں چھوٹا گوشت اور مرغی کبھی نہیں پکی! تین جوان بہنوں کی شادیاں بھی اسی بارہ ہزار روپے ماہوار سے ہونی ہیں۔ لاہور کا ایک رہائشی کہتا ہے کہ میں بیوی اور دو بچیوں کے ساتھ دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے ساتھ ’’زندہ‘‘ ہوں! گھر کا کرایہ، بل اور سکولوں کی فیسیں نکال کر پانچ بچتے ہیں۔ گوشت کو بچیاں ترستی ہیں۔ بیٹی بواسیر کی مریضہ ہے اور علاج اوقات سے باہر۔ اس کی بیوی کہتی ہے کہ بارہ سال پہلے شادی ہوئی تھی تو باہر جا کر کھانا کھایا تھا۔ اب تو بوتل بھی نہیں پی سکتے۔ بیٹی کہتی ہے کہ یاد نہیں آخری بار سیر پر کب گئے تھے؟ یاد نہیں آخری بار کھلونا کب لیا تھا؟ دوسری بیٹی کہتی ہے کہ آخری بار کھلونا ہماری نانی نے لے کر دیا تھا۔
یہ ہیں عوام! ان عوام کے لیے الیکشن کون سی تبدیلی لائے گا؟ مشکل صورت حال ہے! الیکشن ضرور ہونے چاہئیں۔ لیکن الیکشن تبدیلی بھی تو لائیں۔ یہ ہے وہ مشکل جس کی بنا پر طاہر القادری جیسے متنازعہ شخص کی باتیں بھی لوگ غور سے سن رہے ہیں اور سن کر سر ہلا رے ہیں! … ’’جب تک چور اور لٹیرے پارلیمنٹ کا حصہ بنتے رہیں گے مسائل کا حل ممکن نہیں‘‘… یہ بات طاہر القادری کیا، کوئی بھی کہے تو لوگ سنیں گے اور سر ہلائیں گے۔ آگ لگی ہوئی ہو تو آگ کی خبر دینے والے کا ماضی کوئی نہیں دیکھتا، اس کی آواز سن کر لوگ بھاگ پڑتے ہیں۔
انتخابات کا عمل اس کے باوجود جاری رہنا چاہیے اور انتخابات کو بامعنی بنانے کا عمل بھی ساتھ ساتھ چلے۔ دونوں ناگزیر ہیں! جو صرف انتخابات کی بات کرتے ہیں، وہ صرف اقتدار چاہتے ہیں اور جو صرف تبدیلی کی بات کرتے ہیں، آمریت کے نقیب ہیں۔ ہوشیار! خبردار! ایک سائنس دان جو جنرل پرویز مشرف کے سامنے موم کی طرح پگھل گیا تھا اور جس نے لکھا ہوا سبق ٹیلی ویژن پر سُنا دیا تھا، کہہ رہا ہے: ’’چار سالہ ٹیکنوکریٹ حکومت کا قیام ضروری ہے۔ نگران وزیراعظم بننے کو تیار ہوں‘‘… ایک دوسرا ماڈل بھی تو ہے۔ افتخار چودھری جو چھ گھنٹے جرنیلوں کے سامنے ’’نہیں‘‘ کہہ کر ڈٹا رہا۔ وہ کہتا ہے کہ الیکشن ہر حال میں وقت پر ہونے چاہئیں۔
کوئی سائنس دان ہے یا انجینئر، وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتا ہے تو بسم اللہ! اثاثوں کا اعلان کرے اور الیکشن میں حصہ لے!!
http://columns.izharulhaq.net/2013/02/blog-post_4.html
“