حساب دوستاں
۔
میں اولڈ فیشنڈ آدمی ہوں۔ جب دوستوں کا حساب دل میں رکھا جاتا تھا، موبائل میں نہیں۔ بوجوہ مجھے آج بھی مشکل لگتا ہے کہ کسی دوست کی محبت کو عام کروں۔ میں تو مغرب جا کر خاصا "مغرب زدہ" ہو کر بھی اس بات کا قائل نہیں ہو سکا کہ بیوی کو ہر روز آئی لو یو کہنا چاہیے۔ قائل ہوجاتا اگر مغرب کی بیوی کچھ مختلف ہوتی۔ یا روز آئی لو یو کہنے سننے والے کپلز کچھ مختلف نظر آتے۔
خیر بات اپنے دوستوں اور مہربانوں کی کر رہا تھا۔ زندگی میں اگر میں کسی بات کی شیخی بلاجھجھک مار سکتا ہوں تو وہ دوستوں کے بارے میں ہے۔ کبھی موسلادھار بارش میں بھیگے ہوں آپ؟ وہ والی بارش جب آپ کو کپڑوں کے اندر مسام جاں تک نمی اترتی محسوس ہوتی ہے۔ زندگی بھر دوستوں کی ایسی ہی بوچھارمحبت میں بھیگا رہا میں۔
گاؤں کے مزار کے ساتھ بنے اسکول میں پیپل کی گھنی چھاؤں میں بچھے ٹاٹ پر بیٹھے پہلے ہی دن کلاس کی واحد معصوم صورت لڑکی نے اپنی پنسل مجھے دے دی، اور جماعت کے بدتمیز لڑکوں کی ہوٹنگ کا نشانہ بنی۔ تب دوستی کا مفہوم کہاں پتہ ہوگا، بس اتنا یاد ہے کہ وہ ساری کلاس سے ہٹ کر میرے ساتھ بیٹھ جاتی تھی، اور قلم، دوات، پنسل، شاپنر ہم ساجھا استعمال کرتے تھے۔ دوستی اور کیا ہوتی ہے؟ حساب دوستاں گر دل میں نہ ہوتا تو آج برسوں بعد بھی وہ اور میں ٹاٹ کے اس کونے پر ایسے ہی نہ بیٹھے ہوتے۔
ہائی اسکول میں جو دوست بنے انہوں نے احساس کمتری میں ڈوبے اور حساسیت زدہ لڑکے کو اتنی توجہ دی کہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ آج بھی وہ دل میں ہیں۔ انکی محبت گاہے اب بھی ٹھنڈے جھونکے کی مانند چھو جاتی ہے۔ آج بھی خیال رکھتے ہیں خیال کرتے ہیں۔ ہزاروں میل دور جا کر بھی سالوں میں وہی محبت قائم ہے۔ کالج جا کر سوچا کہ اب دوست نہیں بنانے۔ مگر یہ کوئی اختیار کی بات تھوڑا ہے۔ یونیورسٹی میں بھی ایسے دوست ملے کہ حیرانی ہوئی کہ اس سے پہلے کہاں تھے۔
جہاں جہاں کام کیا، دوستی بڑھتی رہی۔ بالاخر تنگ آ کر میری بیوی نے تو کہہ ہی ڈالا کہ یہ قسمت کی بات ہوتی ہے جو تم جیسے بندے کے اتنے دوست بن جاتے ہیں، ورنہ خوبی ایسی کوئی نہیں تم میں۔ حقیقت یہ ہے (کوئی کسر نفسی نہیں) کہ میں خود بھی اکثر سوچتا ہوں۔ رب جو دلوں کو پھیرتا ہے وہ گاہے کچھ لوگوں کے لیے دوسروں کے دلوں میں مہربانی بھردیتا ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ لگتا ہے۔
سوشل میڈیا، جہاں پر "تاج اچھالے جاتے ہیں، تخت گرائے جاتے ہیں" شروع میں بہت "غوطے کھائے"۔ مگر ہر غوطے پر کسی مہربان ہاتھ نے، کسی ہمدرد کی بات نے لائف بوٹ سا کام دیا۔ ورنہ شائد کچھ عرصے میں ہی بوریا بستر گول ہوجاتا۔ اب بھی جس دن ڈیپریشن کا ہلکا شا شائبہ ہوتا ہے کسی نہ کسی مہربان دل کو پتہ چل جاتا ہے اور وہ مجھے احساس دلا جاتا ہے کہ زندگی کرنے کے بہانے ابھی باقی ہیں۔
بات طویل ہوئی جاتی ہے، کہنا فقط یہ چاہتا تھا کہ ان سب دوستوں کا حساب میں دل ہی میں رکھتا ہوں۔ کس کے ساتھ فیس بک پر کتنے سال ہوگئے، کس نے میری سالگرہ پر پھول یا تحفہ بھیجا۔ کس نے کتابیں بھیجیں۔ یا کون پچھلے کئی ماہ سے لگاتار محبت بھرے انداز میں "گڈ مارننگ" کے میسیج بھیج رہا ہے (خاتون نہیں ہے، اندازے مت لگائیے ) سب دل پر نقش ہے۔ سب کے لیے بہت محبت ہے اس خیال رکھنے پر۔ کوئی خوبصورت دعاؤں میں یاد رکھتا ہے تو کسی کو میری تحریر سے ایک دن کا ناغہ گوارا نہیں۔ کوئی میرے سفید بالوں کے لیے اچھی مہندی تجویز کردیتا ہے تو کسی کو میرے اہل و عیال کی خوشیوں کے لیے نیک خواہشات کا خیال رہتا ہے۔
یہ سب میرے دل میں ہے۔ اور دل ہی میں رہے گا۔ جیسا کہ شروع میں لکھا۔ میں اولڈ فیشنڈ آدمی ہوں۔ دوستوں کا حساب دل میں رکھتا ہوں۔ تحریر میں یا منہ سے کہہ نہیں پاؤں گا۔ مگر یاد رکھوں گا ۔ ۔ ۔ آخری سانس تک۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“