احسن الخالقین نے مٹی کے پتلے میں روح پھونکی تو سانس کی روانی کے ساتھ ساتھ حقوق و فرائیض کی لمبی فہرست بھی تھما دی مگر جب مذہب بھنور بن جاۓ ،آرام طلبی مزاج ٹھرے ،منافقت اعزازپاۓ تو زندگی تماشہ اور تماش بینی بن جاتی ہے۔لکھنٶ بھی ایسی ہی ایک تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ ہےجہاں نمود و نمائیش ،لفاظی،ایہام گوئی،مضمون آفرینی،،لوازم ظاہری اور طوائیفانہ تہذیب نے عروج پایا۔عورت نے مردوں کے عصاب کو ایسے شل کیاکہ مردوں نےزنانہ زیب وزینت کو اپنا شعار بنا لیا ،جذبات وخیالات اور زبان پ نسائییت اتنی غالب آگئی کہ ریختہ کےجواب میں ریختی وجود میں آئی جس کا سہرا سعادت یار خان کو جاتا ہے۔لکھنوی تہذیب میں طوائیف کو کلیدی حیثیت حاصل تھی۔ وہ شعرا سے روابط اھی رکھتیں اور خود بھی شعرکہتیں ۔سخن سنجی،حسن و جمال،کمال فن میں یکتا تھیں ۔نواب ان کی شان میں قصیدے لکھتے پہلے سے مقرر کردہ وقت پر آتے گانا شروع ہوتا ،تعریفیں وصول کرتیں تعریفوں پر اٹھ کر تسلیمات بجا لا تیں گھنٹہ آدھا گھنٹہ کی صحبت میں سینکڑوں روپیہ انعام مل جاتا
جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
ہم نے بھی اپنے جی میں کیا کیا خیال باندھے
سر شام چوک میں ہجوم ہوجاتا
اور سازو آہنگ کی آوازوں سے فضا گونج اٹھتی۔درگاہ خان قلی ”مرقع دہلی“ میں طوائیفوں کا دلچسپ مرقع پیش کرتے ہیں۔دہلی کی طوائف نور بائی کا ذکر کرتےہیں جسے دیکھنے کو امرا بھاری قیمت ادا کرتے قیمتی ہیرے جواہرات پیش کرتے وہ گھرسے ملازموں کے جلوس کے ہمراہ ہاتھی پر سوار ہوکر نکلتی وہ لکھتے ہیں”بیگم دہلی میں مشہور ومعروف ہے،کہتے ہیں پاجامہ نہیں پہنتی اور بدن کے نچلے حصہ کو نقوش کے قلم کی رنگ آمیزی سے پاجامہ کی کاٹ کے مطابق رنگین کر لیتی ہے۔کمخواب کے بند رومی تھان میں چھپے گل و برگ سے ذرابھی مختلف نہ ہونے دیتے ہوے قلم سے بنا لیتی ہے۔امرا کی محفل میں جاتی ہے پاجامے اور اس کے رنگ میں ذرابھی فرق نہیں کیا جا سکتا“ مشہور امیر اعتماد الدولہ نے ایک طوائیف منہیاری کو ہیرے جواہرات سے جڑے آلات مہ کشی دیے جن کی مالیت ستر ہزار تھی جو آج کروڑوں روپے بنتی ہےا
اس نے پونچھا پسنہ روۓ عالم تاب کا
بن گیا رومال کونہ چادر مہتاب کا
دراصل لکھنو کی تہذیب ہندوستان میں آخری شمع کی مانند جل بجھ رہی تھی انگریز زیادہ تر علاقوں پر قبضہ کر چکے اورباقی ماندہ علاقوں ک طرف پیش قدمی کر رہے تھے لوگوں میں مقابلہ کرنے کی نہ ہمت تھی نہ ہی کوئی رہنما جو جرات کا مظاہرہ کرتا،آج وطن عزیز کوبھی ایسے ہی حالات در پیش ہیں ۔ ہر طرف نمود ونمائیش کا بازار گرم ہے اورزندگی بے قیمت ہو چکی ہے۔پیسہ ہی عزت ناپنے کا پیمانہ بن چکاہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...