شعبۂ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی میں ’’ ہندوستان میں فارسی زبان وادب کا مستقبل ‘‘ کے عنوان پر توسیعی خطبہ کا اہتمام
فارسی زبان وادب کا ماضی نہایت تابناک اورروشن رہا ہے ، یہ زبان تقریبا سات سو سال تک متحدہ ہندوستان کی سرکاری، درباری اور کسی حد تک عوامی زبان رہی ہے ، اس زبان کو نہ صرف مسلمانوں نے اختیار کیا بلکہ ہندوؤں نے اس زبان کو اپنی گراں قدر نگارشات سے مالامال کیا ہے ، مزید برآں جب فارسی ہندوستان میں آئی تو اپنی تہذیب وثقافت کے جلوۂ صد رنگ کے ساتھ آئی اور اس زبان نے اپنی مخصوص تہذیب کے ہندوستانی تہذیب پر بہت گہرے نقوش مرتب کئے ، لیکن آج اسی فارسی کے تعلق سے شدید خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اور اس کے مستقبل کو تاریک سمجھا جا رہا ہے جب کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے اس کا مستقبل تابناک بھی ہے اور محفوظ بھی کیوں کہ فارسی اس ہندوستان کی تہذیب اور یہاں کے در ودیوار میں پیوست ہے جب تک ہندوستانی تہذیب باقی ہے فارسی کے انمٹ نقوش باقی رہیں گے اور اس ہندوستان سے فارسی کو کوئی مٹا نہیں سکتا ، جس دن یہ فارسی مٹ جائے گی ہندوستانی تہذیب فنا ہوجائے گی ۔
ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید اختر حسین ، پروفیسر شعبۂ فارسی ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی نے آج شعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی میں ـ ’’ ہندوستان میں فارسی زبان وادب کے مستقبل ‘‘ کے عنوان پر منعقد توسیعی خطبہ میں کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے شعبۂ ٔفارسی کے ہال میں موجود طلباء وطالبات سے خصوصی طور پر کہا کہ اگر آپ فارسی زبان کے ساتھ دیگر عالمی زبانوں خاص طور پر انگریزی زبان میں مہارت پید ا کرلیں تو آپ ترقی وبلندی کی اس منزل تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جہاں تک ابھی آپ کے تخیل کے پرندوں کی پرواز بھی نہیں پہونچ سکتی ، لیکن اس کے لئے فارسی زبان پر مکمل عبور کے ساتھ ساتھ انگریزی یا کسی دوسری عالمی زبان میں مہارت تامہ پیدا کرنی ہوگی ، اگر آپ نے مہارت پیدا کرلی تو یقین کیجئے اس فارسی کی بدولت آپ عالمی شخصیت بن کر ابھریں گے اور آپ کی شہرت ملک کی سرحدوں کو عبور کرکے یورپ وامریکا کی سرزمین تک پہونچے گی۔ انہوں نے ہندوستان میں فارسی کے تعلق سے ملازمت کے مواقع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج مختلف سرکاری اداروں میں قدیم فارسی دستاویز کو پڑھنے کے لئے اچھے فارسی مترجمین کی ضرورت ہے ، اگر فارسی سے کوئی ہندی یا انگریزی میں ترجمہ کرنے کی مکمل اہلیت رکھتاہے توملازمت کے بے شمار مواقع اس کو فراہم ہوں گے ، اس کے علاوہ فارسی ممالک سے ہندوستان آنے والے سیاحوں اور مریضوں کی گائیڈنگ بھی اس زبان کے توسط سے بہترین ذریعہ ٔ معاش ہے ۔ اس موقع پر اس پروگرام کی صدر پروفیسر مدھو رما لال ، پروفیسر اپلائید کامرس و لکھنؤیونیورسٹی کے پلیس منٹ سیل کی صدر نے اپنے صدارتی خطاب میں طلباء کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس لکھنؤ یونیورسٹی میں بھی فارسی کے طلباء کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گی ۔ اس سے قبل پروفیسر عمر کمال الدین، صدر شعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے
مہمان مکرم پروفسیرسید اختر حسین ، ِپروفسیر مدھو رما لال اور آنے والے تمام مہمانوںکا استقبال کیا اور اس توسیعی خطبہ کے اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد فارسی کے تعلق سے طلباء میں بیداری پیدا کرنا اور ان میں اپنی اس عظیم ورثہ کی حامل زبان کے تئیں ذمہ داری کا احساس دلانا ہے ۔ اس نشست میں ڈاکٹر ارشد القادری اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی نے نظامت کے فرائض انجام دئے اور دہلی سے تشریف لائے مہمان مکرم پروفیسر سید اختر حسین کی تفصیلی تعارف کرایا اور فارسی زبان وادب کے فروغ کے لئے ان کی طرف سے کی جانے کاوشوں کا تذکرہ کیا، خاص طور پر ان کا قائم کردہ ادارہ ’’ موسسہ ٔ مطالعات فارسی ھند ‘‘ کا ذکر کیا جس کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں موسم سرما و گرما میں فارسی سیکھنے کے لئے کلاسیس منعقد کئے جاتے ہیں جس میں ایران کی بڑی دانشگاہوں سے ماہر اساتذۂ کرام کولایا جاتا ہے تاکہ بلاواسطہ اہل زبان استاد سے طلباء کا ربط قائم ہوسکے ۔ اس پروگرام کے اخیر میں ڈاکٹر شبیب انور علوی ، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی نے تمام مہمانوں کو شکریہ ادا کیا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر سبحان عالم، اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ علوم مشرقیہ عربی وفارسی، لکھنؤ یونیورسٹی ،ڈاکٹر ادریس ، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ عربی، لکھنؤ یونیورسی ڈاکٹر طارق اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ عربی، لکھنؤ یونیورسٹی، ڈاکٹر ناظر ،ڈاکٹر محمد خبیب، علی عباس، محمد ارشد ، شاہ جہاں،عرشی، ثنااظہر، عاطفہ جمال اور کثیر تعداد میں طلباء وطالبات نے شرکت کی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...