جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے لوگ سب سے پہلے دہلی پہنچے اور بسے تو وہ اس جگہ سے اثر قبول کئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے یہاں کی روایات اپنا لیں۔ جب برٹش کمانڈر انچیف کی اہلیہ لیڈی ماریہ نیوجنٹ نے دہلی کا دورہ کیا تو اس کو نوٹ کیا۔ انہوں نے لکھا ہے، “ہمارے لوگ تو ان جیسے ہو چکے ہیں۔ ویسے ہی بڑی بڑی مونچھیں رکھنے لگے ہیں۔ گائے اور سور کا گوشت کھانا چھوڑ دیا ہے۔ ویسے ہی خیالات اپنا لئے ہیں۔ سوائے شکل و صورت کے، یہ لوگ مقامی ہو گئے ہیں”۔
دہلی کا کلچر اپنا لینے والے تاریخ میں “گورے مغل” کہلائے گئے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان میں شادیاں کر لیں۔ (“بی بی” کا لفظ انگریز کی مقامی بیوی کے لئے استعمال ہوتا تھا)۔ کئی لوگوں نے اپنا مذہب بھی چھوڑ دیا۔
انیسویں صدی میں یہ رجحان بدلنا شروع ہو گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ برٹش برتری تھی جنہوں نے فرانسیسی فوجوں کو بھی فیصلہ کن شکست دے دی تھی اور مقامی حکمرانوں کو بھی۔ دوسری وجہ کرسچن انتہا پسندوں کی آمد تھی جو مقامی آبادی کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔
برطانوی آفیشلز نے 1850 کی دہائی کے اوائل سے پلان بنانا شروع کر دیا تھا کہ مغل بادشاہت کو ختم کر دیا جائے اور نہ صرف برطانوی قوانین اور ٹیکنالوجی انڈیا میں متعارف کروائی جائے بلکہ مسیحیت بھی۔ مغلوں کی رواداری کی جگہ جب ان نئے برٹش خیالات نے لی تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا۔ اور یہ وہ غیرحساسیت تھی جو 1857 کے انقلاب تک لے آئی۔ ہندوستانیوں کے لئے “جنگِ آزادی” اور برٹش کے لئے “غدر”۔ یہ اتنا کامیاب تھا کہ 139000 بنگال فوجیوں میں سے صرف 7796 ایسے تھے جو برٹش آرمی سے وفادار رہے تھے۔ اودھ میں مقامی آبادی ان فوجیوں کے ساتھ ہی اٹھی تھی۔
اس انقلاب کا گڑھ دہلی تھا۔ انقلابی افواج نے شمالی انڈیا سے یہاں کا رخ کیا تھا۔ کانپور پر نانا صاحب کے حملوں کے فوجیوں نے بھی۔ اور انگریزوں کو یہ معلوم تھا کہ اگر دہلی کو قابو میں نہ لے سکے تو ان کی ہمیشہ کے لئے چھٹی ہو جائے گی۔ اور اسی طرح وہ تمام انقلابی سپاہی جو دہلی پہنچے تھے، وہ بہادر شاہ ظفر کو جائز حکمران تسلیم کرتے تھے اور انہیں بھی معلوم تھا کہ دہلی ہاتھ سے گیا تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ تمام برٹش فوجیوں کو اس مقابلے سے نپٹنے کے لئے دہلی بھیج دیا گیا تھا۔ اور اس کے لئے مغربی ہندوستان کے لاہور سے پشاور تک جیسے اہم مقامات کو خالی کر دینے کا خطرہ بھی مول لیا گیا تھا۔ ہندوستان کے گرم ترین موسم کے چار مہینوں میں مغل دارالحکومت برٹش آرٹلری کی گولہ باری سے سنسناتا رہا اور “دہلی والے” اس لڑائی کے درمیان رہے جو انہوں نے شروع نہیں کی تھی۔
ملک کے دوسرے حصوں میں کیا ہو رہا تھا؟ دہلی میں جمع ہونے والی افواج اس سے بے خبر رہیں۔ شروع میں محاصرہ کرنے والی برٹش افواج کانپور سے جنرل وہیلر کی فوج کا انتظار کر رہی تھیں۔ جبکہ کانپوریوں نے برٹش فوج کو شکست دے دی تھی۔ جنرل وہیلر نے ہتھیار ڈال دئے تھے اور انقلابیوں نے ان کی فوج کے ایک بھی سپاہی کو زندہ نہیں چھوڑا تھا۔ برٹش کو اس شکست کا ایک ماہ بعد پتا لگا تھا۔ دہلی والے فارس سے آنے والی دو افواج کا انتطار کرتے رہے۔ ایک نے درہ خیبر سے پہنچنا تھا اور دوسری نے براستہ سمندر ممبئی سے۔ اس افواہ پر یقین کیا جاتا رہا۔
یہ کسانوں کا انقلاب تھا یا شہری انقلاب۔ طبقاتی کشمکش تھی یا مذہبی جنگ۔ جنگِ آزادی تھی یا فوجی بغاوت؟ یہ سب کچھ تھا۔
دہلی خوبصورت خواتین، میٹھے آموں, بہترین شعراء اور نفیس اردو کا شہر سمجھا جاتا تھا۔ جب یہاں انقلابی سب سے پہلے آئے تھے تو انہیں خوش آمدید کہا گیا تھا۔ لیکن یہ جلد ہی بدل گیا تھا۔ دہلی والے بہار سے اور اتردیش سے آئے لوگوں سے اور ان کی ہلڑبازی سے خوش نہیں تھے۔ خاص طور پر جب لوٹ مار کے واقعات ہونے لگے تھے۔ دہلی میں ان کو “تلنگا” یا “پوربئے” (مغرب سے آنے والے) کہا جاتا تھا۔
دہلی اردو اخبار میں ان کی آمد پر پہلے مولوی باقر نے بہت پرجوش مضمون لکھا کہ “جب ان فوجوں نے آ کر ہمیں کفار سے نجات دلائی تو میں سبز پگڑیوں والے سوار ان کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ یہ اللہ کی بھیجی گئی مدد تھی۔ انہوں نے ان کافروں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا”۔
اور دو ہفتے بعد ۔۔۔۔
“جب یہ شہر میں گھنٹا والا سے مٹھائی کھا رہے ہیں اور جامع مسجد کے پاس گپیں لگا رہے ہیں تو یہ اپنی طاقت اور ارادہ کھو چکے ہیں۔ انہیں انگریزوں سے زیادہ دہلی کی عورتوں میں دلچسپی ہے۔ انہوں نے شہر میں اودھم مچا دیا ہے۔ یہ دہلی کے لئے برا وقت ہے”۔
دہلی میں لڑنے والے بہت طرح کے تھے اور یہ ایک نکتے پر متفق تھے۔ مغلیہ سلطنت کی بحالی پر۔ یہ لڑائی شروع ہندو فوجیوں نے کی تھی۔ ہندستان میں تاریخ لکھنے والے اور فلمیں بنانے والے اس نکتے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں کہ خواہ میرٹھ کے تھے یا بنگال کے یا کہیں اور کے۔ ہندو فوجیوں نے اکٹھا ہونے کے لئے انہوں نے سیدھا مغل جھنڈے تلے جمع ہونے کے لئے دہلی کا ہی رخ کیا تھا۔
بہادر شاہ ظفر خواہ جتنے بھی بے اختیار تھے، “خلیفہ الوقت” اور “ظل الٰہی” کہلاتے تھے۔ مسلمان ہوں یا ہندو، سب کے لئے اکٹھا ہونے کی علامت تھے۔
قانونی طور پر بغاوت کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے مغل بادشاہ کی زیرِ نگیں تھی۔ کمپنی کو سرکاری طور پر مغلوں نے بنگال سے ٹیکس اکٹھا کرنے کا ٹھیکہ دیا ہوا تھا اور بادشاہ کی اجازت سے اسے کاروبار کرنے کی اجازت تھی۔ تاریخ کا یہ مذاق ہے کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے ایک بادشاہ کو “غداری” کے جرم میں سزا سنائی تھی۔
اور یہ وجہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر اپنی کمزوری کے باوجود لوگوں کی امیدوں کا مرکز تھے اور یہ برٹش کے لئے حیران کن تھا کیونکہ وہ اس بادشاہ کو سنجیدہ لینا کب کا چھوڑ چکے تھے۔
اس انقلاب کا ایک پہلو مذہبی جنگ کا تھا۔ جب سپاہی بہادر شاہ کے پاس آئے تھے تو انہیں کہا تھا کی “ہم اپنا دھرم اور دین بچانے آئے ہیں”۔ جو برٹش مرد و خواتین مسلمان ہو چکے تھے (اور ان کی تعداد کم نہیں تھی)، انہیں کچھ نہیں کہا گیا تھا۔ جبکہ جو انڈین کرسچن ہو چکے تھے، انہیں بھی مار دیا گیا تھا۔ برٹش آرمی کے لئے “گورے” یا “فرنگی” کا نہیں، بلکہ “کافر” یا “نصرانی” کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔
اگرچہ بڑی تعداد میں ہندو تھے، لیکن جہاد کا علم جامعہ مسجد سے بلند کیا تھا۔ اور سب کو مجاہدین، غازی یا جہادی کہا جاتا تھا۔
آج یہ علاقہ اور پرانے کھنڈر غائب ہو رہے ہیں۔ کبھی خبر آ جاتی ہے کہ ذوق کے مقبرے کی جگہ پبلک ٹوائلٹ بن گیا ہے یا غالب کی حویلی کی جگہ کوئلے کا سٹور آ گیا ہے لیکن یہ تاریخی عمارات مٹتی جا رہی ہیں۔ پرانے دہلی کی جگہ اب آئی ٹی کی بلڈنگز، شاپنگ مال اور تیزی سے پھیلتا انفراسٹرکچر لے رہا ہے۔
ان سب کے نیچے دہلی کے پرانے علاقوں میں وہ قتلِ عام ہوا تھا جس نے برٹش کے لئے اس کالونی پر اگلے نوے سال کے لئے ان کا مستقبل محفوظ کر دیا تھا۔
اور اگر کوئی آج کی دنیا میں پاکستان اور انڈیا کے تلخ تعلقات کے ستر سالوں کو سمجھنا چاہے، تو 1857 میں ہونے والا انقلاب اور اس کی عجیب مذہبی تقسیم کو سمجھنا بھی بہت مددگار رہے گا۔ جس میں ایک طرف مسلمان اور ہندو ایک مسلمان بادشاہ کے جھنڈے تلے جمع تھے اور دوسری طرف کرسچن فورسز، جن کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے سکھ اور مسلمان فوجی تھے۔
ہندوستان پر برطانوی فتح کی تاریخ زیادہ تر برٹش نے لکھی ہے۔ یا پھر کچھ انڈین قوم پرستوں نے۔ اس جنگ کی کئی اطراف تھیں۔ اور یہ ریکارڈ محفوظ رہے ہیں۔ صرف یہ کہ ان کو پڑھنے والے نہیں رہے۔ انہیں زیادہ پڑھا نہیں گیا۔ بھیجے گئے خطوط، عرضداشتیں، درخواستیں، احکام، روزنامچے، اخبارات۔ انڈین نیشنل آرکائیو سے، لاہور میں سیکرٹیریٹ میں پنجاب آرکیائیو اور برما کے آرکائیو میں محفوظ رہے ہیں۔ بہت سا مواد برٹش ریکارڈ کا حصہ ہے۔ یہ اس اہم واقعے کو، دہلی کے عام شہریوں کی آنکھ سے بھی دکھاتے ہیں، انقلابیوں کی نظر سے بھی، انگریزوں کے نکتہ نظر سے بھی اور بہادر شاہ ظفر کی نگاہ سے بھی۔ ان شکستہ تحریروں کو اکٹھا کر کے پڑھنے پر ایک مکمل تصویر بنتی ہے۔ لاہور سے اعجاز الدین، یونس جعفری، عذرا قدوائی، ارجمند آراء، رنگون سے وکی بومین، ہندوستان سے سیما علوی، مرزا فرید بیگ، سندیپ ڈوگل، شیریں ملر اور وینا کپور۔ سکاٹ لینڈ سے ولیم ڈالرمپل اور برطانیہ سے امین جعفر، کرسٹوفر ہبرٹ، مہرا ڈالٹن، امریکہ سے نیل فرگوسن، اندرانی چیٹرجی نے ان کی مدد سے تاریخ کا یہ باب ترتیب دیا ہے۔
دہلی اردو اخبار اور سراج الاخبار نے اس سب واقعے کے دوران اشاعت ایک دن کے لئے بھی نہیں روکی اور یہ سب انڈین نیشنل آرکائیو کا حصہ ہیں۔ ظہیر دہلوی، جو اس وقت مغلیہ دربار کا حصہ تھی، کی لکھی گئی “داستانِ غدار” بہت کھلے واقعات پر مشتمل ہے۔ مضامین کا یہ سلسلہ ان سب سورسز سے لیا گیا ہے۔ آنے والی اقساط میں قوسین کے درمیان اصل الفاظ ہوں گے جن میں سے کچھ آج کے وقت کے لحاظ سے نامناسب لگیں لیکن یہ ہمیں اس وقت کی فکر کا پتا دیتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...