ہندوستانی فکری اور مذہبی روائت میں الحادی افکار کا وجود:
ہندوستان میں 'کوئی خدا نہیں' کا تصور اس قدر پرانا ہے۔ کہ سنسکرت زبان میں اس کےلئے لفظ ہے، 'نرسوارا ودا' جس کا مطلب ہے Godlessness. عام ہندی زبان میں اسے ناستک کہتے ہیں۔آستک، عقیدے اور نیک ہونے کو کہتےہیں۔ تین اسکول آف تھاٹ ہیں، جن کو ناستک خیالات کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ جین ازم، بدھ ازم اور چارواکا،جنہوں نے قدیم ہندو مذہب ویدانت (مقدس متن) کو مسترد کیا۔
ہندو ازم اگرچہ ایک مذہب ہے، لیکن یہ ایک فلاسفی بھی ہے۔ ہندومت کی ہی تین شاخیں (سمکھیا، یوگا اور میمیسا) ایسی ہیں، جو شخصی خدا، خالق خدا، یا ایسا خدا جس کے ساتھ 99 ناموں کی طرح کی خصوصیات منسوب ہوں۔ کو مسترد کرتی ہیں۔ سمکھیا اور یوگا ابدی خالق خدا کو نہیں مانتے، اور میمسیا والوں کا کہنا ہے کہ کہ وید کسی خدا/دیوتا کے نہیں لکھے ہوئے۔
جو ہندو ملحد ہیں۔ وہ ہندو مت کو مذہب کی بجائے وے آف لائف کہتے ہیں۔ سوامی وویکندا کی تشریح کے مطابق، کچھ مذہب کہتے ہیں۔ کہ جو آدمی شخصی خدا کو نہیں مانتا، وہ ملحد ہے، لیکن ویدانت کہتے ہیں کہ جو خود کو (اپنی روح کو) خدا نہیں مانتا۔۔ وہ ملحد ہے۔۔۔ جو دوست ہندو فلاسفی کے بارے کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ وہ Swami Vivekananda کو پڑھیں۔ میں نے اسے کوئی 25- 30 سال پہلے کافی پڑھا تھا۔
رگ ویدا جو قدیم ترین مذہبی دستاویز ہے۔ اس کے اندر شکوک و شبہات کے کئی اشارے مل جاتے ہیں۔ کہ کیا اس دنیا کو واقعی کسی دیوتا/خدا نے بنایا تھا۔۔ رگ ویدا میں ایک جگہ لکھا ہے، " یہ کائنات کب بنی، کیسے تخلیق ہوئی۔۔۔ خدا اس کے بعد آئے، جب کائنات تخلیق ہو گئی" برہما کو ایک جگہ کہا گیا ہے، وہی سب کچھ everything ہے وہی کچھ نہیں nothing ہے۔ اولین مقدس ویدوں کے بعد میں کئی مفسرین آئے، جنہوں نے کسی خالق پرسن خدا کے وجود سے انکار کیا۔ اور کہا، انسانی عمل کافی ہے، انسان کی زندگی کو خوشگوار اور پرلطف بنانے کے لئے۔ 450 سال قبل مسیح میں انڈیا میں ایسے مذہبی فلاسفر/مفسر پیدا ہوئے جنہوں نے سختی کے ساتھ ملحدانہ نظریات کو پیش کیا۔ یا مہاتما بدھ کی طرح خدا کے معاملے میں خاموشی اختیار کی۔ کارواکا تو مادیت پسند فلسفہ ہے۔ کارواکا نے مابعد الطبیعاتی دنیا یا بعد از موت زندگی کو تسلیم کرنے سے انکارکیا، چارواکا کا عہد چھٹی عیسیوں صدی ہے۔ مہاویرا اور گوتم بدھ کے ہم عصر بھی ایسی شخصیات ملتی ہیں، جنہوں نے تصورخدا سے انکارکیا۔
جیسا کہ پہلے بتایا گی ہے۔ کہ ہندو مت صرف مزہب نہ تھا، بلکہ ایک فلاسفی بھی ہے، چنانچہ جب فلسفہ آئے گا، تو پھر سوال بھی آئیں گے، اور پھر کسی شخصی تصور خدا کا بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔