رات کا گھپ اندھیرا تھا۔ چاندنی رات ہوتی تو اردگرد سیاہ پہاڑ دیکھے جاسکتے تھے جو شام ڈھلے دالبندین کی طرف سفر کرتے نظر آرہے تھے۔ اس قدر سیاہ پہاڑ میں نے دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں دیکھے۔ سڑک باقاعدہ پختہ نہیں تھی، بس صرف ٹریفک کے تسلسل کی وجہ سے سڑک کے سائز کی ایک پگڈنڈی تھی اور ہماری بس اس پگڈنڈی نما راستے پر زیادہ سے زیادہ چالیس سے پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کے قابل تھی۔ بارش اور اس کے بعد جم جانے والی مٹی سے راستہ ناہموار تھا۔ اس ناہمواری کے سبب مسلسل جھٹکوں سے سارے بدن میں اوپر سے نیچے تک عجیب سی الجھن ہونے لگی تھی۔افغان جہاد کے سبب ساری بس میں چھے فٹ دراز منگول نسل کے افغانی مہاجر سوار تھے۔ میرے علاوہ ایک دوسرا پنجابی تھا، جو سیکیورٹی فورس سے تعلق رکھتا تھا۔ خاموش رات اور صحرا میں جمی مٹی کے سبب ناہموار راستے پر سست روی سے رواں بس۔ خاموشی نہیں ،بلکہ ایک پُراسرار سکوت تھا۔ بلوچستان کے دہشت انگیز سیاہ پہاڑ۔ بس کا رخ پاک ایران سرحد تفتان کی جانب تھا۔ جہاںگردی کی جستجو نہ ہوتی تو یہ ایک مکمل مہم جُو سفر تھا۔ بس ڈرائیور کا رویہ میرے ساتھ سوتیلا نہیں بلکہ دشمنی پر مبنی لگتا تھا۔ اس لیے اس کے ساتھ تعلق بنانے کی مزید ہمت نہیں تھی۔ سیاہ پہاڑوں، خشک صحرا اور سیاہ ترین رات میں چلتی بس کی مدھم روشنی یکایک صحرا میں چند انسانوں پر پڑی۔ اِدھر اُدھر ہلتے جلتے انسان۔ سیاہ رات میں بس کی مدھم روشنی نے اُن کی چمڑی کو جس طرح یکایک شدید آشکار کیا، آنکھیں دنگ رہ گئیں۔ صحرا میں یہ چڑیلیں کہاں سے آگئیں؟ میں خوف زدہ اور حیران تھا، مگر ڈرائیور خوشی سے قہقہے لگانے لگا۔ اس نے بلوچی زبان میں اپنے دونوں کنڈکٹروں کو بھی اپنی خوشی اور شغل میں شامل کرلیا۔ یہ کون لوگ ہیں! ارے ایک بس بھی کھڑی ہے! ڈبل ڈیکر بس اور رنگ برنگی۔ چٹی چمڑیوں والے صحرا پر یوں لیٹے ہوئے تھے جیسے ترکی میں انطالیہ کے ساحلوں پر یورپی سیاح موسم گرما میں لیٹے ہوتے ہیں۔ بس ڈرائیور نے یکدم سٹئیرنگ بائیں جانب گھما کر فوراً بریک لگا دی۔ رات کی سیاہی میں بس کی روشنی نے ان سب آزاد انسانوں کو مکمل طور پر بے نقاب کردیا۔ یہ سب ہپی (Hippies) تھے۔ 1983ء کے یورپ کی جانب گامزن اپنے سفر میں میں نے ہپیوں کو کئی مقامات پر پایا۔ مگر نوے کی دہائی میں یہ ناپید ہوگئے۔
ہپی اس دنیا میں یکایک نمودار ہوئے اور شہابِ ثاقب کی طرح مٹتے اور ختم ہوتے چلے گئے۔ مغرب کی مادہ پرستی سے تنگ ہپی، جرمنی سے چلتے، یورپ عبور کرتے ہوئے باسفورس، اناطولیہ، ایشیائے کوچک، سرزمین ایران، افغانستان، پاکستان، گنگا جمنا کے دیس اور پھر کھٹمنڈو جا ڈیرے لگاتے۔ ساگر ماتا (مائونٹ ایورسٹ) دنیا کے بلندترین پہاڑ کے پہلو میں۔ نیپال ان ہپیوں کی جنت اور آخری منزل ہوتی تھی۔ چاہے وہ یورپ سے چلتے، امریکہ یا آسٹریلیا سے پہنچنا انہیں کھٹمنڈو ہوتا تھا۔ میں نے اپنے سفروں میں متعدد ہپیوں سے دوستی بھی گانٹھی۔ کئی مرتبہ تو اپرمال پر قائم انٹرنیشنل ہوٹل جاکر اُن سے ملاقاتیں کرتا جہاں اُن کی مشہورِزمانہ Top Deck ڈبل ڈیکر بسیں آکر رکتی تھیں۔
سرمایہ دار دنیا کے ان باغیوں کی داستان بھی عجب ہے۔ یہ ایسے باغی ہوئے جنہوں نے کبھی کسی کو اپنی بغاوت اور باغیانہ طرزِزندگی میں تشدد کا نشانہ نہیں بنایا۔ مال، دولت، سرمایہ دارانہ طرزِزندگی کے اِن باغیوں نے جہاں جہاں قدم رکھے، وہاں اپنے اثرات چھوڑتے چلے گئے۔ ان کے نزدیک مصنوعی خوراک، یعنی کھاد اور کیمیکلز سے محفوظ خوراک کو ہاتھ لگانا گناہ تھا، حتیٰ کہ نہاتے بھی کم کم تھے۔ کپڑے بھی بس جس قدر ممکن ہو کم ہی پہنتے تھے۔ بال کٹوانا تو بہت ہی معیوب تھا ان باغیوں میں۔ باغیوں کی یہ ایک عجیب تحریک تھی، جس کا کوئی رہبر نہیں تھا۔ کوئی دفتر، سیکریٹریٹ، چھپا منشور، عہدے دار، لیڈر، رکنیت سازی نہ تھی۔ مکمل آزادا ور خودمختار تحریک تھی۔
سرد جنگ کے زمانے میں جنم لینے والے ان باغیوں نے عالمی سیاست اور ثقافت پر وہ اثرات مرتب کیے کہ دنیا کی عالمی طاقتیں اپنے وسائل اور پراپیگنڈے سے وہ اثرات مرتب نہ کر پائیں۔ ہپی میرے یار، ان میں سے کچھ ابھی بھی حیات ہیں۔ ان ہپیوں میں دنیا کے کئی نامور لوگ بھی شامل ہوئے۔ مغرب کے بڑے بڑے لیڈر، گلوکار، فنکار، فلاسفر اور لکھاری۔ مگر پھر بھی اس عالمی تحریک کا کوئی مرکز بھی نہیں تھا۔ ایک ہپی کو میں نے مسلسل چار روز لاہور چھائونی میں میرے گھر کے قریب ایک پارک میں لیٹے دیکھا۔ پانچویں دن جب میں اس کے قریب گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بھوک سے اَدھ موا ہوچکا تھا۔ ایک جواںسال ہپی اس کا تعلق سابق یوگوسلاویہ سے تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میرے وطن میں غیرملکی آنے سے ڈرتے نہیں تھے، بلکہ اپنے آپ کو بڑا محفوظ سمجھتے تھے۔ پاکستان میں سفر کے دوران اُن کے لیے یہ زمین تنگ نہیں کی گئی تھی۔چار دن سے پارک میں پڑے اس ہپی کے پاس گیا اور پوچھا، کھانا کھائو گے؟ میرے گھر چلو گے؟ اس کے بدن سے ہمت اور طاقت خاصی حد تک نکل چکی تھی۔ وہ کئی روز میرے ہاں کھاتا، پیتا اور سوتا رہا بلکہ میں نے اسے نہانے پر بھی مجبور کیا اور اس کے تمام کپڑے بھی دھلوائے۔ پھر وہ میرا ایسا دوست بنا کہ دنیا بدل گئی مگر ہماری دوستی نہ بدلی۔
ایک ہپی جوڑا ابھی چند سال قبل دوست بنا۔ یہ اطالوی جوڑا،استنبول میں آیاصوفیہ کے پہلو میں صوفیانہ لباس میں ملا۔ جہاںگردی کے دوران میں جب بھی ایسے عجیب لباس پہنے مسافر دیکھتا ہوں تو چونک کر اُن کی طرف لپکتا ہوں۔ بڑا خوب صورت جوڑا، اُن کی عمریں ساٹھ سے اوپر تھیں۔ میں استنبول میں آیاصوفیہ کے پہلو میں یوتھ ہاسٹل میں ٹھہرا ہوا تھا، وہ بھی وہیں ٹھہرے تھے۔ سلام دعا کے بعد دوستی کا خواہش مند تھا۔ اور پھر ہر روز محفل جمتی۔ وہ بھی میری طرح جہاںگرد تھے۔ ایک سے دوسرے ملک اور کئی ملک بار بار سفر کرنا۔ مسلمان پیدا ہوئے یاکہ اسلام بعد میں قبول کیا؟ مغرب میں کسی کا عقیدہ، مذہب پوچھنا غیرمہذب سمجھا جاتا ہے، مگر میں نے طریقے اور سبھائو سے پوچھ ہی ڈالا تاکہ بات کے سرے تک پہنچا جائے۔ اس اطالوی صوفی جوڑے نے بتایا کہ ہم شادی سے پہلے ہپی تھے۔ خالی جیب پوری دنیا گھومتے۔ چلتے چلتے سفروں میں ہم دونوں ہمسفر بنے اور پھر ایک دن ہرے کرشنا ہرے رام کرتے کرتے ہم نے دمادم مست قلندر گیت سنا۔ گیت کے قریب ہوتے ہوتے ہم ایک دن مسلمان ہوگئے۔ مگر ہم دونوں نے ہمسفری نہیں چھوڑی۔ ایک سے دوسرے ملک چلے جاتے ہیں۔ وقت ملے تو واپس اپنے وطن اٹلی چلے جاتے ہیں۔ سارا جہان ہی ہمارا ہے۔ یہ سرحدیں ہمیں بھلا کیسے تقسیم کرسکتیں۔ خدا کا جہان ایک ہے تو پھر اس کی تقسیم کیوں؟
ساٹھ کی دہائی میں لامرکزیت اور بغیر منشور کے اٹھنے والی یہ تحریک دنیا پر جو اثرات مرتب کرگئی، اس کے اس کردار نے مجھے اُن کے مزید قریب کردیا۔ امریکہ سے ہپیوں کا آغاز ہوا اور یورپ میں اُن کی عددی تعداد میں اضافہ ہوا۔ انسانوں کی اس آزاد تحریک نے جدید عالمی سیاست پر دو اہم اثرات مرتب کیے۔ -1 جنگ مخالف تحریک -2 آلودگی کے خلاف تحریک۔ اس کے علاوہ ہپیوں نے موسیقی اور مصوری میں بھی اپنے انمٹ اثرات مرتب کیے۔ ویتنام کی جنگ کے خلاف امریکہ میں احتجاجی تحریک نے ہپیوں ہی میں جنم لیا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی ہپی تحریک کا عروج کا دور ہے۔ سان فرانسسکو اور نیویارک کی گلیوں میں جنگ مخالف ہپیوں نے امریکی سامراج کو ایسا جھٹکا دیا کہ دنیا کی سیاست ہی بدل گئی۔ ان ہپیوں نے امریکہ میں مظاہروں کے علاوہ ویتنام کے میدانِ جنگ میں جاکر امریکہ کے فوجیوں کو پھول پیش کرکے ، بم کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہتھیار استعمال کرکے اُن کے ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا اور یوں امریکہ اپنے ملک کے اندر ویتنام جنگ مخالف تحریک کے نتیجے میں ویتنام چھوڑنے پر مجبور ہوا۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی کے آزاد انسانوں کی اس تحریک نے عالمی ادب پر بھی اثرات مرتب کیے۔ حشیش کے کش لگاکر دنیا کا غم مٹانے والے ان انسانوں کو سرمایہ داری نے وقت آنے پر ایسا غصب کیا کہ ایک طرف جہاں یہ مٹتے چلے گئے، دوسری طرف دنیا بھر میں سرمایہ داری کے ان کَل پُرزوں نے حشیش اور کیمیکلز کے ملاپ سے ایک ایسا انسانیت کش نشہ ایجاد کرلیا جس نے مختلف خطوں میں جوان نسلوں کو نگلنا شروع کردیا۔ ہیروئن، جو یورپ کے ان لالچی سرمایہ داروں کی ایجاد ہے، جن کے ہاتھ ہپی تحریک بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوتی چلی گئی۔ اور لاتعداد ممالک کی جوان نسلیں بھی اس انسان کش نشے کے ہاتھوں سسکنے لگیں۔ مگر آزاد انسانوں کی یہ تحریک ، ہپی تحریک آج بھی جنگ مخالف اور آلودگی کے خلاف ایک تاریخ ساز کردار کے سبب مغربی دنیا کے دانشور اور عوامی حلقوں میں یاد کی جاتی ہے۔
“