بہت مصروف تھے کار جہاں میں روز و شب لیکن
مرض جب سے لگا ہے عشق کا ، بیکار بیٹھے ہیں
17 جنوری 1997:تاریخ پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستانی شاعرہ اور افسانہ نگار فوزیہ اختر صاحبہ 17 جنوری 1997 میں شیخ پورہ بہار میں پیدا ہوٸیں ان کے والد صاحب کا نام اختر عالم والدہ صاحبہ کا نام نوشابہ جبیں خاوند محترم کا نام محمد اقبال ہے اولاد میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی محمد عاشر اور انوشہ اقبال ہیں ۔ فوزیہ اختر نے بی اے اردو آنرز کیا ہے ۔ انہوں نے نویں جماعت سے نثر نگاری کا آغاز بچوں کی کہانیاں اور نظمیں لکھنے سے کیا جبکہ 2021 سے غزل کہنے اور افسانے لکھنا شروع کیا۔ مختلف اخبارات اور رساٸل میں ان کی شاعری اور تحریریں چھپتی رہتی ہیں۔ ان کے دو افسانے “ اندھی محبت“ اور “ اے دل“ قومی تنظیم اور “ خاتون مشرق“ میں چھپنے کے بعد بڑی پذیراٸی حاصل کر چکے ہیں ۔ فوزیہ اختر شادی کے بعد کولکتہ منتقل ہو چکی ہیں اور وہ ایک خاتون خانہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں اور ساتھ ساتھ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوٸے ہیں ۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کے قرب میں ایسا بھی شعبدہ دیکھا
گلوں کے کھلنے کا پت جھڑ میں سلسلہ دیکھا
ہماری سانولی صورت پہ دلکشی اتری
محبتوں میں عجب ہم نے معجزہ دیکھا
ہوئی تھی ان سے ملاقات سرسری سی کبھی
پھر اس کے بعد سے اِس دل کو گمشدہ دیکھا
یہ ان کی آنکھوں کی مے کا کمال ہے کہ یہاں
ہر ایک چیز پہ چھایا ہوا نشہ دیکھا
پھر اپنے دل کی امنگوں کا خون کر ڈالا
جو زیست میں بڑا دشوار مرحلہ دیکھا
گنوایا جس نے بھی اس کو ملی نئی لذت
دلوں کی چوری کا پُر لطف حادثہ دیکھا
اسی کی یاد سے دل میں چراغ جلتے ہیں
سو عاشقی کا فقط ہم نے یہ صلہ دیکھا
ہے اس کی باتوں میں اپنائیت انوکھی سی
اک اجنبی بڑا مانوس، فوزیہ دیکھا
غزل
۔۔۔۔۔۔
توجہ اس قدر ان کی، اسے میں دل لگی سمجھوں؟
کہ ان کی مہربانی، اپنی میں خوش قسمتی سمجھوں؟
نظر آتا ہے دریا بھی بیاباں ہجر میں ان کے
جو ان کا قرب حاصل ہو تو صحرا کو ندی سمجھوں
بچھڑ کر ان سے جینے کی فقط رسمیں نبھاتی ہوں
جو ان کے ساتھ گزری ہے اسی کو زندگی سمجھوں
فسوں ہے پیار کا ان کے جو کانٹے پھول لگتے ہیں
شبِ دیجور کی بس میں ہی حسن و دلکشی سمجھوں
وہ میری آنکھوں کے پیغام کو کیوں پڑھ نہیں پاتے
بھلا کب تک میں ان کی بے رخی کو سادگی سمجھوں
رکھوں سر اس کے سینے پر اور اپنے غم بھلا ڈالوں
وہ دل کا آشنا ہے کیوں اسے میں اجنبی سمجھوں
نہ میں حسنِ مجسم ہوں، نہ مجھ میں کوئی خوبی ہے
مگر ان کی نظر سے خود کو دیکھوں تو پری سمجھوں
گھری ہوں سخت مشکل میں مگر ہوں مطمئن ازکیٰ
خدا کی مصلحت ہوگی کوئی اس میں، یہی سمجھوں
غزل
۔۔۔۔۔
مرے کانوں میں ان کے لہجے کی پھر چاشنی اترے
زباں سے ان کی ہر اک بات بن کے نغمگی اترے
سدا روشن کیا ہے دل کو جن کی یاد سے ہم نے
ہمارے نام پر ان کے بھی دل میں روشنی اترے
مرے گلشن سے ہجرت پر خزاں مجبور ہو جائے
ہر اک برگ و شجر پر اس طرح سے تازگی اترے
سدا تہمت لگاتے ہیں وہ مجھ پر کیا کروں مولا
میں مریم تو نہیں جس کی صفائی میں وحی اترے
یہ مانا بخت میں میرے ازل سے رات ہے لیکن
کبھی تو میرے آنگن میں بھی اجلی چاندی اترے
میں خود کو آئینے میں دیکھ کر حیران رہ جاؤں
تمھارے پیار سے چہرے پہ ایسی دلکشی اترے
کسی ہمدرد کا کاندھا میسر اب ہو ازکیٰ کو
تھکن برسوں کی اس کے جسم و جاں سے بھی کبھی اترے
غزل
۔۔۔۔۔
دیا روشن کروں کیسے وفا کا
بدلتا ہی نہیں ہے رخ ہوا کا
یہ مانا رات ہے میرا مقدر
مرا دل ہے مگر چشمہ ضیا کا
سدا صلِ علٰی کا ورد رکھو
وظیفہ ہے یہ ہر دکھ سے شفا کا
مرے دل کے نگر کو جس نے لُوٹا
مجھے تھا پیار اُس سے انتہا کا
ہے تیرا ہجر میری خوش نصیبی
مجھے اب مل گیا ہے در خدا کا
سبھی ظلم و ستم ہنس کر سہے ہیں
مجھے ہے آسرا روزِ جزا کا
درِ توبہ پکڑ لو فوزیہ اب
”بھروسہ کیا ہے عمرِ بے وفا کا“
غزل
۔۔۔۔۔
آتے ہیں خواب مجھ کو اسی خوش جمال کے
جو جا چکا ہے مجھ کو مصیبت میں ڈال کے
کب علم تھا کہ ہجر ہی اپنا نصیب ہے
”دیکھے تھے میں نے خواب تمھارے وصال کے“
دیتے ہیں سب فریب محبت کے نام پر
اب دل لگانا یارو ذرا دیکھ بھال کے
غیروں پہ التفات تو ہیں ان کے ہر گھڑی
ہم کو جواب بھی نہیں ملتے سوال کے
ناقدرے کو جو دل دیا میں نے برا کیا
کیا خاک وہ رکھے گا مرا دل سنبھال کے
سرما ہو یا بہار، خزاں ہو کہ دھوپ ہو
سب موسموں کی جان ہیں لمحے وصال کے
ہونے لگی ہے درد میں ازکیٰ ذرا کمی
رنجِ فراقِ یار کو شعروں میں ڈھال کے
غزل
۔۔۔۔۔۔
مریضِ عشق ہیں، برسوں سے ہم بیمار بیٹھے ہیں
مسیحائی جو کرتے تھے وہی بیزار بیٹھے ہیں
ہمیشہ میں نے جن پر پھول برسائے محبت کے
وہی میرے لیے نفرت کے لے کر خار بیٹھے ہیں
دلِ نادان کرتا ہے تمہاری ہی فقط خواہش
وگرنہ ہم پہ مرنے کو بہت تیار بیٹھے ہیں
ہمارے پاس بیٹھے تھے وہ آ کر چند پل اک دن
وہی پل باندھ کر آنچل میں ہم سرشار بیٹھے ہیں
بڑے مصروف تھے کارِ جہاں میں روز و شب لیکن
مرض جب سے لگا ہے عشق کا، بیکار بیٹھے ہیں
ہمارے تھے جو کل وہ آج ہیں غیروں کے پہلو میں
یہاں ہاتھوں پہ دھر کر ہاتھ ہم لاچار بیٹھے ہیں
حقیقت میں طلب کی کرتے ہیں تسکین سب ازکیٰ
محبت کرنے کو ہم جیسے بس دو چار بیٹھے ہیں