مشہور انگریزی فلم ’سٹار ٹریک‘ میں ڈاکٹر آپ کے سینے پر کیمرہ لگاتی ہے اور کمپیوٹر آپ کے دل اور خون کی نالیوں کا ایک ہولوگرام بناتا ہے، ڈاکٹر اس تصویر کو بڑا کرتی ہے اور آپ کی کچھ چھوٹی کیپلیریز پر ایک نظر ڈال کر باریک سے باریک تفصیل دیکھ لیتی ہے۔
اب تک ایسا صرف فلموں میں ہی ممکن نظر آتا تھا لیکن نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے میک کارمک اسکول آف انجینئرنگ کے محققین نے ایک نیا ہائی ریزولوشن کیمرہ ایجاد کیا ہے جو پیچیدہ سے پیچیدہ اور دھندلی چیزوں سے لے کر انسانی کھوپڑی کے اندر تک ہر چیز کو باریکی سے دیکھنے کے قابل ہے۔
مذکورہ ٹیم نے ایک پروٹو ٹائپ ٹیکنالوجی بنائی ہے جو کہ آسان الفاظ میں ایک ایسا نیا ہولوگرافک کیمرا جو کہ نہ نظر آنے والی جگہوں کی تصویر بھی بنا سکتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے نتائج جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئے ہیں جس میں مصنف فلورین ولیمٹزر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’یہ ایسا ہی ہے کہ ہم دنیا کی کسی بھی دوردراز سطح پر ایک ورچوئل کمپیوٹیشنل کیمرہ لگا سکتے ہیں اور سطح کو وہیں کے نقطہ نظر سے دیکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں، یہ تکنیک دیواروں کو آئینے میں بدل دیتی ہے۔‘
یہ سائنس کا وہ شعبہ ہے جسے نان لائن آف سائیٹ (NLoS) امیجنگ کے نام سے جانا جاتا ہے اور خودکار (سیلف ڈرائیونگ) کاروں اور جدید طبی پیش رفتوں کے دور میں یہ ایک بڑی خبر ہے۔ وہ بصری سونار (سینسر) کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی آسان طریقے سے کام کرتے ہیں: وہ روشنی کی ایک پَلس بھیجتے ہیں اور پیمائش کرتے ہیں کہ اس کے واپس آنے تک اس میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔یہ محققین کی NLoS تکنیکوں کو تیار کرنے کے لیے پہلی کوشش سے بہت آگے ہے لیکن موجودہ ٹیکنالوجیز ہمیشہ چند رکاوٹوں کا سامنا کرتی ہیں
وولومٹزر نے مزید لکھا کہ ’اگر آپ ہولوگرام میں کسی شے کے پورے لائٹ فیلڈ کو کیپچر کر سکتے ہیں، تو آپ اس چیز کی تین جہتی (تھری ڈائمشنل) شکل کو مکمل طور پر دوبارہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ ہم یہ ہولوگرافک امیجنگ عام روشنی کی لہروں کی بجائے مصنوعی لہروں کے ساتھ بناتے ہیں۔‘
یہ محققین کی NLoS تکنیکوں کو تیار کرنے کے لیے پہلی کوشش سے بہت آگے ہے لیکن موجودہ ٹیکنالوجیز ہمیشہ چند رکاوٹوں کا سامنا کرتی ہیں جن میں کم ریزولوشن امیجنگ، طویل پروسیسنگ کے اوقات اور مختلف تکنیکی سائز کی پابندیاں شامل ہیں۔
موجودہ طریقوں کو اکثر کام کرنے کے لیے یا تو بہت بڑے علاقوں کی ضرورت ہوتی ہے یا وہ صرف انتہائی محدود تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر، روشی کا صرف ایک ذریعہ استعمال کرنے کے بھی اپنے مسائل ہیں کیونکہ روشنی بہت تیز سفر کرتی ہے۔
وولومٹرز کا کہنا ہے کہ ’روشنی کی رفتار سے تیز کوئی چیز نہیں ہے، لہٰذا اگر آپ روشنی کے سفر کے وقت کو زیادہ درستگی کے ساتھ ناپنا چاہتے ہیں تو آپ کو انتہائی تیز رفتار پکڑنے والے ڈیٹیکٹرز کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ بہت مہنگے ہیں۔‘
لیکن ایک کے بجائے دو مختلف ویولینتھ کا استعمال پروٹو ٹائپ کو انتہائی تیز روشنی کے ذرائع اور ڈیٹیکٹر کے بغیر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں ایک تیز، اعلی ریزولیوشن امیج بھی ملتی ہے۔
اگرچہ روزمرہ کی زندگی میں اس ٹیکنالوجی کو آنے سے پہلے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے لیکن وولومٹرز کو یقین ہے ’یہ آئے گی۔‘
https://urdu.geo.tv/latest/270034
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...