آگ میں پڑ کر بھی سونے کی دمک جاتی نہیں
کاٹ دینے سے بھی ہیرے کی چمک جاتی نہیں
13 جنوری 1887: تاریخ پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک اہم رہنما اور شاعر لالہ لال چند فلک 13 جنوری1887ء کو اپنے آبائی وطن یعنی ضلع گوجرانوالہ پنجاب پاکستان) کے مشہور قصبے حافظ آباد میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کی لاہور میں غلّے اور اناج کی دکان تھی ۔ چنانچہ ان کا بچپن اور تعلیمی زمانہ یہیں گزرا۔ 1904ء میں دسویں درجے کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد کسبِ معاش کے لیے ملازمت اختیار کی اور چیف انجینیر کے دفتر میں جگہ مل گئی ۔ یہ دہ زمانہ ہے جب انگریز افسر اپنے دلیسی ماتحتوں سے بہت درشتی اور فرعونیت کا برتاؤ کرتے تھے۔ انھوں نے آئے دن اس طرح کے ناخوشگوار حالات دیکھے تو ان کے دل پر بہت اثر ہوا ۔ اس پر وہ ملازمت سے مستعفی ہو گئے اور پھر ساری عمر سرکاری نوکری کے نزدیک نہیں گئے ۔
کانگریس کی سیاسی تحریک اب روز بروز تیزتر ہو رہی تھی۔ لال چند فلک بھی اس میں شامل ہو گئے ۔ پُرجوش تقریریں اور نظمیں پڑھنے لگے۔ نوبت قید و بند تک پہنچی۔ جون ۱۹۱۷ ء میں بجرم بغاوت ۲۰ سال کے لیے کالے پانی (جزیرہ انڈیمان) کی سزا ہوئی جو بعد کو ۴ اسال کی قید میں تبدیل کر دی گئی ۔ لیکن جب 1920ء میں دستوری اصلاحات کا نفاذ ہوا تو تمام سیاسی قیدی رہا کر دیے گئے، اسی میں انھیں بھی رہائی ملی لیکن ان کا نشہ ایسا نہیں تھا کہ تعزیر و تعذیب کی ترشی اُسے اتار دیتی۔ ان کی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ۔
شعر پر اصلاح منشی دوار کا پر شاد افق لکھنوی سے لی۔ اسی زمانے میں ان کی قومی نظموں کے متعدد مجموعے شائع ہوئے تھے جام فلک ، پیام فلک کلام فلک۔ مہا بھارت بھی بطر زِ ناول نثر میں لکھی تھی ۔ ان کا یہ مصرع ضرب المثل بن چکا ہے .
تو کبھی بدل، فلک کہ زما نہ بدل گیا
اس بزرگ قوم پرست شاعر کا 26 مارچ 1967ء کو دلی میں انتقال ہوا۔ ۸۰ سال کی عمر پائی۔
افسوس، کوشش کے باوجود ان کے کلام کا کوئی مجموعۂ دستیاب نہیں ہوا۔ مندر جہ ذیل چند اشعار بڑی کوشش سے مہیا کر سکا ہوں ۔ ان کا کلام آپ بیتی اوردلی جذبات کا آمیز ہے۔
آگ میں پڑ کر بھی سونے کی دمک جاتی نہیں
کاٹ دینے سے بھی ہیرے کی چمک جاتی نہیں
سِل پر گھس دینے سے بھی جاتی نہیں چندن کی بو
پھول کی، مٹی میں مل کر بھی ، مہک جاتی نہیں
رنج میں آتا نہیں نیکوں کی پیشانی پر بل
دھوپ کی تیزی میں سبزے کی لہک جاتی نہیں
جا نہیں سکتی کٹہروں میں بھی شیروں کی دھاڑ
دست گلچیں میں بھی غنچوں کی چٹک جاتی نہیں
صاحبِ ہمت نہیں دبتا مخالف سے کبھی
زو ر سے آندھی کے آتش کی بھڑک جاتی نہیں
نعرہ زن رہتا ہے آفات و حوادث میں دلیر
بادلوں میں گھر کے بجلی کی کڑک جاتی نہیں
ملک کی الفت کا جذبہ دل سے مٹ سکتا نہیں
قوم کی خدمت کی خواہش اے فلک جاتی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
میں اٹھالوں گا بڑے شوق سے اس کو سر پر
خاک اڑانے کے لیے باد صبا آئے گی
زندگانی میں تو ملنے سے جھجکتی ہے فلک!
خلق کو یاد مری بعد فنا آئے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن کی پھانس جس دل میں گڑی ہے
خوشی سے وہ اٹھا تا ہر کڑی ہے
محن کا ابر ہے رحمت کا بادل
گھٹا آفت کی ، ساون کی جھڑی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخوذ از تذکرۂ معاصرین، مصنف:مالک رام