ہندوستان کا مقتدر اردو سہ روزہ اخبار ’’دعوت‘‘ جو پینسٹھ سال پہلے دلی سے روزنامہ کے طور پر شائع ہونا شروع ہوا تھا پچھلے ہفتہ بند ہوگیا۔ وجہ مالی مشکلات اور قارئین کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی تعداد بتائی گئی ہے۔ ’’دعوت‘‘ کا بند ہونا آج کے ہندوستان میںصرف اردو اخبارات کے بحران کا آئینہ دار نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں اردو زبان کے دم آخریں کی تمہید ہے۔
اس وقت ہندوستان میں اردو جس سنگین بحران سے گزر رہی ہے اس کی تہِ تک پہنچنے کے لیے اس کے پس منظر کا ادراک ضروی ہے جو خاصہ طویل ہے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے ہندو قوم پرستوں نے اردو کے خلاف اس دلیل کی بنیاد پر محاذ قائم کیا تھا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ اس محاذ کا مقصداردو کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا اور اس کے لیے ہندو قوم پرستوں نے وہی حکمت عملی اختیار کی جو انگریزوں نے بر صغیر پر انگریزی مسلط کرنے کے لیے اختیار کی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بر صغیر میں انگریزی کے تسلط کے لیے یہ عیارانہ چال اپنائی تھی جس کے تحت سب سے پہلے تو سرکاری زبان کی حیثیت سے فارسی کو ختم کرنے کا اقدام کیا، کیوںکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو خطرہ تھا کہ اگر فارسی کی جگہ فی الفور انگریزی تھوپی گئی تو عوام کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرے اس زمانہ میں انگریزی کی تعلیم اتنی عام نہیںتھی کہ اسے سرکاری محکموں اور عدالت میں رائج کیا جا سکے چنانچہ ان ہی دشواریوں کے پیش نظر مصلحت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے 1837 میں سب سے پہلے فارسی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ اس زمانہ میں اردو پورے ملک میں عوام کے رابطہ کی زبان تھی اور دوسرے فارسی رسم الخط کی وجہ سے اسے باسانی سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کیا جاسکا اور اردو سے اپنائیت کے احساس کی بدولت عوام کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
1867میں اردو کو جو سرکاری زبان کے عہدے پر پوری طرح فائز ہو چکی تھی سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ہندو انتہا پسند رہنمائوں مدن موہن مالویہ اور بابو شیو ا پرشاد کی قیادت مین اردو کو محض فارسی رسم الخط کی بنیاد پر مسلمانوں کی زبان قرار دینا شروع کیا اور شکایت کی کہ مسلمانوں کی اس زبان کی وجہ سے ہندو اکثریت محرومی کا نشانہ بن رہی ہے اور اسے چوںکہ سرکاری ملازمتوں کے حصول میں دشواریاں پیش آرہی ہیں لہٰذا یہ اقتصادی پس ماندگی کا شکار ہو رہی ہے۔ ان شکایتوں کے پس منظر میں انتہا پسند ہندووں نے مطالبہ کیا کہ بہار اور اودھ میں اردو کی جگہ دیو ناگری رسم الخط کے ساتھ ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ ہندو قوم پرستوں کو اردو کے خلاف پہلی جیت اس وقت حاصل ہوئی جب مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود برطانوی راج نے 1880 میں بہار میں دیو ناگری رسم الخط میں ہندی رائج کرنے کا اعلان کی اور اپریل 1900 میں اودھ کے چیف کمشنر میک ڈونل نے بھی عدالتوں میں دیوناگری رسم الخط میں ہندی رائج کرنے کا حکم دیا۔
آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو کے مخالفین کو مکمل فتح حاصل ہوئی جب ہندی کو قومی زبان اور انگریزی کے ساتھ ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ ویسے اردو کے حامیوں کی اشک شوئی کی خاطرہندوستان کے آئین میں اردو کو قومی زبانوں میں ایک زبان کا درجہ دیا گیا اور کشمیر میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔
اردو کو سب سے بڑی زک ہندوستان میں اس وقت پہنچی جب اردو سیاست کے میدان میں گھسیٹی گئی اور کانگریس نے ہندی کو اپنایا اور مسلم لیگ نے اردو کو۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اسے تقسیم ملک کا ذمے دار قرار دیا گیا اور ہندی کو قومی اور سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔گو اردو اپنے ادب اوراپنی شاعری کے طلسم کی بدولت عوام میں مقبولیت برقراررکھنے میں کامیاب رہی لیکن اردوعمومی طور پر روزگار اورخاص طو رپر سرکاری ملازمتوں کے حصول میں ناکام رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسکولوں کے نصاب سے اردو کی تعلیم معدوم ہوگئی۔ اردو گھروں اور دینی مدارس تک محدود ہو کر رہ گئی اور اس صورت حال میں اردو بولنے والوں کی کئی نسلیں اپنی مادری زبان سیکھے بغیر گزر گئی ہیں۔ ہندوستان کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں جہاں لاکھوں ابتدائی اسکول ہیں ان میں ایک میں بھی اردو میڈیم سرکاری اسکول نہیں البتہ وسطی ہندوستان میں تلنگانہ، کرناٹک، آندھرا پردیش اور مہاراشٹر میں صورت حال قدرے مختلف ہے اور یہاں اردو میڈیم کے سیکڑوں اسکول ہیں۔ اتر پردیش میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے دو ہائی اسکولوں کے علاوہ جہاں اردو کے ساتھ انگریزی ذریعہ تعلیم کا آپشن بھی موجود ہے۔
ہندوستان کے ممتاز اردو صحافی معصوم مرادآبادی کی رائے میں اس وقت اردو کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے رسم الخط کا تحفظ ہے۔ ہندی کے سرکاری زبان کا درجہ حاصل کرنے کے بعددیو ناگری رسم الخط نے اردو کے فارسی رسم الخط کو ایسا زیر کیا کہ نئی نسل اس سے بے بہرہ ہوتی جارہی ہے، بعض دانشوروں کی تجویز ہے کہ اردو کو دیو ناگری رسم الخط اختیار کر لینا چاہیے لیکن اس کے مخالفین کی دلیل ہے کہ یوں اردو ہندی بن جائے گی۔ رسم الخط کے اسی مسئلہ کی وجہ سے دراصل اردو اخبارات پڑھنے والوں کی تعداد روزبروز گرتی جارہی ہے اورنتیجہ یہ کہ اخبارات بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں اردو بولنے والوں کی تعداد چار فی صد سے بھی کم ہوگئی ہے۔
1971کی مردم شماری میں اردو بولنے والوں کی تعداد دو کروڑ 86 لاکھ تھی جو دس سال بعد 1981میں ساڑھے تین کروڑ ہو گئی تھی اس کے بعد 1991میں یہ تعداد چار کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ گئی تھی اور 2001میں یہ تعداد پانچ کروڑ 15 لاکھ تک بتائی گئی تھی۔ مگر 2011کی مردم شماری میں اردو بولنے والوں کی تعداد صرف چار فی صد رہ گئی اور اردو اب ساتویں نمبر پر گر گئی ہے۔
سخت حیرت کی بات ہے کہ اردو بولنے والوں کی اتنی بڑی تعداد آخر کہاں گئی؟ اردو بولنے والوں کی تعداد میں اچانک اتنی کمی کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ اردو بولنے والے اردو کو اپنی مادری زبان درج نہیں کراتے ہیں۔ اتر پردیش اردو بولنے والوں کا وطن مانا جاتا ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد پونے چار کروڑ ہے لیکن صرف ایک کروڑ افراد نے اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر درج کرایا ہے۔ یہی حال بہار کا ہے جہاں اردو بولنے والے مسلمانوں کی آبادی پونے دو کروڑ ہے لیکن صرف 87لاکھ افراد نے اپنی مادری زبان اردو درج کرائی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دس برس میں ہندی بولنے والوں کی تعداد میںدس کروڑ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ہندی بولنے والوں کی تعداد 42 کروڑ سے بڑھ کر اب 52 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندی، اردو بولنے والوں کو کھاتی جارہی ہے اور اردو بولنے والے نہ جانے کیوں اپنی مادری زبان اردو درج کرانے کے بجائے ہندی درج کراتے ہیں۔ جہاں تک ہندو قوم پرستوں کا تعلق ہے تو اردو کے خلاف ان کی جنگ کھلم کھلا تھی لیکن اپنے آپ کو سیکولر جماعت کہلانے والی کانگریس نے پس پردہ اردو کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ آزادی کے بعد کانگریس نے مسلمانوں کے مذہب اور ثقافت کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا جو محض ایک سراب ثابت ہوا۔مجھے یاد ہے کہ جوہر لعل نہرو کے دور میں ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر ذاکر حسین نے جو بعد میں جمہوریہ ہند کے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے، 1954 میں صدر جمہوریہ کو ایک محضر پیش کیا تھا جس میں مطالبہ کیا گیاتھا کہ اردو کو آئین کی دفعہ 347 کے تحت اردو کے گڑھ اتر پردیش کی علاقائی زبان تسلیم کیا جائے لیکن اس محضر کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
اردو کے ممتاز ادیب اور دانشور شمس الرحمان فاروقی نے اردو کے مستقبل کے سلسلہ میں ایک اہم سوال کیا ہے کہ کیا اردو صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ اگر اردو زبان اور اس کا رسم الخط قومی منظر نامہ سے غایب ہو جاتا ہے تو کیا ہماری قومی زندگی درماندہ نہ رہ جائے گی۔ اردو زبان اور اردو کی ادبی تہذیب کا زوال بر صغیر کے لیے ایک بڑا خسارہ ہوگا اور یہ صرف ادبی یا لسانی زوال تک محدود نہ رہے گا۔ اردو تو ایک تہذیبی ذہنیت ہے، تہذیبوں کو متحد کرنے والی قوت ہے اور تاریخ میں کھلنے والا جدید ہندوستان کا دریچہ ہے۔ لیکن ہندوتا کے اس دور میں حقیقت یہ ہے کہ اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کی ہر طریقہ سے بیخ کنی کی جارہی ہے اور لگتا ایسا ہے کہ ہندوستان میں اردو دم آخریں کے دور سے گزر رہی ہے۔
“