1975 میں بھارت کی سرزمین پر ایک ایسی پریم کہانی نے جنم لیا جس نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔ مہا نندیا نامی ایک اچھوت دہلی کے ایک ہوٹل میں اندرون و بیرون ممالک سے آئے ہوئے سیاحوں کے خوب صورت پینسل اسکیچ بناتا تھا ۔ اس نوجوان مصور کا دعوی تھا کہ وہ 10 روپے کے عوض 10 منٹ میں اسکیچ بنا لیتا ہے ۔ ایک روز سویڈن کے ایک جنگل کی مالکن اور حسین و جمیل شہزادی شارلوٹ وان شیوڈن اس کے پاس آئی اور 10 روپے کے عوض 10 منٹ میں اسکیچ بنانے کی فرمائش کر دی ۔ مہا نندیا کی جب شارلوٹ کے سراپا پر نظر پڑی تو اس کا فن اس کے قبضہ قدرت سے نکل گیا لیکن اس کے باوجود وہ شارلوٹ کی تصویر بنانے بیٹھ گیا مگر اس سے اب تصویر نہیں بن پا رہی تھی ۔ بقول شاعر
تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی
اک خاب سا دیکھا ہے، تعبیر نہیں بنتی
یہاں تصویر تو نہیں بن رہی تھی التبہ مہا نندیا کی ماں کے خواب کی تعبیر بن رہی تھی ۔ شارلوٹ کے حسن و جمال کی تاب نہ لاتے ہوئے مہا نندیا کے ہاتھ کپکپانے لگے اس نامی گرامی مصور کا دل ڈوبنے لگا ۔ لاکھ کوشش کے باوجود تصویر بننے کی بجائے خراب ہونے لگی ۔ شارلوٹ مہا نندیا کی حالت دیکھ کر اگلے دن واپس آنے کا کہہ کر روانہ ہو گئی ۔ اگلے روز بھی مصور کی حالت وہی رہی ۔ جس پر شارلوٹ معاملہ سمجھ گئی کہ مصور اس پر فریفتہ ہو گیا ہے اور اب وہ اپنے اختیار میں نہیں رہا ہے ۔ مہا نندیا کا تعلق بھارت کی اچھوت ذات سے تھا ۔ اس نے جب شارلوٹ کو پہلی نظر دیکھا تو اس کو اپنی ماں کی پیش گوئی یاد آ گئی ۔ جس نے کہا تھا کہ بہت دور سے ایک لڑکی آئے گی اور بہت خوب صورت ہوگی وہ ایک جنگل کی مالکن ہوگی اس کا برج ثور ہوگا موسیقی کی دلدادہ ہوگی اور تیری دلہن بنے گی ۔ مہا نندیا نے اپنی ماں کی پیش گوئی کی تصدیق کے لئے شارلوٹ سے اس کا تعارف پوچھا تو حیرت انگیز طور پر یہ وہی لڑکی نکلی ۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے کے قریب آتے گئے ذات پات، دین دھرم ، رنگ و نسل ،گورے کالے اور ملک کا فرق ختم ہو کر رہ گیا اور دونوں کی شادی ہو گئی ۔
جب شارلوٹ اپنے وطن سویڈن جانے لگی تو کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اپنے محبوب شوہر کو ساتھ نہ لے جا سکی مگر اس کو جہاز کے ٹکٹ کی رقم دے دی لیکن شوہر نے خودداری کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ رقم اس کو واپس کر دی اور اپنی رقم پر آنے کے عزم کا اظہار کیا ۔ ہزارہا کوشسوں کے باوجود ہوائی جہاز کے ٹکٹ کی رقم اس کے پاس جمع نہیں ہو سکی مجبور ہو کر اس نے 60 روپے میں ایک سائیکل خرید لی اور 22 جنوری 1977 کو اپنی بیوی اور محبوبہ کے وطن سویڈن جانے کیلیئے دہلی سے سائیکل پر سوار ہو کر روانہ ہو گیا ۔ مہا نندیا براستہ پاکستان، افغانستان، ایران اور ترکی سے ہوتا ہوا یورپ پہنچ گیا ۔ اس طویل ترین سفر کے دوران وہ لوگوں کی تصاویر بناتا رہا اور اپنے سفر کے اخراجات اپنی محنت سے حاصل کرتا رہا ۔
مہا نندیا اپنے اس سفر کے دوران کئی بار بیمار پڑا، چوٹیں بھی لگیں، زخمی بھی ہوا مگر اس کے شوق سفر میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ وینس سے وہ ٹرین میں سوار ہو گیا اور سویڈن پہنچ کر شارلوٹ کے بتائے گئے پتے پر پوچھ پاچھ کرتے ہوئے باالآخر منزل مقصود تک پہنچ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔ اس تمام سفر کے دوران اسے 4 سال کا طویل عرصہ لگ گیا وہ 1981 میں اپنی اہلیہ اور محبوبہ کے ہاں پہنچ گیا ۔ شارلوٹ نے اپنے عاشق صادق شوہر کا بڑے رچائو اور اشتیاق سے پر تپاک استقبال کیا ۔ شارلوٹ کے والدین نے بھی اپنے داماد کو بڑی عزت اور احترام دیا ۔ 20 ویں عیسوی صدی میں جنم لینے والی اس عجیب عشقیہ داستان کے کردار آج 21 ویں صدی میں بھی سویڈن کے ایک جنگل میں منگل کے مصداق بہت خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں ۔