(Last Updated On: )
(تاریخ کا غیر معروف نکتہ نظر)
اگر ہندوستان میں اشاعت اسلام کا جائزہ لیا جائے، تو ہمیں اس کی مندرجہ ذیل وجوہات ملتی ہیں:
1۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہونے کے بعد ایک طبقہ ان مفاد پرست لوگوں کا تھا جو اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر مسلمان حکومت سے تعاون کرنا چاہتے تھے، اس لئے اس طبقہ نے اپنی وفاداری کے اظہار کے طور پر اسلام قبول کر لیا، جس کی وجہ سے انہیں حکومت کی ملازمتیں ، عہدے، اور مناصب ہے۔
2۔ دوسرے جاگیرداروں اور زمینداروں کا طبقہ تھا، جو اپنی جاگیروں کا تحفظ چاہتے تھے اور یہ تحفظ جب ہی مل سکتا تھا جب وہ مسلمان ہو جائیں۔
3۔ وہ لوگ تھے جو فاتحین کی لوٹ مار سے محفوظ رہنے کے لئےمسلمان ہوئے، تا کہ ان کے جان و مال اور عزت کا تحفظ ہو سکے۔
4۔ نچلی ذات کے لوگ اس امید میں مسلمان ہوئے کہ اس صورت میں ان کا سماجی مرتبہ بڑھ جائے گا اور مسلمان معاشرے میں انہیں کوئی با عزت مقام مل سکے گا۔
5۔ وہ لوگ جو اپنی ذات و برادری سے خارج کر دئے گئے تھے، انہوں نے اسلام قبول کر کے مسلمانوں میں پناہ لی۔
6۔وہ لوگ بھی مسلمان ہوئے جن پر آپس کے میل جول اور خیالات کے تبادلہ کا اثر ہوا۔
7۔ ایسے لوگ بھی تھے جو اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد خالص دینی جذبہ کے تحت مسلمان ہوئے
اشاعت اسلام کے ضمن میں جو یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی، غلط ہے ۔ کیونکہ اسلامی حکومت کے قائم ہونے کے بعد ہی یہاں مسلمانوں کی تعداد بڑھی، حکومت کو اس سے دلچسپی تھی کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھے، تا کہ ان کی حکومت کو استحکام ملے۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کو حکومت چلانے کے لئے، فوج اور دوسرے اداروں میں ان لوگوں کی ضرورت تھی جن پر وہ اعتماد کر سکیں۔
ہم مذہب ہونے کی وجہ سے ایسے لوگ ان کے لئے زیادہ مفید ہو سکتے تھے اس لئے انہوں نے جہان جہاں ہو سکا نئے علاقوں کی فتح کے بعد اس بات کی کوشش کی کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مسلمان کیا جائے۔ چنانچہ اکثر جنگ کے بعد قیدیوں کی تعداد کے ڈر سے مسلمان ہو جاتی تھی، وہ لوگ جو جنگ میں غلام بنائے جاتے تھے یا جنہیں بچپن سے غلام بنا کر بیچا جاتا تھا وہ مسلمان ہو جاتے تھے مثلاً ایسے مشہور غلاموں میں ملک کافور جو علاءالدین کا غلام تھا اور ملک خسرو جو قطب الدین خلجی کا غلام تھا، یہ دونوں ہندو سے مسلمان ہوئے۔ انہوں نے مسلمان حکمرانوں کی جانب سے جنگیں لڑیں، ہندووں کو قتل کیا، اور نئے نئے علاقے فتح کر کے انہیں سلطنت میں شامل کیا۔ مسلمان ہونے والوں میں بہت سے سیاسی قیدی یا مشہور راجہ اور سردار ہوا کرتے تھے، جن کے سامنے یہ شرط رکھی جاتی تھی مسلمان ہو جاو ورنہ قتل کر دئے جاو گے۔ یہ تاریخی حقائق ہیں کہ پنجاب کے گکھڑ، معزالدین غوری کے زیر اثر مسلمان ہوئے۔ ان کا سردار جب گرفتار ہو کر آیا تو اس سے کہا گیا کہ اگر وہ مسلمان ہو جائے تو اس کا علاقہ اور جائداد اسے واپس مل جائے گی اسے یہ بھی ترغیب دی گئی کہ وہ اپنے قبیلہ کو بھی مسلمان کرے۔
(4) عہد خلجی میں نو مسلموں کو بادشاہ کی جانب سے تحفہ تحائف دئےجاتے تھے تا کہ دوسروں کو اس سے ترغیب ہو فیروز شاہ تغلق نے ان لوگوں کو جزیہ سے معافی دیدی جو مسلمان ہو گئے۔
(5)۔ اورنگ زیب کے زمانہ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ سردار، زمیندار، یا جاگیردار، زمین و جائداد کے تحفظ کی خاطر مسلمان ہوئے کانپور ڈسٹرکٹ کے کئی راجپوت زمیندار اسی طرح مسلمان ہوئے
6۔ جس طرح قبیلوں کے سرداروں اور زمینداروں نے اپنی مراعات کی خاطر اسلام کیا اسی طرح ان کی رعایا اپنے سردار کے ساتھ مسلمان ہو گئی، کیونکہ اس کی خوشنودی کے بغیر ان کی زندگی بھی محال تھی
صوفیاء کی وجہ سے جو تھوڑی بہت اشاعتِ اسلام ہوئی اس میں بھی سلاطین برابر کے شریک تھے کیونکہ انہوں نے اس بات کا ۔ہمیشہ خیال رکھا کہ انہیں مددِ معاش کے طور پر جاگیریں دی جائیں، وظائف مقرر کئے جائیں، وقتاً فوقتاً انہیں قیمتی تحفے تحائف دئے جائیں اور ان کے لئے خانقاہیں تعمیر کرائی جائیں۔ ان سہولتوں سے انہیں یہ فرصت ملی کہ انہوں نے علمی و مذہبی کام کئے اور اطمینان سے عبارت میں مصروف رہے۔
خود صوفیا کے تذکروں میں جہاں لوگوں کے مسلمان ہونے کا تذکرہ کیا جاتا ہے وہاں ان کے اخلاق و کردار سے زیادہ ان کی کرامات کا تذکرہ ہوتا ہے کہ انھوں نے جوگیوں اور برہمنوں سے مقابلہ کیا۔ آگ میں سے گزرے پانی پر چلے، ہوا میں اڑے، اور اسی طرح کی کرامات دکھا کر اپنے مذہب کی برتری قائم کی اور آخر میں اپنے مخالفین کو شکست دے کر فتح یاب ہوئے اور ان کے ان کارناموں سے متاثر ہو کر لوگ مسلمان ہوئے۔
ہم ہندوستان میں صوفیاء کو دو طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک وہ صوفی جو مذہبی لحاظ سے تنگ نظر تھے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس لئے ایسے صوفیا کا ہندووں کو اپنے اخلاق سے متاثر کرنا ایک مشکل کام تھا۔ کیونکہ جب تک دوسروں کے عقائد کا احترام نہیں کیا جائے۔ اس وقت تک انہیں کسی بھی طرح متاثر نہیں کیا جا سکتا؛ دوسرے وہ صوفی تھے جو وحد الوجود کے ماننے والے تھے، اور جن کی نظر میں ہر مذہب و عقیدے کی عزت و تکریم تھی۔ یہ صوفی ذہنی لحاظ سے وسیع المشرب تھے اور بنی نوعِ انسان کو ایک ہی لڑی میں پرونا چاہتے تھے ان کے نزدیک ہندو، مسلمان، بدھ، اور عیسائی سب برحق تھے۔ ان صوفیا نے ہندوستان میں ہندو مسلم اشتراک کی تحریک چلائی۔ چشتیہ، قادریہ، مداریہ، اور غوثیہ سلسلوں کے صوفیا نے اس بات کی کوشش کی کہ تمام مذہبون میں یک جہتی کے اصول تلاش کر کے ان میں ہم آہنگی پیدا کی جائے انہوں نے اس قسم کی کوئی تحریک نہیں چلائی کہ لوگوں کو ان کے مذہب سے چھڑا کو انہیں مسلمان کیا جائے۔
ہندوستان میں بہت سے قبائل اور برادریاں اس بات کا دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ کسی بزرگ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس قسم کی روایات ایک خاص مقصد کے تحت وضع کی گئی ہیں۔ اس ذریعہ سے وہ شائد اس بات کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہوں کہ وہ کسی لالچ اور جبر کے تحت مسلمان ہوئے ہوں، یا خود کو وہ ان بزرگ سے منسوب کر کے، مسلمان معاشرے میں بہتر مقام پیدا کرنا چاہتے ہون مثلاً الور کے خانزادے اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا جد امجد ناہر بہادر فیروز شاہ تغلق کے عہد میں “قطب الدین بختیار کاکی” کے ہاتھوں مسلمان ہوا، جب کہ دونوں شخصیتوں کے عہد میں تقریباً دو سو برس کا فرق ہے
اس کے علاوہ صوفیا کا دنیا کے بارے میں ایک علیحدہ رجحان تھا وہ دنیاوی معاملات سے الگ تھلگ ہو کر خانقاہوں میں اپنا زیادہ وقت عبادت ذکار، مراقبہ اور چلّہ کشی میں گذارتے تھے۔ اس نے انہوں نے باضابطہ طریقے سے نہ تو اشاعت اسلام کی، اور نہ تبلیغی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
اس لئے یہ کہنا کہ ہندوستان میں اسلام کی اشاعت صوفیا کے اخلاق و کردار سے ہوئی ایک مبالغہ آمیز بیان ہے۔ ہندوستان میں اسلام میں اسلام صرف اسی وقت پھیلا جب یہاں اسلامی حکومت قائم ہوئی۔ اشاعت اسلام میں حکومت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مذہبی، سیاسی ، ثقافتی، اقتصادی اور سماجی حالات کو بھی بڑا دخل ہے۔
حوالے جات۔
1۔ محمود بنگلوری: تاریخ جنوبی ہند لاہور 1947 ص 57
2۔ ایضاً ص 58
3۔ایضاً ص58
4۔ ٹامس آرنلڈ: پریچنگ آف اسلام لاہور (؟) ص 258
5۔ ایضاً ص 258
6۔ ایضاً ص 255
7۔ محمد مخدوم تھانوی: مرقع الور آگرہ 1876 ص 17،18
ماخوذ