(Last Updated On: )
پیدائش:02 فروری 1915ء
ہڈالی
وفات:20 مارچ 2014ء
نئی دہلی
قومیت:بھارتی
زوجہ:کاول ملک
مادر علمی:سینٹ رافل کالج دہلی
کنگز کالج لندن
پیشہ:صحافی، مصنف، تاریخ دان
پیشہ ورانہ زبان:انگریزی
اعزازات:
پدم وبھوشن
برائے ادب اور تعلیم (2007)
پدم بھوشن- (1974)
ڈرٹی اولڈ مین:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خشونت سنگھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان کے معروف صحافی‘مصنف اور کالم نگارخشونت سنگھ 02 فروری 1915ء کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب کے گاؤں ہڈالی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم بھارت کے شہر دہلی میں حاصل کی اور پھر مزید تعلیم لاہور کے گورنمنٹ کالج سے پائی۔ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی اور انر ٹیمپل میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے واپس لاہور جا کر ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت نئی دہلی میں بس گئے۔کچھ عرصہ وزارت خارجہ میں سفارتی عہدوں پر بھی تعینات رہے لیکن جلد ہی سرکاری نوکری کو خیرآباد کہہ دیا۔ان کا ذرائع ابلاغ سے تعلق 1940ء کی دہائی کے آخر میں اس وقت قائم ہوا تھا جب انہوں نے وزارتِ خارجہ میں ملازمت کی اور پہلے کینیڈا اور پھر برطانیہ اور آئرلینڈ میں افسر اطلاعات اور پریس اتاشی کے طور پر بھارتی حکومت کی نمائندگی کی۔سرکاری ملازمت کے دوران ہی انہوں نے ملک کے منصوبہ بندی کمیشن کے جریدے ’’یوجنا‘‘کی ادارت سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا اور سرکاری ملازمت سے مستعفی ہونے کے بعد 1951 ء میں صحافی کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو میں نوکری اختیار کر لی جہاں سے ان کے تابناک کیریئر کا آغاز ہوا۔
اپنی قبر کا کتبہ بھی خود لکھا۔۔۔ ’’اپنے آنسو ضائع کرنے کی ضروت نہیں‘‘ موت سے چار برس قبل معروف بھارتی میگزین آؤٹ لک میں خشونت سنگھ کامضمون شائع ہو اتھا۔لکھتے ہیں:’’بہت سال پہلے میں نے اپنی قبر کی لوح کے لئے ایک منظوم پیغام بھی لکھ لیا تھا‘ یہاں وہ شخص لیٹا ہے‘ جس نے کسی انسان کو معاف کیا نہ خدا کو‘ اس کے لئے اپنے آنسو ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ بدکردار تھا‘ گندی گندی چیزیں لکھتا اور انہیں فرحت بخش کہتا تھا۔ شکر ہے مالک کہ وہ مر گیا‘خود کو بڑا تیس مار خان سمجھتا تھا‘‘۔ حکومتِ ہند نے انہیں 1974 میں ملک کے دوسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن سے نوازا تھا لیکن 1984 میں گولڈن ٹیمپل میں ہونے والے فوجی آپریشن بلیو سٹار پر احتجاجاً انہوں نے یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔وہ بھارت کے مشہور جریدے نیشنل ہیرالڈ جوبعد میں السٹریٹڈ ویکلی کہلایا کہ مدیر رہے اور ان کے دور میں یہ جریدہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ خشونت سنگھ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر بھی رہے۔ خشونت سنگھ نے 30 سے زیادہ ناولوں کے علاوہ درجنوں افسانے اور مضامین سمیت 80 سے زیادہ کتابیں تحریر کیں۔بطور ادیب انہیں سب سے پہلے پہچان برصغیر کی تقسیم کے موضوع پر لکھے گئے ناول’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ سے ملی جسے 1954 میں عالمی شہرت یافتہ گروو پریس ایوارڈ دیا گیا‘اس کے علاوہ انہوں نے ’’ہسٹری آف سکھ‘‘ کے نام سے سکھ مذہب کی تاریخ بھی لکھی جسے اس سلسلے میں ہونے والا سب سے ٹھوس کام سمجھا جاتا ہے۔عمر کے آخری دور میں بھی وہ لکھنے لکھانے میں مصروف رہے اور گزشتہ برس ان کی کتاب ’’خشونت نامہ: دی لیسنز آف مائی لائف‘‘ شائع ہوئی تھی۔ خشونت سنگھ 1980ء سے 1986ء تک بھارتی راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے۔ بھارتی صحافت اور ادب کے’’ڈرٹی اولڈ مین‘‘ خشونت سنگھ قریباً چھ دہائیوں تک بھارتی ادب اور صحافت پر چھائے رہے۔وہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرتے تھے اور اکثر سیکس اور خواتین پر اپنے بیانات کی وجہ سے تنازعات میں گھر جاتے۔ اسی لیے انہیں بھارتی ادب کا ’’ڈرٹی اولڈ مین‘‘ کہا جانے لگا تھا لیکن انہوں نے اس لقب پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔مصنفہ سعدیہ دہلوی نے ایک مرتبہ خشونت سنگھ کے بارے میں کہا تھا کہ’’ اگر خشونت سنگھ عورت ہوتے تو ہمیشہ امید سے ہی رہتے کیونکہ انہیں کسی کام کے لیے منع کرنا نہیں آتا تھا۔‘‘اردو ادب اور شاعری کا انہیں بے پناہ شوق تھا جس کی جھلک ان کے مضامین میں خوب نظر آتی تھی اور ان کی ظرافت شناسی بے مثال تھی جس کا وہ اپنے کالم میں بھرپور استعمال کرتے تھے۔موت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا ’’ہمارے گھروں میں موت کا شاذ ونادر ہی ذکر کیا جاتا ہے‘ نامعلوم کیوں جبکہ ہم سب کو معلوم ہے کہ موت آنی ہی ہے‘ خدا میں شک ہو تو ہو‘ موت میں نہیں کوئی شک۔۔۔ پچانوے برس کی عمر میں‘ میں اکثر موت کے بارے سوچتا ہوں لیکن اتنا نہیں کہ نیند اڑ جائے‘ جو لوگ گزر چکے ہیں‘ ان کے بارے میں سوچتا ہوں کہ وہ کہاں ہوں گے‘ مجھے اس کا جواب نہیں‘ معلوم کہ مرنے کے بعد آپ کہاں جاتے ہیں پھر کیا ہوتا ہے۔۔۔؟بس امید کرتا ہوں کہ جب موت آئے تو تیزی سے آئے‘ زیادہ تکلیف نہ ہو‘ جیسے بس آپ سوتے ہوئے اس دنیا سے چلے جائیں۔‘‘
خشونت سنگھ کو ویسی ہی موت نصیب ہوئی جیسی وہ چاہتے تھے۔ ان کی عمر 99 برس تھی‘