::: ہندوستان کے صحافی اور دانش ور کلدیپ نائر دنیا میں نہیں رہے:::
=============================================
ہندوستاںن کے بزرگ صحافی کلدیپ نائر 12 جون 2018 بروز منگل الصبح دنیا کو خیر باد۔ ان کی عمر 94 برس تھی۔
۔ کلدیپ نائر بائیں بازو کے ادیب اور اخبار نویس ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے علم بردار بھی ہیں۔ انھوں نے 1971 میں سقوط ڈھاکہ پر بڑے پر مغز مٍضامین اور کالمز لکھے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں
کلدیپ نیئر 14 اگست 1923 کو سیالکوٹ، پنجاب، برطانوی بھارت میں پیدا ہوئے. ان کی انگگی کے ابتدائی چوبیس /24 سال سیالکوٹ / پاکستان میں بسر ہوئے۔انہوں نے بی اے (آنرز.) کرسچین کالج فار مین لاہورسے اور ایل ایل بی لاء کالج لاہور سے اسناد لیں. پھر 1952 میں، انہوں نے نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے میڈل/ Medill اسکول سے ایک اسکالر شپ پر صحافت کی تعلیم حاصل کی: انھوں نے 80 اخبارات میں لکھا۔ ان کے مٍضامین اور حاشیے 14 اخبارات میں ترجمہ ھوکر بھی چھپتے ہیں۔ وہ انا ہزارے کی اصلاحی تحریک سے بھی منسلک رہے ۔ وہ برطانیہ میں ہندوستان کے ہائی کمشنر رہے ہیں۔ 1997 میں وہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے رکن بھی رھے۔ انھوں نے قبل تقسیم ہند سیالکوٹ میں اردو اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ بہت اچھی اردو بولتے اور لکھتے تھے ۔ مگر اب انھوں نے اردو میں لکھنا ختم کردیا ہے۔
ایک کتاب 'دو شہروں کی کہانی' جو کلدیپ نے پاکستانی صحافی آصف نورانی کے تعاون سے تحریر کی تھی میں نائر نے تقسیم ہند کے بارے میں پوری وضاحت اور تفصیل سے لکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے تقسیم کی بدولت لاکھوں زندگیاں بدل گئیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ ضروری تھی؟ کیا یہ خون بہانے کا عمل بھارت کو تقسیم کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا تھا؟ جناح اور نہرو کو اس تقسیم کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کلدیپ نئیر نے لکھا کہ تقسیم ہند لازمی نہیں تھی۔ کیبنٹ مشن نے تمام مسائل کے حل کا وعدہ کیا تھا لیکن حالات کچھ ایسے ہو گئے کہ نہرو اور جناح اپنی ضد پر اڑے رہے اور تقسیم ایک لازمی امر بن گئی۔ انہوں نے لکھا کہ ایک دن پورا جنوبی ایشیا ایک ہی ریاست کہلائے گا۔ ایک ہی ویزا اور ایک ہی کرنسی ہو گی۔ ہر آدمی کو سوچنے کام کرنے اور سفر کرنے کی آزادی ہو گی۔
زخم، خون اور تباہی دیکھنے کے باوجود انہوں نے دوسرا طریقہ کیوں اختیار نہیں کیا؟ بہت سے لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ رائٹ ونگ آرگنائزیشن جو بارڈر کی دونوں اطراف میں موجود تھیں ایسا ہی کیا۔ نئیر نے بتایا کہ انہوں نے یہ سارا صدمہ بھرا دور دیکھا اس لیے ان کے دماغ میں پلورلزم کا خیال پکا ہو گیا۔ انہوں نے سیکھا کہ ایک انسان کو اس کے سوچ اور کمٹمنٹ سے جج کیا جاتا ہے نہ کہ اس کے مذہب سے۔
نئیر کو اردو زبان سے بہت پیار تھا۔ وہ اپنی جوانی میں شاعری لکھا کرتے تھے۔ حسرت موہانی نے انہیں بتایا کہ شاعری پر وقت ضائع نہ کرو کیونکہ تمہارے اشعار کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود اردو ، نئیر کا پہلا پیار تھا۔ اور نئیر اردو کے ایک چمپئین تھے۔ بھارت میں اردو کو نظر انداز کیے جانے کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں؟ جب بھی اردو کا کوئی پروگرام ہوتا ہے تو سامعین کی تعداد اتنی کم کیوں ہوتی ہے اور صرف گرے بالوں والے لوگ ہی اردو کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ بھارتی مسلمانوں کی شکایت کے اردو کو بے حسی نے بھارت سے ختم کیا ہے کے بارے میں نئیر کیا سوچتے ہیں؟ اردو کو تقسیم ہند کا سب سے بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے نئیر تمام سیاسی پارٹیوں کو خصوصا کانگریس کو اردو کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اپنے خاص انداز میں نئیر لکھتے ہیں: بی جے پی کی طرف سے اردو کو نظر انداز کرنے کی وجہ سمجھ آتی ہے لیکن کانگریس اردو کے ساتھ ایسا رویہ کیسے اپنا سکتی ہے؟
اب صرف انگریزی میں لکھتے ہیں۔ ابھیں " بھارت شکن سازشی نظرئیے" کو پروان چڑھانے کا مجرم بھی قرار دیا گیا۔ ہندوستاں میں قوم پرست اور ہندوتوا کے ہمدررہ حلقے کلدیپ نائر پر پاکستان دوستی کا الزام عائد کرتے تھے۔ 25 فروری 2013 کلدیپ نائر اسلام آباد تشریف لائے تھےجہاں انھون نے کہا کہ بھارت کو پاکستان کے سوالوں کا جواب دینا چاہیے اور دونوں ممالک کو امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ ممبئی حملوں کے بعد دونوں ممالک کے میڈیا کا کردار منفی رہا ہے تاہم گزشتہ چند ہفتوں سے پاکستانی میڈیا کا کردارمثبت ہے۔ کلدیپ نہے نے اپنے ایک اخباری حاشیے میں لکھا تھا ۔۔۔" بیشک پاکستان نے ایک مکروہ پالیسی کے تحت ، جو جنرل ضیاءالحق کے دورمیں بنی، کشمیر کی سیاسی تحریک کو خونی تحریک میں تبدیل کردیا، جس کی بدولت کشمیریوں کی مصیبتیں اور بڑھےں۔ یہ سبق پاکستان نے امریکا سے سیکھا تھا جس نے افغانستان میں ایسی ہی تحریک چلاکر روسیوںکو فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ مگرسوال یہ ہے کہ یہ وہی کشمیری توہیں جو سنہ1948ءمیں پاکستانی قبائلیوں کے مقابلے میں ہندستانی افواج کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان کے اس قدر برگشتہ ہونے اور پاکستان کے دام میں پھنس کر بقول نائر صاحب ’کشمیر-پاکستان دہشت گرد مرکب ‘ترتیب پانے کے اسباب کی پس پشت کون سے عوامل کارفرما رہے؟ مولانا آزاد کے خطوط میں اس کا جواب موجودہے۔ اس کے لئے مرکزی سرکار کے کارپردازوں کی کوتاہ نظری اور مسلم کش متعصبانہ پالیسیاں ذمہ دار ہیں اور یہ بات نائر صاحب سے پوشیدہ نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت مین بائیں بازو کا زوال ان سیاسی جماعتوں کی یساریت پسند نظریات سے گریز اور اغماصیت تھی پہذا اس کی جگکہ دائیں بازوں نے لے ۔ وہ کہتے تھے کی اس بات صداقت نہیں کہ پاکستان کا الگ وجود ہے ۔ پاکستان کو پاکستان اور ہندوستان کو ہندوستان رہنا چاہیے کیونکہ ہندوستان کے عوام بحِ پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔اپنی خود نوشت سوانح Beyond the Lines کے عنوان سے شائع ہو چکی ہےان کی کتابوں کی فہرست یہ ھے:
Nayar, Kuldip (1969). Beyond the lines. Allied Publishers. .
Nayar, Kuldip (1971). India – The Critical years. Vikas Publications.
Nayar, Kuldip (1972). Distant Neighbours – A tale of the subcontinent. Vikas Publishing House Pvt Ltd. .
Nayar, Kuldip (1974). Suppression of judges. Indian Book Co.
Nayar, Kuldip (1975). India After Nehru. Vikas Publications. .
Nayar, Kuldip (1977). The Judgment:Inside story of the emergency in India. Vikas Publishing House..
Nayar, Kuldip (1978). In Jail. Vikas Publishing House Pvt Ltd. .
Nayar, Kuldip (1980). Report on Afghanistan. Allied Publishers Ltd. .
Nayar, Kuldip; Singh, Khushwant (1985). Tragedy of Punjab: Operation Bluestar & After. South Asia Books. .
Nayar, Kuldip (1992). India House. Viking. .
Nayar, Kuldip (2000). The Martyr : Bhagat Singh Experiments in Revolution. Har Anand Publications. .
Nayar, Kuldip (2003). Wall at Wagah – India Pakistan Relations. Gyan Publishing House. .
Nayar, Kuldip (2006). Scoop! : Inside Stories from Partition to the Present. HarperCollins. .
Nayar, Kuldip (2007). Without Fear: The Life and Trial of Bhagat Singh. HarperCollins India..
Nayar, Kuldip; Noorani, Asif; Page, David (2008). Tales of two cities. Lotus Roli
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔