کاربن کے چھ الیکٹران ہیں۔ ان میں سے باہری شیل میں پائے جانے والے چار الیکٹران اس کی شخصیت بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ پنسل کا سیاہ سکہ بھی کاربن ہے اور منگنی کی انگوٹھی میں جڑا چمکدار ہیرا بھی۔ فرق صرف اس کا ہے کہ کاربن آپس میں بانڈ کس طرح بناتا ہے۔
ایک عام سائز کے ہیرے میں ایک ملین بلین بلین ایٹم ہیں جو ایک خاص ترتیب میں اور ایک پیرامڈ جیسے سٹرکچر میں فِٹ ہوتے ہیں۔ اس کی خاصیتیں اس سٹرکچر کی بنا پر ہیں۔ الیکٹران بڑی مستحکم حالت میں ایک دوسرے سے لاکڈ ہیں جس کی وجہ سے اس کی بے پناہ مضبوطی آتی ہے۔ یہ شفاف بھی ہے یعنی بصارت کی حد والی روشنی کو جذب نہیں کرتا لیکن ساتھ اس کا آپٹیکل ڈسپرشن غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے جس کا مطلب یہ کہ جب اس میں روشنی داخل ہوتی ہیں تو رنگوں میں بٹ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں روشن جھلملاتی کہکشاں نظر آتی ہے۔ اس کی سختی اور روشتنی کے ساتھ یہ کھیل اس کو قیمتی پتھر بنا دیتے ہیں۔ بارش ہو یا طوفان آئے۔ جنگل میں جائیں یا کچن میں برتن دھوئیں، اس کو کوئی اثر نہیں ہو گا۔ پہننے والی کی پوری عمر میں اس کو خراش تک نہیں آئے گی۔
ہماری کہکشاں میں سب سے بڑا ہیرا تو 2011 میں زمین سے چار ہزار نوری سال دور دریافت ہوا تھا جو کہ ایک پلسار کے گرد گردش کرتا ہوا ہیرا ہے جو زمین سے پانچ گنا بڑا ہے۔ زمین پر ملنے والے ہیرے اس سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا ہیرا جنوبی افریقہ میں ایک کان سے نکل تھا جس کو 1907 میں شاہ ایڈورڈ ہفتم کی سالگرہ کے موقعے پر تحفے میں پیش کیا گیا۔ یہ زمین کی سطح سے بڑی گہرائی میں تین سو کلومیٹر نیچے بنا تھا جہاں اربوں برس کی حرارت اور پریشر نے اس کاربن کی چٹان کو ہیرے میں بدل دیا تھا۔ کسی آتش فشانی عمل میں یہ زمین کی سطح کے قریب آ گیا اور کئی ملین سال تک سطح سے ایک میل نیچے چپ چاپ پڑا رہا۔ پھر اس کو ڈھونڈ لیا گیا۔
اس ہیرے کو محفوظ طریقے سے برطانیہ پہنچانا آسان نہیں تھا۔ اس کے ملنے کی خبر عام ہو گئی تھی۔ بدنام لٹیرے جیسا کہ ایڈم ورتھ تھے، وہ راستے میں اس کو چھین سکتے تھے۔ اس کا پلان یہ بنایا گیا کہ ایک جعلی پتھر کو سٹیم بوٹ میں بہت ہی سکیورٹی کے ساتھ بھیجا گیا جبکہ اصل ہیرے کو عام سے ڈبے میں عام پوسٹ کے ذریعے۔ یہ طریقہ کام کیوں کر گیا؟ کاربن کی ایک اور خاصیت کی وجہ سے، جو کہ اس کا ہلکا وزن ہے۔ فٹ بال کے سائز کے اس ہیرے کا وزن آدھا کلوگرام تھا۔ یہ آج ٹاور آف لندن میں رکھا ہوا گریٹ سٹار آف افریقہ ہے۔
سونے کے برعکس ہیرا کبھی بھی کرنسی کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔ کیونکہ اس کو پگھلا کر اس کی شکلیں اور وزن نہیں بدلے جا سکتے۔ یہ “مائع اثاثہ” نہیں۔ اس کو ہمیشہ سٹیٹس کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے صرف بہت ہی امیر لوگ اس کو افورڈ کر سکتے تھے لیکن اس کی پروڈکشن میں اضافہ ہونے لگا۔ اس کی نوے فیصد پروڈکشن ایک ہی ادارے ڈی بئیرز کے پاس تھی۔ ان کو چیلنج یہ تھا کہ کہیں اس کی قیمت نہ گر جائے۔ اس کے لئے ان کی چلائی گئی مارکٹنگ کی مہم کامیاب ترین مہموں میں سے ہے “ہیرا، ہمیشہ کیلئے” کی مہم نے ان کو محبت کے اظہار کی علامت کے طور پر ایجاد کیا۔ ہیرے کی انگوٹھی اس مہم کا نتیجہ ہے۔ اس اشتہاری مہم نے کاربن کی اس شکل کو محبت کی علامت بنا ڈالا۔ اس کا کردار سٹیٹس کے ساتھ اب رومانس میں بھی آ گیا۔
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ “ہیرا، ہمیشہ کیلئے” درست نہیں۔ گریفائیٹ کاربن کی سب سے مستحکم شکل ہے۔ ہر ہیرا بہت آہستہ آہستہ گریفائٹ میں بدل رہا ہے۔ (اگر آپ کے پاس ہیرا ہے تو گھبرائیں مت، اس میں چند ارب سال لگیں گے)۔
کوئلے یا گریفائیٹ اور ہیرے میں کچھ بھی مشترک ہو سکتا ہے۔ اس کا پہلی مرتبہ پتا کیسے لگا؟ یہ کام فرنچ سائنسدان اینتوائن لاووسیے کا تھا۔ انہوں نے 1772 میں ایک تجربہ کیا اور پتہ لگایا کہ جب اس کو جلائیں تو سرخ ہو جاتا ہے اور پھر غائب۔ کچھ بھی پیچھے نہیں چھوڑتا، بس ہوا میں غائب۔ یہ حیران کن تھا۔ دوسرے پتھر جیسا کہ زمرد یا یاقوت وغیرہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ وہ جلتے ہی نہیں تھے اور بہت زیادہ درجہ حرارت برداشت کر لیتے تھے لیکن جواہرات کی دنیا کے بادشاہ کی یہ ایک بڑی کمزوری تھی۔ (ہیرا جل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ بن جاتا ہے)۔
اس سے اگلا تجربہ جو لاووسیے نے کیا، وہ اس عظیم سائنسدان کے زرخیز دماغ کا ایک ثبوت ہے۔ ایک ویکیوم پیدا کیا تا کہ اس کو ری ایکشن کے لئے ہوا نہ مل سکے۔ اور پھر اس کو گرم کیا۔ (یہ تجربہ کہنے میں آسان ہے، کرنے میں نہیں۔ خاص طور پر اس دور میں جب خلا پیدا کرنا خود بہت مشکل کام تھا)۔ اس سے جو نتیجہ نکلا، اس نے لاووسیے کو ہکا بکا کر دیا۔ ہیرا پھر بھی سلامت نہیں بچا تھا لیکن اب وہ خالص گریفائیٹ میں بدل گیا تھا۔
اس تجربے نے یورپ میں ایک نئی دوڑ شروع کر دی کہ اس کا برعکس کیسے کیا جا سکتا ہے۔ سیاہ گریفائیٹ سے چمکدار ہیرا کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ دعوے پر دعوے، ناکامی پر ناکامی کی یہ دوڑ اگلی کچھ صدیوں تک چلتی رہی۔ اربوں سال تک زمین کی گہرائی جیسی کنڈیشن اور وقت میں بننے والے ہیرے نہیں پیدا کئے جا سکے۔ مصنوعی ہیرا سب سے پہلی مرتبہ 1953 میں پیدا کیا گیا اور مصنوعی ہیرے بڑا بزنس ہیں لیکن یہ اپنی جمالیاتی خوبصورتی کی وجہ سے نہیں عملی کاموں کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اپنی سختی کی وجہ سے کاٹنے اور ڈرل کرنے کے آلات پر۔ کوئی بھی ماہر قدرتی اور مصنوعی ہیرے کو آسانی سے شناخت کر سکتا ہے۔
منگیتروں کو مصنوعی ہیرے والی انگوٹھیاں کیوں نہیں دی جاتیں؟ اگر آپ رومانٹک ہیں تو زمین کے شکم میں ایک ارب سال تک پکنے والا پتھر کا ٹکڑا دینا چاہیں گے۔ اور اگر آپ حد سے زیادہ منطقی ہیں جس کو ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا تو پھر مصنوعی ہیرا ہی کیوں؟ کیا زرکونیا کے کرسٹل یا پھر شیشہ بھی کافی نہیں؟