برادرم احمد خلیق صاحب!
ارتقأ کی وجہ سے اہل ِ زمین کو جو فوائد حاصل ہوئے اُن کا شمار ممکن نہیں۔ کسی کمپیوٹر کے لیے بھی ممکن نہیں کیونکہ وہ گنتی سے ہی باہر ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ارتقا کی وجہ سے کم ازکم دس نئے ڈسپلن اکیڈمیا کا حصہ بنے ہیں۔ جن میں اینتھروپولوجی، آرکیالوجی، لسانیات وغیرہ سرفہرست ہیں۔ علاوہ بریں ہزارہا بیماریوں کے مرکز ومنبع کی سمجھ آئی ہے۔ کون سا وائرس خالص انسانی پیراسائیٹ ہے اور کونسا دوسرے جانوروں سے ہمیں لاحق ہواہے۔ کون سی جُوں انسانی جسم کا شروع سے حصہ ہے اور کون سی جُوں کسی اور جانور سے ہمیں ملی ہے۔ آج زمین سے جو بڑے بڑے متعدی امراض ختم ہوگئے ہیں جیسا کہ طاعون یا چیچک وغیرہ یا ملیریا، ٹائفائیڈ اور ٹی بی جیسے حتمی قاتلوں کا علاج وغیرہ، انہیں سمجھنے میں سب سے زیادہ مدد ارتقا کے بعد جنم لینے والی سائنس سے ملی ہے۔ انسانی نفسیات کیسے بدلتی ہے؟ اور عہد بہ عہد انسان مجموعی طور پر کیسے سوچتے ہیں؟ تاریخ کیسے بنی؟ انسانوں نے سفر کیے تو کون کہاں سے آیا؟ کون کہاں بس گیا؟ جو زمین کی مٹی میں بس گئے وہ مٹی سے کیسے پیدا ہوئے؟ کیونکہ مختلف مٹیوں نے ان کی خصلتیں بدل دیں۔ ریتلی مٹی ، پتھریلی مٹی، چکنی مٹی، سُوکھا ہوا گارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر مٹی میں بس جانے والے ہزاروں سال اس مٹی کی اجناس کھا کھا کر کیونکر نئی نئی عادات اور خصلتوں اور ثقافتوں کے نمائندے بنے۔
اگر بھینس اور وہیل مچھلی میں ارتقائی رشتہ ہے تو کیا ان کے ہارمونز سے کچھ فائدہ ہم بھی اُٹھاسکتے ہیں؟
پرانے عہد کے بالوں والے ہاتھی یعنی میموتھ کا ڈین این اے کیا بتاتا ہے؟ پرانے زمانے کے انسانوں میں کون کون سے امراض پیدائشی اور موروثی تھے۔ کیا میموتھ کو لگنے والے جراثیم آج موجود ہیں؟ کیا آج بھی وہ قاتل ہیں؟
کیا ہم ڈی این اے کی مدد سے نابود ہوجانے والے جانداروں کو دوبارہ زندہ کرسکتے ہیں؟ مثلاً آسٹریلیا میں پام کے ایک لاکھوں سال پہلے نابود ہوجانے والے درخت کے آج فارمز کے فارمز ہیں۔
زمین کا ماحول تیزی سے خراب ہورہاہے؟ اسے بہتر بنانے میں سب سے زیادہ کام مطالعۂ ارتقا دے رہاہے۔ زمین کو دوبارہ ٹھیک کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ جو جانور نابود ہوتے جارہے تھے انہیں بچا لیا گیا ہے۔ جیسا کہ پانڈا وغیرہ۔ سب علم ارتقأ کے نتیجے ہیں۔
نیچرل سیلیکشن سے سیکھنے کے بعد اب سیلیکٹو بریڈ کی جاسکتی ہے۔ ہم نے ہزاروں نسل کی مرغیاں پیدا کرلی ہیں۔ ہزاروں نسل کے دیگر جاندار۔ خاص طور پر گائے کی نئی نسلیں، بھینسوں کی نئی نسلیں، بکریوں، گھوڑوں بیلوں کی نئی نئی نسلیں جن سے زیادہ فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ سپائڈر گوٹ میں ہم نے سپائڈر اور بکری کا ڈی این اے ملا کر بکری کے دودھ سے سپائڈر کا سِلک لینا شروع کردیا ہے جس سے مضبوط فیبرک بنائی جاتی ہے۔ دنیا کی سب سے مضبوط فیبرک ، دنیا کی سب سے مضبوط پیراشُوٹ۔
ہم نے لاکھوں کی تعداد میں نئے پھل، نئی سبزیاں اور نئی نئی فصلیں پیدا کی ہیں۔ فصلوں کو زیادہ سے زیادہ گھنا کیسے بنایا جاسکتاہے؟ پیداواریں کیسے بڑھائی جاسکتی ہیں؟ ہم نے سینکڑوں قسم کے نئے آم اور دیگر پھل پیدا کرلیے ہیں۔
غرض جو میں نے کہا کہ ارتقا کی وجہ سے انسان کو پہنچنے والے فوائد کو شمار کرنا ممکن نہیں وہ بہت درست بات ہے۔
اب یہ آپ کے دوسرے سوال کا جواب تھا کہ انسان کو فائدہ کیا حاصل ہوتا ہے؟
جبکہ پہلے سوال کا جواب کہ ایمان کا فائدہ تو ہے کوئی نہیں، یہ ہے کہ برادرم! اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں دوبارہ ویسے پیدا کیا جائے گا جیسے پہلے پیدا کیا گیا تھا۔ ’’انشأ اوّل مرّہ‘‘ اب اگر ہم ارتقا کو جان جائیں تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آخرت کیسی ہوسکتی ہے۔ ہمیں دوبارہ کیسے اُٹھایا جاسکتاہے؟ کیونکہ خود قران نے اِسی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ہمیں کہا کہ غور کرو تو معلوم ہوجائے گاکہ دوبارہ کیسے پیدا کیے جاؤگے۔ ’’اگر تم ہڈیاں بن جاؤ، یا پتھر بن جاؤ، یا لوہا بن جاؤ یا چُورا چُورا ہوجاؤ پھر بھی اللہ تمہیں اُٹھانے پر قادر ہے‘‘ یہ قران نے کہا۔ یہ قران نے واضح الفاظ میں فاسلز کی بات کی ہے۔ نہایت واضح الفاظ میں۔ غور تو کریں، ’’پتھر بن جاؤ یا لوہا بن جاؤ (کُونوا حجارً او حدیدا ۔ قران)‘‘ یہ ہیں فاسلز۔ اسی لیے یہ کتاب، کتاب ِ مبین ہے۔
https://www.facebook.com/idreesazaad/posts/10208755635035118