ہندوستان زندہ ہے
( بی ایچ یو سیمینار کے حوالہ سے کچھ باتیں
— مشرّف عالم ذوقی
ہندوستان کو ایک مخصوص نظریہ کے لوگ جلانے اور جمہوری اقدار کو دفن کرنے کی سازش کر رہے ہیں .بہار جل رہا ہے .مختلف صوبوں میں نفرت اپنی تمام انتہا سے آگے نکل چکی ہے . بہار پر نفرتوں کا سایہ کچھ زیادہ ہی گہرا ہو چکا ہے . کیا اقتدار انہی راستوں کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ؟ معیشت تباہ ہو چکی ہے .ہندوستان سے روزگار ختم ہو چکے .بینک دیوالیہ . مودی حکومت نے کروڑوں کروڑ کی دولت لے کر مالیہ اور نیرو مودی جیسے لوگوں کو فرار ہونے کاآسان راستہ مہیا کرایا .یہ وہی حکومت ہے جس نے نوٹ بندی کے دوران ہندوستان کے غریب عوام اور خانہ داری چلانے والی عورتوں کو سیاہ دھن رکھنے کا مجرم قرار دیا اور ظالموں ، قاتلوں ،مجرموں کو بے گناہ ثابت کرنے میں انصاف ، قانون ،پولیس اور فوج تک کا استعمال کیا .سپریم کورٹ کے چار جج انصاف کا قتل ہوتے دیکھ کر آگے بڑھے تو بہت حد تک ان کی ذمے داریوں کو کم کر دیا گیا .ہمارے یہ چار جج آج بھی محسوس کرتے ہیں کہ انصاف پر اگر حکومت کا سایہ ہو تو ملک کی جمہوری قدروں کی حفاظت نہیں ہو سکتی .یہ ہمارا ملک ہے ،جہاں کھلے عام الیکشن کمشنر، مودی اور بی جے پی کو سپورٹ کرتا ہے-مرکزی حکومت کی حمایت میں اپنے عھدے اور منصب کو داغدار کرتا ہے . مرکز کے حکم سے ریاستوں میں انتخاب کی تاریخ مقرر کرتا ہے . کرناٹک ا سمبلی انتخابات کے موقع پر ڈیٹ لیک کے معاملے نے الیکشن کمشنر کو پوری طرح ننگا کر دیا ..اس ملک میں ان دنوں سب کچھ بک چکا ہے ..الیکشن کمشنر بک گیا .میڈیا بک گیا .رویش ،ابھیسار جیسے کچھ لوگوں نے ضمیر کو فروخت نہیں ہونے دیا . یہ پہلا ملک ہے ،جہاں ا سٹنگ اپرشن میں میڈیا کو فرقہ وارانہ فسادات کی فرضی رپورٹنگ کا مجرم گردانا جاتا ہے اور انصاف سویا رہتا ہے .میڈیا ہندو اور مسلمانوں میں گہری خلیج پیدا کر رہا ہے .اور انصاف کے مجسمے سویے پڑے ہیں . امت شاہ کے بیٹے پر کویی الزام آید نہیں ہوتا اور جج لوہیا کے قتل کو دبانے کی سازش میں میڈیا اپنا سارا زور لگا دیتا ہے .یہ پہلا ملک ہے جہاں میڈیا موت بیچ رہی ہے ..یہ پہلا ملک ہے جہاں سر عام مسلمانوں کے خلاف میڈیا نے اپنی تمام طاقت جھونک رکھی ہے .
رام نومی کے موقع پر اگر رام ہوتے تو انکے بھی آنسو نکل آتے .فسطائی طاقتوں نے پورے ملک کو رام کا نام لے کر جلانے کی کوشش کی .،بہار اور بنگال کے تشدد میں کیی ہلاکتیں سامنے آیئں .ہندو تنظیموں اور مودی حکومت نے قاتلوں کو ہیرو بنا دیا .ادھر ڈاٹا لیک کا معاملہ اٹھا ہے .ملک کی سلامتی خطرے میں ہے .آدھا خطرہ آدھار کارڈ نے پیدا کیا. اب ملک کے کسی بھی شخص کی شناخت محفوظ نہیں ہے .
ہندوستان کے چیف جسٹس دیپک مشرا مودی کے آدمی ہیں .انصاف کی عمارتوں پر زعفرانی پرچم لہراہے جا چکے ہیں .امبیڈکر کی مورتیوں اور گاندھی کے مجسمے کو علامتی طور پر توڑا جا چکا ہے .ایک دن اسی ظلم کے راستے سے امبیڈکر کے آیین کی جگہ منو اسمرتی کا آیین نافذ کر دیا جائے گا .
بچوں کی تعلیم سے کھیلا جا رہا ہے .مرکزی حکومت تعلیم کے بجٹ کو کم کر چکی ہے …ہندوتو کے رکشک کھلے عام مسلم گھروں میں داخل ہو کر اپنی بزدلی کا ننگا ناچ اس لئے دکھا رہے ہیں کہ انکی سرپرستی مرکزی حکومت اور آر ایس ایس کر رہی ہے …گجرات میں گھوڑے پر بیٹھنے کے جرم میں ایک دلت نوجوان کو قتل کر دیا جاتا ہے .حب الوطنی کے جرم میں ،کاس گنج کے مسلمانوں پر حملہ کیا جاتا ہے .خالد ، پہلو خان ، پردیپ راٹھور ، روہت ویمو لا ،اخلاق مسلسل قتل کیے جا رہے ہیں ..مگر ..
ہندوستان زندہ ہے .کبھی کویی امام رشیدی کھڑا ہوتا ہے کہ میرے بیٹے کی شہادت کو رسوا نہ کرو .انتقام نہ لو .
کبھی کویی یشپال سکسینہ سامنے آتا ہے کہ میرے بیٹے کی موت پر سیاست نہ کرو .
اور کبھی نفرت کی خوفناک سیاست کے خلاف ایک مورچہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں لیا جاتا ہے .جہاں اردو ہندی کی ساجھی وراثت کو قایم رکھنے کے لئے ہندی کے ادیب تاریخ کی گپھاؤں سے حال اور مستبل کے منظر نامے پر گفتگو کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے …ہندوستان زندہ ہے .اور جنہیں ہم مٹھی بھر سمجھ رہے ہیں ان کی تعداد وحشی بھیڑیوں کی تعداد سے کہیں بڑی ہے .
یہ سیمینار نہیں تھا ، آزادی کے بعد فسطائی طاقتوں کے خلاف اردو اور ہندی کے ادیبوں کی مشترکہ پکار اور جنگ کا اعلان تھا .میں نے چار برسوں میں تو کجا ،آزادی کے ستر برسوں میں کسی ایسے اردو سیمینار کی توقع نہیں کی تھی ،جہاں بغیر مصلحت کے ظلم کے خلاف اس قدر پر جوش آواز بلند ک کی گی ہو .بی ایچ یؤ جو ہندوتو کا گڑھ ہے .جو مودی کا انتخابی شہر ہے .جہاں اہے دن ہندوتو کی اشتعال انگیزیاں اپنا کارنامہ انجام دیتی رہتی ہیں ، اسی گڑھ سے بلا خوف آفتاب احمد آفاقی نے مودی حکومت کا نام لے کر ، ہندی ادیبوں کو بلا کر ساجھی وراثت کا ایسا اہتمام کیا کہ اسے اگر صور پھونکا جانا کہوں تو غلط نہ ہوگا …آسمان تک سچ کی آواز گونج رہی تھی .اور احساس یہ تھا کہ فسطائیت کے مجرم اور قاتل اپنی اپنی قبر کی طرف بڑھ رہے ہوں …
…ا ور صور پھونکا جائےگا ،تو بے ہوش ہو جائیں گے، جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں،مگر جسے اللہ چاہے،پھر وہ دوبارہ پھونکا جائے گاجبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔(الزمر:68)
اصغر وجاہت ،اقبال مسعود ،یعقوب یاور ، خطیب رفعت الله ،پروفیسر چمپا سنگھ ،روہنی اگروال ،سید احمد قادری ،شمیم طارق ،ڈاکٹر پریتی چودھری ،شالنی ماتھر ،چوتھی رام یادو ،سمیر پاٹھک ،پروفیسر کاشی ناتھ سنگھ ،اشیش تریپاٹھی اور بہت سے اردو ہندی والوں نے صدا لگایی کہ جمہوری کردار و اقدار پر ہونے والے ہندوتو کے حملے کے خلاف مل کر لڑینگے .اشیش تریپاٹھی،پروفیسر چمپا سنگھ،روہنی اگروال،ڈاکٹر پریتی چودھری، چوتھی رام یادو ،سمیر پاٹھک ،پروفیسر کاشی ناتھ سنگھ کی آواز اتنی بلند تھی کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کی فضا سچ کے نعروں سے لرز رہی تھی ..
کیا ہم کسی ایسے سیمینار کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ؟ کیوں نہیں سوچ سکتے .
بزدلی کے تمغوں کو زندگی بنانے والے آفتاب احمد آفاقی کیوں نہیں ہو سکتے ؟ کیا کسی یونیورسٹی کا پروفیسر ہونے کا مطلب یہی ہے کہ خوف کو مسلط کر دیا جائے اور سچ بولنے سے شرمایا جائے .پروفیسر چمپا سنگھ ،روہنی اگروال،ڈاکٹر پریتی چودھری،چوتھی رام یادو ،سمیر پاٹھک ،پروفیسر کاشی ناتھ سنگھ ،اشیش تریپاٹھی کی آواز ابھی بھی ذہن و دماغ میں گشت کر رہی ہے کہ ہم مل جاہیں تو ان طاقتوں کو نیست و نابود کر دینگے
….. میں بنارس سے دلی لوٹ آیا …ملک ابھی بھی جل رہا ہے ..لیکن میرے حوصلے مضبوط ہیں ..یہاں امام رشیدی ہیں ،تو یشپال سکسینہ بھی ہیں ..آفتاب احمد آفاقی ہیں تو نوجوان ادیب اشیش ترپاٹھی اور پریتی چودھری,پروفیسر چمپا سنگھ بھی ہیں …ہم سب مل کر اپنے ہندوستان کو بچا لینگے …
ہندوستان زندہ ہے ..زندہ رہے گا ..
یہ ملک جیسے ہندوؤں کا ہے ،اسی طرح مسلمانوں کا بھی ہے . 1857کی بغاوت میں مادر وطن ہندوستان زندہ باد کانعرہ پہلی بار عظیم اللہ خان نے لگایا تھا، جو اس انقلاب کی ایک مضبوط کڑی تھے۔ اس نعرے کا ترجمہ ہندی میں بھارت ماتا کی جئے ہوتا ہے .۔ ان معتصب شرپسندوں کو کیامعلوم کہ جس نعرے کی بنا پر ہماری صدیوں پرانی ملت کے شیرازے بکھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، اس کے پیچھے بھی ساجھی سنسکرتی کا ایک نمائندہ کھڑا تھا۔ یہ یوسف مہر علی تھے جنہوں نے پہلی بار انگریزوں کوئٹ انڈیا ، انگریزو بھارت چھوڑو کا نعرہ دیا۔ سائمن گو بیک کا نعرہ دینے والے بھی یوسف مہر علی تھے۔ اسی دور میں زین العابدین نے جے ہند کا نعرہ دیا اور اپنے نام کے آگے سافرانی کا اضافہ کیا، جس کی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں۔ وہ جرمنی میں انجینئرنگ کی پڑھائی کررہے تھے ۔ پڑھائی چھوڑ کر آزاد ہند فوج میں شامل ہوگئے۔ اس زمانے میں قومی پرچم کے ڈیزائن کو لے کر ایک تنازعہ سامنے آیا۔ ہندوطبقہ زعفرانی رنگ چاہتا تھا اور مسلمان سبزرنگ پسند کرتے تھے ۔ ہندﺅں کی دریادلی تھی کہ انہوں نے زعفرانی رنگ کا ارادہ چھوڑدیا مگر زین العابدین کو یہ دریادلی کچھ ایسی بھائی کہ انہوں نے اپنے نام کے آگے Saffronیعنی بھگوارنگ جوڑنے کا فیصلہ کیا اور عابد حسن سفرانی بن گئے۔ انقلاب زندہ باد کانعرہ حسرت موہانی نے 1921میں دیا۔ بھگت سنگھ نے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے یہی نعرہ لگایا تھا۔مولانا کو گنگا دھر کاتلک کانعرہ سوتنتر تا ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے بہت پسند تھا۔ سرفروشی کی تمنا کا نعمہ بسمل عظیم آبادی نے سنایا۔ آج جو ہمارا قومی پرچم ہے ، اس کا ڈیزائن حیدرآبادی خاتون ثریا طیب جی نے تیار کیا۔ ہزاروں مثالیں گواہ ہیں کہ اردو ہندی رشتے نے اپنی شگفتگی، تازگی اور ہمہ جہتی کی بنیاد پر عالم کاری کے اس عہد میں دنیا کے ہر خطے میں اپنے نقوش چھوڑے۔ ہزاروں مثالیں ہیں اور اب مودی حکومت اور چار برسوں کی خوفناک سیاست کے خلاف ایک مثال آفتاب احمد آفاقی اور انکے رفقا نے پیش کی ….
..یہ حقیقت ہے کہ ہم مصلحت سے بلند ہوں تو فسطائی طاقتیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“