ہومو سولینسس(Homo Solensis)
زمین پر رہنے والے تمام جاندار کسی نا کسی جینیاتی یا ارتقائی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، سائنسی استلاح میں اس گروہ کو جینس(Genus) کا نام دیا جاتا ہے، جیسا کہ شیر، چیتا، پینتھر اور ٹائگر سبھی ایک جینس سے تعلق رکھتے ہیں ان کے جینس کا نام پینتھر(Panthera) ہے، یہ سب ارتقائی وقت کے حساب سے مستقبل قریب(جو کے 20 سے 25 لاکھ سال ہے) میں یکساں جد سے ارتقاء پائے۔
ارتقاء کی سائنس کے مطابق ملتے جلتے جانداروں کو اس وقت مختلف جنس مان لیا جاتا ہے جب وہ آپس میں جنسی اخلاط کے ذریعے صحتمند نسل پیدا نہیں کر سکتے، جیسا کہ گھوڑے اور گدھے کے ملاپ سے خچر پیدا ہوتا ہے جو کہ افزائش نسل کے قابل نہیں ہوتا۔ اسی طرح شیرے، چیتے اور پینتھرا جینس کے دوسرے جاندار ابتدائی طور پر تو ایک ہی جد امجد سے ارتقاء پائے یعنی ماضی میں آج سے تقریبا 20 سے 25 لاکھ سال پہلے ایک شیر نما جانور تھا جسی کی ایک مادہ نے دو بیٹیوں کو جنم دیا جو ایک دوسرے سے کچھ مختلف تھیں۔ ان میں سے ایک دنیا میں پائے جانے والے تمام شیروں کی ماں ہے اور دوسری دنیا میں پائے جانے والے تمام چیتوں کی ماں ہے۔ ان دونوں بیٹیوں کی بیٹیوں سے مزید مختلف نسل پیدا ہوئی، اس عمل کے دوران بہت سے مختلف النسل جاندار معدوم بھی ہوئے مگر کچھ قدرتی چناؤ کے مطابق کامیاب ٹھہر کر آج شیر اور چیتے کی شکل اختیار کر گئے۔
اسی طرح جانداروں کے مختلف جینس موجود ہیں جو مختلف قریبی جینیاتی تعلق والے جانداروں پر مشتمل ہیں، انسان کے جینس کو ہومو(Homo) کہا جاتا ہے، انسان سمجھتا آیا ہے کہ وہ زمین پر انتہائی خاص ہے کیونکہ اس جیسا کوئی دوسرا جاندار زمین پر موجود نہیں، مگر یہ انسان کی غلط فہمی ہے، ارتقائی حساب سے ماضی قریب ہی میں انسان کے جینس ہومو کے درجن کے لگ بھگ جاندار دریافت ہو چکے ہیں، بدقسمتی سے انسان کے یہ ارتقائی کزن معدوم(Extinct) ہو چکے ہیں۔ ان میں سرفہرست نیانڈراٹال(Neanderathal) تھے جو آج سے تقریباً پندرہ سے بیس ہزار سال پہلے برفانی دور کے اختتام پر معدوم ہو گئے۔
مگر دوسری جانب انڈونیشیاء کے جزیرے جاوا پر کچھ ایسے انسان نما ڈھانچے پائے گئے جو اونچائی میں صرف 1 میٹر تھے جبکہ ان کا اوسط وزن صرف اور صرف 25 کلو گرام کے لگ بھگ تھا۔ یہ مکمل طور پر جوان جانداروں کے ڈھانچے تھے، ان ڈھانچوں کی جانچ سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ ڈھانچے انسان کے قریبی کزن ہومو سولینسس(Homo erectus soloensis) کے تھے، یہ بھی انسان کے ارتقائی کزن تھے، وادیِ جاوا میں ان کے بہت سے ڈھانچے ملے، جن کی ریڈیومیٹرک ڈیٹنگ(Radio-metric Dating) کے ذریعے ان کی عمریں 550000 ہزار سال سے 143000 سال کے درمیان معلوم ہوئیں، جس سے یہ معلوم ہوا کہ ہومو سولینسس آج سے 143000 سال پہلے تک زمین پر وجود رکھتے تھے۔
ہومو سولینسس کے متعلق ڈارون کی ایک پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی، کیونکہ جاوا ایک جزیرہ ہے، ڈارون نے پیشنگوئی کی تھی کہ اگر کوئی جاندار براعظم سے نکل کر جزیرے پر چلا جائے تو اس کی آنے والی نسلوں کی جسامت درجہ بدرجہ چھوٹی ہوتی جائے گی، اس عمل کو ڈارون نے جزیریاتی بوناپن(Island Dwarfism) کا نام دیا تھا۔ ایسا ہی کچھ ہومو سولینسس کے ساتھ ہوا، ہومو سولینسس کے اجداد دراصل ہومو جینس کے باقی اجداد کی طرح افریقا سے مشرقی ایشیاء میں پہنچے تھے، مگر اس وقت عالمی طور پر پھیلے ہوئے برفانی گلیشیر کی وجہ سے سطح سمندر گری ہوئی تھی، جس کے باعث سے جاوا کا جزیرہ مرکزی ایشیاء اور انڈونیشیاء سے جڑا ہوا تھا، بعد ازاں عالمی طور پر گلیشئیرز کے پگھلنے سے سطح سمندر بلند ہو گئی اور ہوموسولینسس کے جو اجداد جاوا کے جزیرے پر رہ گئے وہ وہیں پھنس کر رہ گئے، جزائر پر قدرتی وسائل اور خوراک کی کمی ہوتی ہے، جسکی وجہ سے کسی بھی قسم کے جاندار کے بڑی جسامت والے ارکان جلدی مر جاتے ہیں، کیونکہ ان کو زندہ رہنے کے لئے زیادہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اس طرح آہستہ آہستہ قدرتی چناؤ یعنی خوراک کی کمی چھوٹی جسامت کے ارکان کے لئے فائدہ مند ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے جاندار کے ارکان کی جسامت بتدریج چھوٹی سے چھوٹی ہوتی جاتی ہے، کچھ ایسا ہی ہوموسولینسس کے ساتھ بھی ہوا، اور یہ اپنے جد ہومو اریکٹس کی اونچائی 5.5 فٹ کے مقابلے میں صرف 3.28 فٹ کی جسامت تک محدود ہو گئے۔
ہومو سولینسس پتھر کے ہتھیار بنا کر ان سے شکار بھی کرتے تھے، ہومو جینس کے یہ بونے ہاتھیوں کا شکار بھی کر لیتے تھے، مگر یاد رہے کہ جاوا کے جزیرے پر پائی جانے والے ہاتھی بھی بونا نسل سے تعلق رکھتے تھے کیونکہ یہ بھی ڈاروان کے بتائے ہوئے جزیریاتی بونے پن کا شکار ہو چکے تھے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“