برطانوی پارلیمنٹ نے بر صغیر کی آزادی اور انتقال اقتدار کی تاریخ 30جون 1948مقرر کی تھی اور اس مقصد کے لئے وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے لارڈ ماونٹ بیٹن کو آخری وا ئسرائے بنا کر ہندوستان بھیجا تھا جنہوں نے مارچ 1947میں اپنے عہدہ کا حلف اٹھایاتھا۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کواتنقال اقتدار کی اس قدر عجلت تھی کہ انہوں نے اگلے دو مہینوں میں بر صغیر کے سیاسی رہنماوں سے طوفانی ملاقاتیں کرنےکےبعد 3 جون 1947کو ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کا اعلان کردیا تھا۔ وجہ اس عجلت کی لارڈ ماونٹ بیٹن نے یہ بتائی کہ اگر تاخیر ہوتی تو ہندوستان میں خانہ جنگی بھڑکنے کا خطرہ تھا ۔ جواز انہوں نے یہ پیش کیا کہ مسلم لیگ کے قاید اعظم محمد علی جناح نے دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا اور کیبنٹ مشن کا پلان مسلط کیا گیا تو مسلم لیگ مسلح جدو جہد پر مجبور ہو جائے گی۔
برطانوی حکومت کی بر صغیر کی آزادی میں عجلت کی کئی اور وجوہات بھی تھیں۔ امریکا کا برطانیہ پر دباو تھا کہ ہندوستان کو جلد از جلد آزاد کیا جائے ۔ پھر دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے برطانیہ کو سنگین مالی بحران کا سامنا تھا جس کی وجہ سے اسے اپنے آپ کو سنبھالنا بڑا مشکل تھا ایسے میں ہندوستان کی ذمہ داری بھی کندھوں پر رکھنامشکلات کو دگناکرنے کے مترادف تھا ۔اس کے علاوہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے پیش نظر برطانوی فوج کے لئے امن و امان کی صورت حال پر قابو پانا بہت مشکل ہوگیا تھا اور اسی دوران بحریہ میں بغاوت بھی بھڑک اٹھی تھی۔
لیکن اصل وجہ اس عجلت کی یہ تھی کہ لارڈ ماونٹ بیٹن جلد از جلد برطانیہ واپس جانا چاہتے تھے اور بحریہ کے سربرہ اور چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے عہدہ پر فائز ہونا چاہتے تھے ۔ ان کے والد یہ عہدہ اس بناء پر حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے کہ وہ جرمن نژاد گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور دوسری عالم گیر جنگ کے دوران انہیں اسی وجہ سے اس عہدہ پر فائزنہیں کیا گیا تھا۔
ہندوستان کی آزادی کے لئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے 15اگست کی تاریخ مقرر کی تھی۔ وہ اس تاریخ کو اپنے لئے نہایت خوش قسمتی کا نشان سمجھتے تھے کیونکہ 1945میں اسی روز جاپان نے دوسری عالم گیر جنگ میں اپنی شکست تسلیم کی تھی اور جاپان کے شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے لارڈ ماونٹ بیٹن کے سامنے جو اتحادی افواج کے کمانڈر انچیف تھے ، ہتھیار ڈالے تھے۔
لارڈ ماونٹ بیٹن نے پندرہ اگست کی تاریخ تو طے کر دی لیکن ہندو جوتشیوں نے زایچہ بنا کر یہ دن بد شگون قرار دیا اور کانگریس نے اس روز انتقال اقتدار سے انکارکر دیا ۔ لارڈ ماونٹ بیٹن مگر اسی تاریخ پر مصر تھے ۔ آخر کار یہ طے کیا گیا کہ چونکہ انگریزی کیلنڈر کے حساب سے پندرہ اگست کا آغاز رات کو بارہ بجے ہوگا اور ہندو عقیدہ کے مطابق پندرہ اگست کا دن سورج طلوع ہونے کے بعدہوگا ، لہذا ہندوستان کی پارلیمنٹ میں چودہ اگست کو رات بارہ بجے ہندوستان کی آزادی کا اعلان نہرو کی اس تاریخی تقریر سے ہوا کہ’ نصف شب کے گجر کے وقت جب دنیا سورہی ہے ہندوستان زندگی اور آزادی کے ساتھ بیدار ہورہا ہے ‘
پاکستان چونکہ ہندوستان سے نکل کر ایک آزادخود مختار مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر ابھرنا چاہتا تھا اس لئے یہ طے کیا گیا کہ اسے اقتدار ہندوستان کی آزادی سے پہلے 14اگست کو منتقل کر دیا جائے ۔ چنانچہ 14اگست کی صبح کو لارڈ ماونٹ بیٹن اقتدار پاکستان کو منتقل کرنے اور گورنر جنرل کی حیثیت سے قاید اعظم سے حلف لینے کے لئے کراچی گئے تھے۔
لارڈ ماونٹ بیٹن قیام پاکستان کے بعد ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے مشترکہ گورنر جنرل بننا چاہتے تھے۔ قائد اعظم کا ذہن ٹٹولنے کے لئے انہوں نے ایک ملاقات میں قائد اعظم سے یہ سوال کیا کہ پاکستان میں گورنر جنرل کون ہوگا؟ قائد اعظم لارڈ ماونٹ بیٹن کی خواہش بھانپ گئے انہوں نےبرجستہ کہا کہ میں گورنر جنرل ہوں گا۔ اس پر لارڈ ماونٹ بیٹن نے کہاکہ لیکن پاکستان تو پالیمانی جمہوریت ہوگااور اس میںتو وزیر اعظم سب سے مقتدر شخص ہوتا ہے ۔ قائد اعظم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میرے پاکستان میں نہیں ہوگا۔ ((India