عشق بلاخیزکاقافلہ سخت جاں
پاکستان:قصہ صدی گزشت
12فروری 1922
”جن پہ تکیہ تھاوہی پتے ہوادینے لگے“
4فروری 1922کو”چوری چورا“ کے واقعے کی شدت سے اگرچہ بہت نقصان ہواتھالیکن منزل کے قریب آلگنے کے شواہدبھی نظرآنے لگے تھے۔چونکہ اس پرتشددسلسلے نے اب پورے ہندوستان میں آگ کی طرح پھیلناتھااور حکومت وقت کو اپنے وعدوں کے ایفاپر مجبور کرناتھااس لیے امیدتھی کہ ایک بہت بڑاعوامی دباؤ جنم لے گااور ہندوستان کی مقامی قیادت اس دباؤ کو بروئے کار لاتے ہوئے ”کچھ لواورکچھ دو“ کے فارمولے کے تحت فرنگیوں سے کامیاب مزاکرات کر لے گی۔یہ ضرور تھاکہ اتنے پرتشددواقعات کو بہرحال لگام بھی دیناتھی تاکہ انگریزکو نقصان پہنچاتے پہنچاتے ہم اپنی ہی قیمتی جانوں اور اپنی ہی بیش قیمت املاک سے ہاتھ نہ دھوبیٹھیں۔اب یہ قیادت کی آزمائش تھی کہ وہ شطرنج کے اس کھیل میں حالات سے کیسے فائدہ اٹھاتی ہے اورہندوستانی عوام کے لیے کوئی اچھی نویدلانے میں کامیاب ہوتی ہے۔قدرت نے تاسیس خلافت کاایک بہانہ فراہم کردیاتھاجس نے برصغیرکے عوام کوجہاں جھنجھوڑ ڈالاتھاوہاں ہندومسلم قیادت کو بھی یک موقفاتی سطح پرلے آئی تھی۔اتحادمیں ہی برکت ہوتی ہوتی جب کہ انتشارسے ہمیشہ نقصان ہی ہوتاہے۔انگریزپہلے دن سے ”لڑاؤ اورحکومت“کی منصوبہ بندی ساتھ لے کر آیاتھااور اس کی پوری کوشش تھی کہ نہ صرف ہندومسلم باہم جداہوجائیں بلکہ مسلمانوں کے اندر بھی پھوٹ ڈال کر ہندوستانیوں کے کل اتحادکو پارہ پارہ کر دے۔
”چوری چورا“کے واقعے کے آٹھ دن بعد وہ تحدیدمدت ختم ہورہی تھی جو گاندھی جی نے حکومت کو دے رکھی تھی،یعنی 12فروری 1922۔ ابھی اس تحدید وقتی پر گاندھی جی اورحکومت کے درمیان خط و کتابت بھی جاری تھی اور اخبارات اس کی رپوتاژبھی مسلسل شائع کررہے تھے۔گاندھی جی نے مذکورہ واقعے کے بعد بہت عجلت میں تحریک کے خاتمے اعلان کردیا۔یہ ایک بہت بڑافیصلہ تھاجس پر پورے ہندوستان کی سیاسی فضانے متاثرہوجاناتھااور نتیجۃ ہو بھی گئی۔گاندھی جی کواتنابڑافیصلہ کرنے سے پہلے کم از کم اتحادیوں کو اعتمادمیں تولے لیناچاہیے تھایا شریک مشورہ ہی کرلیتے یاوقت کی طوالت سے حالات کے اونٹ کامشاہدہ کرلینے کی مہلت حاصل کرلیتے کہ وہ کس کروٹ بیٹھے گا۔لیکن اسے حالات کی ستم ظریفی کہیے یادانادشمنوں کی چال یاہتھکنڈے کہیے بہرحال ہندومسلم قیادت کی اکثریت پس دیوارزنداں پابندسلاسل تھی۔ممکن ہے یہ قیادت گاندھی جی کے یمین و یسار ہوتی توفیصلے کچھ مختلف ہوتے لیکن ہوناوہی تھاکاتب تقدیرلکھ چکاتھااورمذکورہ واقعہ آخری پتھرثابت ہوا۔گاندھی جی نے جوکام فیصلے سے پہلے کرناچاہیے تھاوہ بعد میں کیااوراپنے فیصلے کی توثیق کے لیے ایک اجلاس طلب کرلیا۔یہ اجلاس 11اور12فروری1922کو ”بارڈولی“،جوسورت ریاست گجرات میں واقع ہے،کے مقام پر منعقد ہوا۔اس اجلاس میں گاندھی جی کی بہت مخالفت ہوئی لیکن پنڈت مدن موہن مالویاکی زبردست حمایت سے گاندھی جی اجلاس سے اپنی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔”پنڈت مدن موہن مالویا(1861-1946)معروف ہندوقوم پرست ماہرتعلیم اورسیاست دان تھے اور چاردفعہ کانگریس کے صدر رہے اور اس پر بھی مستزاد یہ کہ ”اکھل بھارتیہ ہندومہاسبھا“نامی ہندوقوم پرست سیاسی جماعت کے اور ”بنارس ہندویونیورسٹی“کے بانی سربراہ تھے اورانگریزکے اس قدر منظورنظرتھے کہ ان کو ملنے والا سرکاری خطاب ”مہامنا“کسی اورہندوستانی کوکبھی نہیں مل سکاتھا۔اس مختصرسے پس منظر کے ساتھ بآسانی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ مسلمانوں کے بارے میں اور خاص طورپر خلافت اسلامیہ کی تحریک احیاء کے بارے میں ان کی فکر کیاہو سکتی تھی۔
12فروری1922اس لحاظ سے ایک افسوس ناک دن ثاببت ہوا کہ دو سال سے زائد کی ہندومسلم مشترکہ جدوجہد ہندوقیادت کے ایک اہم ترین فرد کی نذرہوچکی۔یہ بات اس لیے بھی زیادہ حیرانی کاباعث نہیں تھی کہ ہندؤں نے گزشتہ ایک ہزارسالوں سے عام عوام اوررعایاکی حیثیت سے رہتے رہے تھے اورقدیم زبانوں میں لفظ ”ہندو“کا لغوی مطلب بھی ”نوکر اورغلام اورخدمت گار“ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں نسلوں اورصدیوں تک قیادت و سیادت کے منصب پرفائزرہے کیونکہ اللہ تعالی نے امت مسلمہ کودنیاکی امامت پرفائزکیاہے۔بروقت،برموقع،جرات مندانہ اور صائب فیصلوں کے لیے قائدانہ صلاحیتوں کاہونا ازحدضروری ہے اور ہندوستان میں اس صلاحیت کے وارث صرف مسلمان ہی تھے۔ممکن ہے اس بات کو ایک مفروضہ سمجھ لیاجائے لیکن آج سے ایک سوسال پہلے اورآج بھی ہندوقیادت جوکچھ کررہی ہے وہ اعلی قائدانہ جواہر سے کسی صورت میل نہیں کھاتے۔آج سے ایک سوسال پہلے 12فروری 1922کو اس اجلاس نے فیصلہ کیاکہ تمام احتجاج معطل کردیے جائیں،مظاہرے فوری طورپر بندکردیے جائیں،جلسے اور جلوس اورردعمل کے تمام جمہوری طرق سے دستبردارہوجایاجائے۔اس اجلاس میں یہ فیصلے بھی کیے گئے کہ گرفتارافراد کے لیے قانونی چارہ جوئی جاری رکھی جائے اورتعلیمی و ثقافتی اور سماجی سرگرمیاں بھی معطل نہیں ہوں گی۔یہ گویابدیسی حکمرانوں کے لیے واضع اشارہ تھا کہ ہندوقیادت کے لیے مسلمانوں اورغیرمسلموں کے درمیان رویے میں کیافرق ہے یاہوگا۔وقت کاطاغوت بھی 12فروری1922کے اس فیصلے کو بخوبی سمجھ گیااور بعد کی تحریک سے تقسیم ہندتک قوم شعیب کے یہ پیمانے تاریخ کے ہر طالب علم کے سامنے اظہرمن الشمس ہیں۔
12فروری1922ء بارڈولی کے اجلاس کی اندرکی کہانی یہ ہے کہ گاندھی جی کواپنے بزدلانہ فیصلے پر بہت زیادہ ردوکد کاسامناتھا۔خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے بہت زیادہ مخالفت کی گئی اورباربار یہ بات باورکرانے کی کوشش کی گئی دوتین سالوں پر محیط تحریک اور کئی انسانی جانوں کی قربانی کو اس طرح ایک واقعے کے بعد جلدبازی کے فیصلے کی نذر نہ کیاجائے۔اجلاس کی طویل روداد جو اس وقت کے اخبارات ”ہندو“،”ٹائمز“ اور”لیڈر“میں کئی قسطوں کے اندر شائع ہوتی رہی، اس کے مطالعے سے اندازہ ہوجاتاہے کہ ہندوقیات کی ذہن سازی کردی گئی تھی اور اجلاس صرف اعتماد حاصل کرنے کی غرض سے دنیاکو دکھاوے کی کاروائی کے لیے تھا۔خاص طورپر پنڈت مدن موہن مالویاکے دلائل اور ان کی برجستہ تقریریں پہلے سے تیاری کا پتہ دیتی ہیں۔اس فیصلے کواس لیے بھی یک طرفہ کہاجانا بجاہوگاکہ مسلمان قیادت،جوآہنی سلاخوں کے پیچھے تھی، کو مکمل طورپر نظراندازکردیاگیاتھا۔اجلاس کی کاروائی میں ایک بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ نوجوان لوگ جو ہندومذہب سے متعلق تھے وہ بھی اپنی ہندوقیادت سے زبردست اختلاف رکھتے تھے۔ان ہندونوجوانوں نے ہندومسلم اتحاد کی باتیں کیں اور اس یک طرفہ فیصلے پر مسلمانوں کے متوقع شدیدتحفظات کی پیشین گوئی بھی کی۔لیکن ان کے موقف کو بھی ملیامیٹ (بلڈوز)کردیاگیاکیونکہ ہندوقیادت1857 کے بعد سے سمجھ چکی تھی کہ انگریزسے مسلمانوں کی قیمت پرہی کچھ حاصل کیاجاسکتاہے اور تقسیم ہنداس کی گواہ ہے۔چنانچہ چوری چوراوالے بہانے کے بعداور مسلمانوں قیادت کی غیرموجودگی سے فائدہ اٹھانے کااس سے بہترموقع ہاتھ نہیں آسکتاتھا۔چنانچہ اس اجلاس کے بعد 17فروری1922کانپور کی خلافت کمیٹی تحلیل کردی گئی اورمایوسی اس قدر پھیلی کہ لوگ اپنی قیادت سے متنفرہونے لگے اور مہاراشٹراوربنگال میں تحریک کے ہندومسلم کارکنوں نے قیادت کے اس فیصلے کوماننے سے انکارتک کر دیاتھالیکن اب کھیل کوئی اوررنگ اختیارکرنے والاتھا۔
یہ خبرجب قیدخانوں تک پہنچی تووہاں سے بھی شدیدترین ردعمل کااظہارہوا۔”لالہ لاج پت رائے“(1865-1928)جو اپنے وقت کے انقلابی راہنماتھے اورانگریزدشمنی میں اس تحریک کے صف اول میں شمار ہوتے تھے،انہوں نے قیدخانے سے گاندھی جی کوسخت ناراضگی کاخط لکھا کہ محض ایک وقوعے کی بنیادپر اتنابڑافیصلہ کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔اسی طرح ”موتی لعل“(1861-1931)جو بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہرلعل نہروکے والد محترم تھے اور دودفعہ کانگریس کے صدربھی رہے انہوں نے بھی قیدخانے سے گاندھی جی کو خط لکھااوراس فیصلے پر سخت برہمی کااظہارکیا۔اتنی سخت تنقیدکے بعد اپنے فیصلے پرنظرثانی کرنے اوراس سے رجوع کرنے کی بجائے گاندھی جی پانچ روزہ بھوک ہڑتال روزے پر چلے گئے اوریوں ساری مخالفتیں اس لیے دم توڑ گئیں کہ گاندھی جی کی منہنی جان کوخطرات لاحق ہوچکے تھے۔ان کی جان بچانے کے لیے حکیم اجمل خان،ڈاکٹرسیف الدین کچلو،علی برادران اور مولاناابوالکلام جیسے مسلمان راہنماؤں کو بھی گاندھی جی کے فیصلے کوچاروناچارمانناپڑا۔لیکن ہندوقیادت اپنا کھیل کھیل چکی تھی اورتحریک خلافت کے غبارے میں سوئی چبھوکراپنے مقاصد حاصل کرچکی تھی۔اس تصویرکاروشن رخ یہ ہے کہ اب تک جومسلمان قیادت و کارکن ہندومسلم اتحادکے زبردست حمایتی بلکہ وکیل تھے اب ان کے ذہنوں میں بھی دوقومی نظریہ کے دودھ والے دانت اترنے لگے تھے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...