ہندوستان ٹھگی کی کاروائیاں قدیم زمانے سے چلی آرہی تھیں ۔ ان میں عموماً زہر دے کر اور گلے میں پھندا ڈال کر مسافروں کو قتل کیا جاتا تھا ۔ ٹھگوں مختلف براریاں تھیں جو کہ تمام ہندوستان متعظم شکل میں تھیں ۔ ان کی خطرناک کاروائیوں سے ملک کو کوئی بھی علاقہ محفوظ نہ تھا ۔ برصغیر کے ہر علاقے میں ان ٹھگوں نے خوف و حراص کی فضاء پھیلا رکھی تھی ۔ یہاں تک لوگ سفر کرتے ہوئے اور کسی بھی اجنبی مسافر پر اعتماد کرتے ہوئے ڈرتے تھے کہ ناگاہ ان کا ساتھی کہیں ٹھگ نہ ہو اور اس میں حقیقت بھی تھی ۔ کیوں کہ یہ ٹھگ مسافروں کو راستہ میں ہی مسافر کی حثیت سے ملتے تھے اور موقع پاکر ان کا قتل کردیتے تھے ۔ چنانچہ سی پی ، بنگال ، مدراس ، بمبئی ، یوپی ، سندھ اور پنجاب کی کسی سڑک یا راستہ ایسا نہیں تھا جو ان ٹھگوں کے وجود سے خالی ہو ۔ اکثر بشتر مسافر راستہ میں غائب ہوجاتے یا ان کی لاشیں بے دردانہ طریقے سے گلہ گھٹہ ہوا ملتی تھیں ۔
ٹھگی کے مختلف طریقے
یہ ٹھگ مختلف قسم بھیس بدلنے میں ماہر ہوتے تھے اور مختلف روپوں میں یہ اپنا کام انجام دیتے تھے ۔ یہ ٹھگ اکثر مختلف میں مسافروں کے ساتھ سفر کرتے اور راستہ میں ان مسافروں کو فریب سے زہر کھلا کر یا گلے میں کپڑے کا پھندا ڈال قتل کر دیتے تھے اور ان کا مال و متاع لے کر فرار ہوجاتے تھے ۔ ان میں کچھ گروہ ایسے تھے جو بھکاریوں کو بھی قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے ۔ ان ٹھگوں میں بعض گروہ دولت کے نہیں قتل کرتے تھے بلکہ ان کا مقصد ان کے بچوں کو اغوا کرکے فروخت کے لیے قتل کرتے تھے ۔ یہ ٹھگ میگھ پونیا کہلاتے تھے ۔ جو ہندی میں میکھ پھندیاں ہے ۔ میکھ یعنی کیل اور پھندیاں پھندے کو کہتے ہیں اور یہ تسمہ باز کے مترادف ہے ۔ تسمہ باز مختلف شعبدہ بازی بھی کرتے تھے ۔ اس سے بھولے بھالے لوگ اور دیہاتی ان کے پھندے میں پھنس جاتے تھے ۔
تسمہ بازی کا طریقے فیتہ دہرا کر کے لپیٹ لیا جاتا تھا اور ماہرے یہ ہوتی تھی کہ لپٹے ہوئے فیتہ میں سلاخ اس طرح پڑوتے کہ اگر فیتہ کو کھولا جائے تو سلاخ بیچ میں آجائے اور سرا چھوڑے بغیر سلاخ نہ نکلے ۔ یہ تسمہ باز ٹھگ منگھ پونیا کی طرح سے ہوتے تھے ۔ ان کے ٹھگنے کا طریقہ ایک ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ کافی نئے نئے طریقوں سے لوگوں کو ٹھگا کرتے تھے ۔ جنرل ہروی نے منگھ پونیا کے ٹھگوں کے سات طریقہ ریکارڈ میں لکھے ہیں جو کہ راجپوتانہ میں رائج تھے ۔ ۱۸۰۳ء میں کانپور کی برطانوی رجمنٹ میں ایک کریگ سپاہی نے تین اور سپاہیوں کو تسمہ بازی کا طریقہ سکھایا اور یہ شخص یورپین تسمہ بازوں کا سرغنہ بن گیا تھا ۔ یہ سپاہی چھٹی لے کر لوگوں کو لوٹا کرتے تھے اور چھٹی ختم ہونے پر واپس رجمنٹ میں آجاتے تھے ۔
زہر دینے والوں کی دو یا تین افراد آٹھ دس مسافروں کو بڑی مہارت سے ہلاک کریا کرتے تھے ۔ ان کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ وہ سفر پر روانہ ہوتے تھے ۔ راہ میں دوسرے مسافروں کی ٹولی مل جاتی تھی اور یہ ان کے ساتھ سفر کرتے تھے ۔ چند دنوں کے سفر کے بعد یہ ان سے تعلقات بڑھاتے اور اپنی باتوں سے ان کو رجھاتے ۔ ان سے اپنے مسلے مسائل بیان کرتے اور ان سے مشورہ کرتے ۔ اس طرح کے مسلے مسائل سنتے اور ان کو بھی مخلصانہ مشورے دیتے ۔ ان اپنی کسی شادی میں مدعو کرتے ۔ یہاں تک وہ ان پر اعتماد کرنے لگتا تھا ۔ پھر وہ کھانا یا کسی مٹھائی میں زہر ملا کر انہیں دعوت دیتے تھے ۔ دوسرے مسافر ان کا خلوص دیکھ کر انکار نہیں کرتے تھے اور وہ مٹھائی یا کھانا کھالیتے اور موت کی نیند سوجاتے تھے ۔ اکثر زہر دینے کا کام اس گروہ کی بوڑھی عورتیں یا مرد انجام دیتے تھے ۔ یہ زہر دھتورے کے بیجوں کا نہایت مہلک زہر ہوتا تھا ۔
یہ مجرمانہ پیشہ کسی خاص طبقہ یا مذہب کے لیے مخصوص نہیں تھا ۔ بلکہ ہزاروں افراد جو اس پیشہ سے منسلک تھے ان میں ہر مذہب ، فرقہ اور طبقہ کے لوگ شامل ہوتے تھے اور اس پیشہ میں برصغیر کے کونے کونے سے نئے لوگ بھی شامل ہوتے تھے ۔ ۱۸۷۷ء میں آگرہ کے کہاروں کے ایک گروہ نے ٹھگی کا پیشہ اختیار کرلیا ۔ اس گروہ میں عادی اور نئے دونوں طرح کے لوگ شامل تھے یہ لوگ کھانا پکانا چانتے تھے اور سڑکوں پر سوتے تھے ۔ جس وجہ سے انجام مسافر ان کے پنجے میں پھنس جاتا تھا ۔
ٹھگ اپنی کاروائیاں چند افراد کی صورت میں سفر کرتے تھے ۔ دوسرے اس گروہ کہ ٹھگ ان کی پیچھے یا کچھ آگے ہوتے تھے یا کسی اور مقام پر انتظار کر رہے ہوتے تھے ۔ ان سب کا آپس میں مسلسل رابطہ ہوتا تھا ۔ یہ پیغام رسانی کے لیے راہ میں آتے جاتے بظاہر مسافر لیکن اصل میں ٹھگ ہوتے تھے کے ذریعے مختلف اشاروں یا اپنی مخصوص بولی میں جسے دوسرے مسافر سمجھ نہیں پاتے تھے بھیجواتے تھے ۔ ایسا بھی ہوتا تھا یہ کسی قافلعہ کی شکل میں جس میں کوئی امیر آدمی بڑی شان و شوکت اور سپاہیوں کے ساتھ سفر کر رہا ہوتا تھا ۔ جس کے ساتھ مختلف پیشوں اور سپاہی بھی ساتھ ہوتے ۔ نادان مسافر اپنے تحفظ کے لیے ان کے ساتھ سفر کرتے اور نتیجہ میں وہ پھنس جاتے تھے ۔ ان میں سے بہت سے گرفتار کرلیے جاتے تھے ۔ مگر زیادہ تر انفرادی مجرم کی حثیت سے ۔ جس کی وجہ سے ان کے گروہوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی انہیں لمبی سزائیں ملتی تھیں ۔ کیوں کہ انہیں گرفتار کرنے والے اکثر جاگیردار ہوتے تھے ۔ جو کہ ان کے پیشے کو جانتے تھے وہ ان سے دولت کے حصول کے لیے انہیں گرفتار کرتے ۔ اس وہ مال دے کر چھوٹ جایا کرتے تھے ۔ یہ اپنی مہموں کم از دو افراد کے ساتھ اور اس سے بڑی کی قید نہیں ہوتی تھی شریک ہوتے تھے ۔ ہاتھ آئے ہوئے مال میں ہر ٹھگ کو اس کے کام کے مطابق حصہ ملتا تھا ۔ قتل کرنے والا یا پھندا ڈالنے والا زیادہ حصہ کا حقدار ہوتا تھا ۔
۱۸۲۹ء تک یہ جرائم مسلسل جاری تھے مگر ان کے انسداد کی طرف کسی نے سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی ۔ کرنل سلیمن نربدا ساگر کے علاقہ میں مامور ہوئے ۔ ان کے علم یہ بات آئی کہ ۱۸۰۷ء میں جبل پور کی سڑک پر ۱۷ خزانہ بردار اور ۱۸۱۴ء میں ضلع دموہ سے میل کے فاصلے پر ہٹہ کو جانے والی سڑک پر سنجا گاؤں سے آدھ میل کے فاصلے پر سات آدمی قتل ہوئے تھے ۔ اس طرح کی اور وارداتیں ان کے علم آئیں ۔ چنانچہ انہوں نے اس کے متعلق ایسٹ انڈیا کمپنی کو ان جرائم کی تفصیلی رپوٹ بھیجی ۔ جس کے بعد ۱۸۲۹ء میں ایف سی سمتھ کو نربدا ساگر کے علاقہ میں خصوصی طور پر بھیجا گیا اور اس کے اسٹنٹ کے طور پر کرنل سلیمن کا تقرر ہوا اور بعد میں ۱۸۳۵ء میں سپرنٹنڈٹ محکمہ انسداد ٹھگی اور ۱۸۳۸ء میں کمشنر ٹھگی اور ڈاکہ کے عہدے پر فائز ہوئے ۔
انسداد ٹھگی
یہ دور ٹھگوں کے مجرموں کی تحقیقات کا کہلاتا ہے ۔ جس میں ٹھگوں کے مختلف گرہوں کے رکنوں اور ان کے عزیز و اقارب اور دوستوں کے بارے تحقیقات کیں گیں ۔ ان کے حالات معلوم کرکے ان کا پوری طرح قلع قمع کرنے کی کوشش کی گئیں ۔ اس قبیح جرم کے خاتمہ کے لیے خاص قوانین جن میں ۱۸۳۷ء کا ایکٹ ۱۸ ، ۱۹ ۔ ۱۸۳۸ء کا ایکٹ ۱۰ ۔ ۱۸۳۹ء کا ایکٹ ۱۸ ۔ ۱۸۴۲ء کا ایکٹ ۱۴ ۔ ۱۸۴۳ء کا ایکٹ ۱۸ ، ۲۴ ۔ ۱۸۴۷ء کا ایکٹ ۱۰ اور ۱۸۴۸ء کا ایکٹ ۳ اور ۱۱ کا نفاذ کیا گیا ۔ حیدرآباد ، میسور ، اندور ، لکھنو اور گوالیار میں میں ان مقدمات کے لیے خاص عدالتیں قائم کی گئیں ۔ جہاں ہر قسم شہادت جس میں دستاویزی زبانی اور دوسرے شہادتیں پیش کرنے اجازت تھی ۔ چاہے اس کی حثیت کچھ بھی ہو ۔
ان عدالتوں کے مجسٹریٹ اور کیس کی پیروی کرنے والے نہایت ذہین اور محنتی انگریز تھے اور وہ یہ کام اعزازی طور پر کرتے تھے ۔ چنانچہ ان کی محنت اور کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ ۱۸۲۶ء تا ۱۸۳۵ء کے دوران ٹھگی کے جرم میں ۱۵۶۲ ملزموں پر مقدمات چلائے گئے ۔ ان میں سے ۱۴۰۴ افراد کو پھانسی یا عمر قید کی سزا دی گئی ۔ کچھ ٹھگوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے دوسو سے زیادہ قتل کئے ۔ ایک ٹھگ نے بتایا اس نے ۱۷۱۹ افراد کو قتل کیا ۔ جو ٹھگ وعدہ معاف گواہ بنے ان کی جان بخشی کئی گئی اور انہیں جبلپور کی اسپیشل جیل میں مع ان کے خاندانوں کے نظر بند کیا گیا ۔ انہیں دری ، قالین اور دوسرے کاموں کی مشقت میں لگایا گیا ۔ ان کی مشقت کے لیے ایک کارخانہ کرنل سلیمن اور کیپٹن چارلیس براؤن کی کوششوں سے ۱۸۳۸ء میں قائم کیا گیا ۔ یہاں تک برصغیر سے اس جرم کا مکمل صدبات ہوگیا اور ۱۹۰۴ میں محکمہ انسداد ٹھگی کو ٹور دیا گیا ۔