پارلیمنٹ میں سناٹا چھا گیا…’’میری دائیں جیب میں ایک کاغذ ہے۔ ایک کاغذ میری بائیں جیب میں بھی ہے، پارلیمنٹ کے ارکان دونوں میں سے جس کاغذ کو چاہیں منظور کر لیں۔
یہ الفاظ ڈاکٹر طہٰ حسین کے تھے، تین سال کی عمر میں بینائی سے محروم ہونے والا طہٰ حسین ایک غریب بچہ تھا لیکن اس نے فرانس سے ایک نہیں دو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لیں اور مصر میں مذہب کو اندھی مُلائیت کے شکنجے سے آزاد کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ وزیر تعلیم بنا اس کی دائیں جیب میں پرائمری تک مفت تعلیم کا بل تھا بائیں جیب میں استعفیٰ تھا۔ مصر کی پارلیمنٹ نے بل منظور کر لیا۔ ہر مصری بچہ پرائمری تک مفت تعلیم کا حق دار ہو گیا بعد میں یہ سہولت دسویں جماعت تک دے دی گئی۔ مصری آج تک طہٰ حسین کے احسان مند ہیں! تعلیم کے بارے میں ڈاکٹر طہٰ حسین کا یہ قول دنیا بھر میں مشہور ہے کہ ’’تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی سانس لینے کیلئے ہوا اور پینے کیلئے پانی‘‘
مجھے یہ واقعہ اعظم سواتی کی نوائے وقت سے خصوصی بات چیت پڑھ کر یاد آیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر اعظم سواتی اس سے پہلے مانسہرہ ضلع کے منتخب شدہ ناظم تھے۔ جدید اردو نظم کے مایہ ناز شاعر ڈاکٹر وحید احمد اس زمانے میں مانسہرہ کی ضلعی حکومت میں ملازمت کر رہے تھے۔ انکی روایت ہے کہ اعظم سواتی اپنی ذاتی گاڑی استعمال کرتے تھے اور ان کا طرز عمل ’’عام‘‘ سیاستدانوں سے بہت حد تک مختلف تھا۔ پھر یوں ہوا کہ سواتی صاحب اسلام آباد پارلیمنٹ میں پہنچ گئے وہ عالم دین نہیں لیکن پارلیمنٹ میں جمعیت علماء اسلام کی وساطت سے پہنچے اور جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے وہ اس جماعت سے کبھی بھی وابستہ نہیں تھے۔
چند دن پہلے خبر پھیلی کہ اعظم سواتی نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ نوائے وقت سے گفتگو انہوں نے اسی حوالے سے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خبر سے وہ صرف احساس دلانا چاہتے تھے اور اب وزیراعظم نے یقین دلایا ہے کہ انکی وزارت کو پورا بجٹ دیا جائیگا۔ وزارت سنبھالتے وقت انکے بقول وہ کچھ عزائم رکھتے تھے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے تین ارب روپے کا بجٹ مانگا لیکن انہیں صرف ساٹھ کروڑ روپے دیئے گئے یعنی تین ارب کا پانچواں حصہ! سواتی صاحب نے وزارت ذیلی اداروں کی تنظیم نو کرنا چاہی لیکن بجٹ کی کمی آڑے آ گئی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سائنس دانوں کو بہتر سکیل اور پرکشش مراعات دلوانا چاہتے ہیں۔ تین چار بار استدعا کرنے کے باوجود وزارت عظمٰی میں انکی شنوائی نہ ہوئی۔ سواتی صاحب کا خیال یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب نے ان کی تجاویز کا نوٹس لے لیا ہے اور ترجیحی بنیادوں پر منظور کرنے کی ’’یقین دہانی‘‘ کی ہے!
جو کچھ اعظم سواتی نے کہا ہے اگر وہ وہی کچھ کرنے کی امنگ رکھتے ہیں تو یہ ایک خوش آئند بات ہے ہم نے ’’اگر‘‘ کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ بہرحال وہ ایک سیاستدان ہیں جس سیاسی جماعت سے وہ وابستہ ہیں اسکی ساکھ بھی سب کے سامنے ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود ان کی باتوں پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں سواتی صاحب ایک عرصہ امریکہ میں رہے ہیں۔ انہوں نے دنیا دیکھی ہوئی ہے اور یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو ہمارے بہت سے وزیروں کو حاصل نہیں اس لئے ہمیں یقین ہے کہ وہ فی الواقع سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت میں کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔لیکن نہ جانے کیوں ناصر کاظمی کا شعر یاد آ رہا ہے
بہت ہی سادہ ہے تو اور زمانہ ہے عیار
خدا کرے کہ تجھے شہر کی ہوا نہ لگے
سواتی صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ وزیراعظم کی یقین دہانیوں پر زیادہ انحصار نہ کریں۔ حاشا وکلا اس کالم نگار کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وزیراعظم یقین دہانی میں سنجیدہ نہیں۔ اصل مسئلہ اور ہے اور وہ یہ کہ وزیراعظم چاہیں بھی تو سواتی صاحب کی تجاویز کو وہ سمندر عبور نہیں کروا سکیں گے جسے وزارت خزانہ کہا جاتا ہے اس ملک میں سول سروس کا ایک گروپ اپنے آپکو لارڈ میکالے کا ’’براہ راست جانشین‘‘ (DIRECT DESCENDENT) سمجھتا ہے۔ یہ مراعات یافتہ گروپ جی او آر لاہور کے دس دس ایکڑ محلات سے لیکر نہ صرف وزارت خزانہ تک بلکہ ہر اس محکمے تک پھیلا ہوا ہے جس کے بارے میں اسکی معلومات صفر سے زیادہ نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی انفارمیشن ٹیکنالوجی، تجارت، تعلیم، صحت، بڑے شہروں کے ترقیاتی ادارے، کارپوریشنیں، انکم ٹیکس اور کسٹم کے انتہائی ٹیکنیکل شعبے غرض ہر وہ جگہ جہاں کسی سائنس دان، کسی انجینئر کسی پروفیسر کسی پی ایچ ڈی کو ہونا چاہیے وہاں سول سروس کے اس مخصوص ہتھوڑا گروپ کا قبضہ ہے ورنہ کیا یہ ممکن ہے کہ انکم ٹیکس اور کسٹم کے سینکڑوں تجربہ کار افسروں میں سے ایک جی ہاں… ایک بھی ایسا نہ ہو جو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ کے طور پر کام کرنے کا اہل نہ ہو! لیکن…؎
یوں بھی ہوتا ہے کہ آزادی چُرا لیتے ہیں لوگ
قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیتے ہیں لوگ
اس کالم نگار کو ڈر ہے کہ وزیراعظم کی کوشش کے باوجود وزارت خزانہ کے بزرجمہر سواتی صاحب کو مطلوبہ بجٹ فراہم نہیں کریھگے اور ایسی ایسی پیچیدہ ’’تکنیکی‘‘ بجھارتیں ڈالیں گے تو سواتی صاحب سر پیٹ کر رہ جائینگے۔ رہا ان کا یہ ارادہ کہ وہ سائنس دانوں کو بہترین سکیل (تنخواہوں کی شرح) اور مراعات دلوانا چاہتے ہیں تو اگر وہ یہ کام کر پائیں تو ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔لیکن یہی تو وہ مسئلہ ہے جسکی وجہ سے سائنس دان یہ ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ افسر شاہی کے ارکان کو مقررہ معیاد کے بعد خود کار طریقے سے اگلا گریڈ مل جاتا ہے۔ یعنی نو سال بعد گریڈ 19 اور اسی طرح اگلے مراحل بھی۔ لیکن سائنس دانوں ڈاکٹروں اور پروفیسروں پر یہ طریق کار منطبق نہیں کیا جاتا۔ اس امتیازی سلوک کا کوئی جواز نہیں اور یہ ناروا فرق دور ہونا چاہیے۔ رہیں مراعات تو سواتی صاحب بہت بڑے جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مراعات صرف افسر شاہی کا حق ہے۔ سائنس دان پی ایچ ڈی، ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیسر ان مکانوں ان گاڑیوں اور ان سرکاری دوروں کا سوچ بھی نہیں سکتے جو افسر شاہی کا موروثی حق ہے اور آخر میں سواتی صاحب کیلئے گُر کی ایک بات اگر وزارت خزانہ مرکز کی ہر وزارت، ہر ذیلی محکمے اور ہر کارپوریشن کی ایک ایک گاڑی کم کر دے اور ایک ایک افسر کی آسامی ختم کر دے (اگرچہ اس سے زیادہ کا ختم کرنا بھی آسانی سے ممکن ہے) تو سائنس اور ٹیکنالوجی کے مطالبات زر پورے ہو سکتے ہیں۔ ابھی تو ہم نے ان کروڑوں اربوں روپے کی بات ہی نہیں کی جو پارلیمنٹ کے ارکان پر خرچ ہو رہے ہیں!