ہندو مت کثرت پرستی سے وحدت الوجود تک
ہندمت کسی ایک مذہب کا نام نہیں ہے ، بلکہ اس میں مختلف و متضاد عقائد و رسوم ، رجحانات ، تصورات اور توہمات کا مجموعہ کا نام ہے ۔ یہ کسی ایک شخص کا قائم کردہ یا لایا ہوا نہیں ہے ، بلکہ مختلف جماعتوں کے مختلف نظریات کا ایک ایسا مرکب ہے ، جو صدیوں میں جاکر تیار ہوا ہے ۔ اس کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ الحاد سے لے کر عقیدہ وحدت اوجود تک بلا قباحت اس میں ضم کر لئے گئے ہیں ۔ دہریت ، بت پرستی ، شجر پرستی ، حیوان پرستی اور خدا پرستی سب اس میں شامل ہیں ۔
عہد وسطی میں ہندو مت میں مختلف تحریکوں نے جنم لیا ، جن کا رجحان توحید یا ایک خالق کی عبادت پر تھا اور ان کے بارے میں گمان ہے کہ ان پر مسلمانوں کا اثر ہے ۔ حقیقت اس کے برعکس ہے جب سے ویدک مذہب ہندو مت میں تبدیل ہوا برصغیر میں بہت سے مذہبوں اور فرقوں میں جنم لیا ، ان تمام پنتھ (فرقوں) کا مقصد مکتی حاصل کر اور آواگون سے نجات حاصل کرنا ۔ آواگون یعنی بار بار جنم لینے سے چھٹکارہ اور مکتی یعنی نجات حاصل کرنا ۔ اس عقیدے کے مطابق ہمیں جس ہستی نے پیدا کیا ہے ، ہم اس کی ذات کا ہی حصہ ہیں اور اسی کی ذات میں جذب ہونا مکتی ہے ۔ یہی نظریہ وحدت الوجود ہے جس کو مسلمان صوفیا نے اختیار کیا ہے اور اس نظریہ کے زیر اثر اس خیال نے جنم لیا ہے کہ توحید یہ نہیں ہے خدا ایک ہے بلکہ کائنات کی ہر شے اس کی ذات کا حصہ ہے اور دوبارہ اسی کی ہستی میں جذب ہونا ہماری معراج ہے ۔
اس طرح حلول کا نظریہ جس میں اوتار وغیرہ کا جنم لینا شامل ہیں ۔ وحدت الوجود کے پرچار سے پہلے ہندوؤں میں مختلف دیوتاؤں کو پوجنے والے والے ایک دوسرے کے سخت خلاف تھے مثلاً وشنوی اور شیوی غیرہ اور ہر ایک فرقہ نے اپنے مذہب کی تائید میں سکیڑوں پران تصنیف کئے اور اس میں اپنے خالق کی بے شمار پران تصنیف کئے گئے ۔ ان میں اٹھارہ پران وشنو پران ، شیو پران گنش پران ، بھاگوت پران ، اسکندر پران ، مارکنڈے پران ، بہوشٹ پران ، برہم پتی ورنگ پران ، کورم پران ، پدم پران ، برہم پران ، بایو پران ، گڑر پران ، یتسہ پران ، اگن پران ، بارہ پران ، نارہ پران اور مچھ پران معتبر سمجھے گئے اور ان پر ہندو دہرم کے عقائد کی بنیاد رکھی گئی ۔ یہ پران اگرچہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن ہندو کل پرانوں کے دیوتاؤں کو مانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے ہر دیوتا میں شکتی ہے جس کو ہم نہیں جانتے ۔
وحدت الود کے نظریہ نے تمام دیوتا ایک ہی ہستی کا مختلف روپ کی شکل میں عقیدے نے جنم لیا اور تری مورتی یعنی شیو ، وشنو اور برہما کی ایک ہستی کا عقیدہ سامنے آیا ۔ یہاں تک اس عقیدے نے اتنی وسعت اختیار کی کہ دور جدید میں قدیم قوموں کے دیوتاؤں کو بھی ان دیوتاؤں کا روپ بتایا گیا ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندو مت توحید کی طرف بڑھ رہا اگرچہ ان کی توحید ناقص ہے ۔ بہرحال ہندو مت میں ہندو کہلانے والے کسی ایک خالق پر متفق نہیں ہیں بلکہ ہر پنتھ (فرقہ) نذدیک اس کائنات اور ان کا خالق الگ ہے ۔ جن کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔
ہندو مت میں کچھ پنتھ یہ جن کی وہ پوجا کرتے ہیں اور اسے خالق مانتے ہیں ۔ مثلاً
پنتھ/فرقہ۔۔۔۔معبود یا دیوی دیوتا
کایستھ۔۔۔۔۔چتر گپت
آریہ۔۔۔۔۔۔اوم
گوشائیں۔۔۔جگناتھ
پنج پیریہ۔۔۔۔پنج پیر
چیرو۔۔۔۔۔۔۔ستیلا
ڈھانگر اور برنا۔۔۔۔۔بھوانی
گڈریہ۔۔۔۔۔کالی
کہار۔۔۔۔۔۔کالو بابا
بنجارے۔۔۔۔۔بنجاری دیوی
لوہار اور بڑھئی۔۔۔۔۔بشن اور کرما
آگرہ کے لودھ۔۔۔۔۔سید محسن
سنیاسی۔۔۔۔نراین
شیوی۔۔۔۔۔شیو
وشنوی۔۔۔۔۔وشنو
شاکتیو۔۔۔۔۔۔دیبی
گنییشی۔۔۔۔۔۔ گنیش
جینی۔۔۔۔۔۔۔۔چوبیس جینا
داود پنتھی۔۔۔۔۔۔ست رام
ست نامی۔۔۔۔۔ست نام
برمہی۔۔۔۔۔۔پہیا
بھیکا پنتھی۔۔۔۔۔۔آتما
مالی۔۔۔۔۔۔۔۔بھونی
بھنگی۔۔۔۔۔۔۔لال بیگی
نانک پنتھی۔۔۔۔۔واہ گرو اور ست سری اکال
بندھیلا۔۔ ٹھاکر ، بالاگوپالا اور رادھا کشن
بھربھونجہ اور چندا کرتال۔۔۔۔۔مہابیر
بھاٹ۔۔۔۔۔ گوری اور ساروا
بھیل۔۔۔۔۔ماتاجی اگری
ودسادھ۔۔۔۔۔راہو ، کیتو
ہبوڑا اور دیبی۔۔۔۔۔ظاہر پیر
ریداسی رام ۔۔۔۔۔جانکی
ردھاسوامی ۔۔۔۔۔۔ست چتانند ، برہم اور پرماتہا
بھوین ہار ، گوریا۔۔۔۔ دھرتی ماتا ، باندی مائی ، کالی اور پہاڑی دیوی
کبیر پنتھی ، سیتاپرش۔۔۔۔۔۔۔ نرانکا اور ہری رام گوبند
چھوٹے سنیاسی۔۔۔۔۔ گنیش ، رددر ، بھگوتی ، سورج اور نراین
کلوار۔۔۔۔۔درگا
کالکا۔۔۔۔۔۔۔پنجوپیر ، ہردیا ، غازی میاں
ہٹیلے۔۔۔۔۔۔۔برم دیوتا ، بڑا پورکھ
بہر اگواں۔۔۔۔دیوا بہوانی پھول متی ہنر د بیر ، کالکا ، کاشی داس بابا
جاٹ۔۔۔۔۔ مہادیو ، دیبی ، گوگا ، لکھ دت ، پیارے جی ، رن دیو ، داؤجی ، جمندا دیوی ، ظاہر دیوان ، زین الدین ، شیخ سدو
چمار۔۔۔۔۔۔ بھوانی ، جگیشونہ ، کالادت ، گجادت ، طاہر پیر ، ناگر سین ، ٹیڑھا دیو ،
وندھیا۔۔۔۔۔۔ بنیسی دیبی ، برنا پیر ، برتیا ، پرکھالوک
دریاپنتھی ۔۔۔۔۔اوڈرو لال
یہ مختلف فرقہ ہیں جو انہیں کو معبود حقیقی سمجھ کر پوجتے ہیں اور اپنے مرادوں کو بر لانے کے لیے انہیں سے التجا کرتے ہیں ۔ موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ لوگ بھگوان اور پرمیشور کو یاد کرتے ہیں ۔ جن کا پتہ نہ ویدوں میں ہے نہ پرانوں میں ۔ بعض ہندوؤں کا کہنا ہے کہ پیدا کرنے والا مرد ہے بعض کہتے ہیں پیدا کرنے والی عورت ہے ۔ عموماً عورتیں پیدا کرنے والی کو اپنی طرح شوہر والی عورت سمجھتی ہیں ، جس گورا پاربتی ، دیوی سیتا ، درگا ، کالی ، رادھا ، رکمنی ، لچھمی ، جانکی اور بھونی وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتی ہیں ۔
موجودہ دور میں وحدت الوجو کے زیر اثر تمام دیوتاؤں اور دیویوں کو ایک ہستی کے مختلف روپ خیال کیا جانے لگا ہے ہے ۔ اس طرح یہ توحید کی طرف بڑھ رہے ہیں اگرچہ ان کی توحید ناقص ہے ۔
کچھ ہندو عبادت خانہ نہیں بناتے ہیں اور جو بناتے ہیں ان کے ہر پنتھ کے لوگوں کا عبادت خانہ الگ نمونے پر ہوتا ہے اور مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔ مثلاً شیوی اپنے عبادت خانہ کو شوالہ ، شاکتی ، دیوالہ ۔ کرشن کے پوجنے والے ٹھاکر دوارہ ۔ نانک پنتھی گرد وارہ ، کبیر پنتھی کبیرچورا ۔ سماجی سماج کا مندر وغیرہ وغیرہ کہتے ہیں ۔ شوالہ میں شیو کی ، دیوالہ میں دیبی کی ، ٹھاکر دوارہ میں بالاگوپالہ رادھا کرشن کی ، جینی کے مندر میں مہابیر یا پرسوا ناتھ اور چوبیس جینا کی مورتیں ، گردوارہ میں گرنتھ کی کتاب رکھی جاتی ہے ۔ آریہ سماج کے مندر میں دیانند سرستی کا فوٹو آویزاں کیا جاتا ہے ۔ وشنوی مندر نہیں بناتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ مورتی پوجا کے خلاف ہیں ۔ بعض ہندو آبادی کے باہر کسی درخت کے نیچے چبوترہ بناتے ہیں اور اس پر کوئی مورتی یا کسی پتھر آویزاں کرکے اس کی پوجا کرتے ۔ بعض کسی درخت کی ، بعض کسی چٹان کی پوجا کرتے ہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے انیسویں صدی میں ایسے بہت سے فرقہ وجود میں آگئے تو تھے جو بعض انگریزوں جن میں جنرل نکلسن اور ملکہ وکٹوریہ قابل ذکر ہیں پوجا کرتے تھے ۔
اس طرح ہر پنتھ کا مقدس مقام الگ ہے ۔ کوئی ہری ہر چھتر ، کوئی گڑھ کھٹیشر ، کوئی ککوڑا ، کوئی پراگ ، کوئی ہرودار ، کوئی کاشی بنارس ، کوئی پشکر ، کوئی اجودھیا ، کوئی جگناتھ ، کوئی بیجاناتھ ، کوئی بدری ناتھ ، کوئی پارسناتھ ، کوئی مہابلیشر ، کوئی سخی سرور ، کوئی کہیں تیرتھ جاتر کی غرض سے جاتا ہے اور انہی مقامات کو اپنا معبد سمجھتا ہے ۔ بعض ہندوؤں کا کہنا ہے کہ پیدا کرنے والا مرد ہے بعض کہتے ہیں پیدا کرنے والی عورت ہے ۔ عموماً عورتیں پیدا کرنے والی کو اپنی طرح شوہر والی عورت سمجھتی ہیں ، جس گورا پاربتی ، دیوی سیتا ، درگا ، کالی ، رادھا ، رکمنی ، لچھمی ، جانکی اور بھونی وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتی ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔