ہندو مسلم دشمنی کی کہانی یا تقسیم کی شعوری کوشش
……………
یہ نظریہ کہ ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کے ساتھ اس لیے ٹھیک رہے کہ مسلمان حکمران تھے تاریخی تناظر میں ایک غلط مفروضہ ہے۔مسلمانوں کے حملوں سے بہت پہلے سے مسلمان تاجر یہاں آباد ہوئے۔ مقامی آبادی کو مسلمان کرتے رہے۔ ہندوؤں کی طرف سے اس کے خلاف کوئی قابلِ ذکر مخالفت نہیں ہوئی۔ مسلمان بے دھڑک تعداد میں بڑھتے گئے۔ مسلمان ہو جانے پر حکومتی دباؤ تو ایک طرف، سماجی دباؤ تک کا کوئی واقعہ نہیں ملتا۔
ہندوؤں سے ویسے تو ہر مذھب کو خوش آمدید کہا، لیکن اسلام دیگر مذاھب سےاس لحاظ سے بالکل مختلف تھا کہ یہ بت پرستی اور شر ک کی ہر صورت کی سخت نفی کرتا تھا۔ اس کے باوجود ہندوؤں نے مسلمانوں کو اپنے ہاں آباد ہونے دیا۔ اور کوئی مسئلہ پیش نہ آیا۔
وسط ایشیا کے حکمران پورے برّ صغیر پر مکمل قبضے قائم رکھنے میں کم ہی کامیاب ہوئے۔ ان میں سے بھی صرف تین یا چار مسلم حکمران اسلام پسند تھے باقی سب سیکولر تھے اور اپنی رعایا سے ایک جیسا اچھا اور زیادہ تر برا سلوک کرتے تھے۔
ان کا مسلم ہونا ہندوؤں میں اسی وجہ سے زیر بحث نہیں آتا تھا کہ مذھب کو وہ مسلم حکمران سیاست میں استعمال نہیں کرتے تھے۔ چُناں چِہ انھیں غیر ملکی فاتحین اور قابضین تو سمجھا جاتا تھا لیکن ان کی مسلم شناخت کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتی تھی۔
اس سے اندازہ لگائیے کہ جنگِ آزادی میں کمزور ترین مغل بادشاہ کو متفقہ لیڈر مان کر جنگ لڑی گئی۔ جنگ کامیاب ہو جاتی تو مغل حکومت بحال ہو جاتی۔
ہندو مسلم تہذیبی طور پر جب تک ایک رہے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ مگر جب مذھب کو سیاسی اکائی بنایا گیا اس بِنا پر انگریز نے جدا گانہ انتخابات کا ڈول ڈالا اس کے بعد بھی بڑی مشکل سے اور مسلم لیگ کی مسلسل کوششوں سے مسلمانوں کی علیحدہ مذھبی شناخت قائم کر کے ہندو سے سیاسی رقابت پیدا کی جا سکی۔ ہندو قومیت کا نظریہ اسی کا رد عمل تھا جسے یہ سب ہو جانے کے باوجود ہندو اکثریت کی حمایت نہ مل سکی اور ہندوستان ایک سیکولر ملک ہی بنا۔
مگر رقابت کے الاؤ کے مسلسل جلتے رہنے سے ہندو قومیت کا جوابی بیانیہ بھی طاقت ور ہوتا چلا گیا ہے جس سے خانہ جنگی یا بد امنی کا اندیشہ مسلسل رہنے لگا۔ بہرحال یہ بیانیہ بعد میں گھڑا گیا کہ ہندو مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔ یہ ازلی دشمن نہیں تھا اسے بنایا گیا ہے۔
پہلی مسجد ہندو راجہ نے کیرالہ میں بنا کر دی، جب مسلم عرب تاجر یہاں آباد ہوئے۔مسلمان پانچ وقت لاؤڈ سپیکر میں آذان دیتے رہے، ہزاروں مساجد سے یہ آواز پورے ہندوستان میں پانچ وقت گونجتی ہے، مگر وہ اس سے بھی تنگ نہیں پڑے، فجر کی آذان سن کر ان کی نیند بھی متاثر ہوتی ہوگی مگر وہ کبھی وہ اسے بند کرانے نہیں چل پڑے۔ ہزاروں مدارس کھلے، صوفیا کے حلقے اور مزار قائم ہوئے،مسلمانوں کی بستیان آباد ہوئیں مگر ہندو مسلم سماجی تعامل قائم رہا ۔ مسلمان ان کے کی مقدس گائے جسے وہ ماتا کہتے ہیں قربان کرتے رہے اور وہ اسے بھی برداشت کرتے رہے۔ مگر جب سیاسی وجوہات جان کا ذکر آگے آتا ہے کی وجہ سے ان کے درمیان دشمنی کا آغاز ہواتو محل نزاع گائے ہی بنی پورا مذھب پھر بھی نہی بنا۔ ادھر مسلمانوں نے گائے کی قربانی کو قومی وقار کا معاملہ بنا لیا اور اپنی جان پر کھیل کر بھی اسے قربان کرتے ہیں۔
ہندو مسلم میں ایک دوسرے سے نفرت اور حقارت کے عناصر میں اسی طرح موجود رہے جیسے ہر زندہ سماج میں ہوتے ہیں جیسے ہمارے ہاں مسیحیوں اور دیگر اقلیتی مذاھب اور برادریوں کے بارے میں حقارت آمیز احساسات لوگوں کے کی ایک بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی فسادات تک لے کرنہیں جاتے اور نہ ایسے احساسات کی بنا پر کوئی علیحدگی کی تحریکیں اٹھ جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ رواداری اور محبت کا تعامل ہمیشہ زیادہ عام رہتا ہے اور نفرت اور حقارت آمیز رویوں کو اجتماعی انسانی ضمیر رد کرتا ہے۔
برّ صغیر کی تہذیب سے کاٹنے کا عمل مسلم علماء سے شروع ہوا۔ ہندوؤں کے مذھب اور مذھبی رسوم سے اجتناب کرانے کی احتیاط میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے انھوں نے مسلمانوں کے لباس ٹوپی وغیرہ میں امتیازات قائم کیے۔ ہندوؤں ہی کے کچھ لباسوں کو مسلم لباس باور کرا دیا۔ خصوصاً راجپوتوں کا لباس جو بڑی تعداد میں مسلمان ہوئے تھے۔ مسلمان عام کے نام بھی عربی نام رکھنے رکھنے لگے۔ یوں ثفافت میں تفریق کی بنیاد پڑی۔ اس بنیاد کو اردو اور ہندی کے نام سے ایک ہی زبان کو رسم الخط کی بنا پر دو زبانیں باور کرانے کی بھونڈی مگر کامیاب کوشش سے گہرا کیا گیا۔ پھر قومی ہیرو بدلے گے۔ وہی سیکولر مسلم حملہ آور غزنوی، غوری، تغلق، خلجی، لودھی وغیرہ مسلمانوں کے ہیرو بنے اور ان سےلڑنے والے مقامی راجے محض مذھب کی بنا پردشمن قرار پائے۔ مسلمانوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ یہ لوگ تو خود مسلمانوں سے بھی لڑ کر ہندوستان پر قبضہ کیا کرتےتھے۔
اگلی کسر انگریز نے جدا گانہ انتخابات متعارف کروا کر کر دی۔ مسلم لیگ نے ان خطوط پر ہندو مسلم نفرت کو پروان چڑھایا اور مذھب کے نام پر انسانوں کو تقسیم کرا دیا۔
ان تمام مصنوعی تقسیموں کے با وجود اس زمین کے باشندے علیحدہ ہو سکے اور نہ کبھی علیحدہ ہو پائیں گے۔ ان کے درمیان کوئی سدِ سکندری تعمیر کرنا ممکن نہیں۔ انسانوں کو امتیازات اور اختلافات کے باوجود ساتھ رہنا سکھانا ہی اصل ہمدردی ہے۔ ہمارے خطے کے امن و بقا کے لیے ضروری ہے کہ درست تاریخ پڑھائی جائے اور اس کی روشنی میں مستقبل کے خطوط وضع کیے جائیں ورنہ خیالی دشمنی میں ہم دو نسلیں تو گنوا چکے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔