(Last Updated On: )
ہندو دیو مالا کے مطابق دنیا کہ تین ادوار گزر چکے ہیں اور اب ہم آخری دور یعنی کلیوگ سے گزر رہے ہیں۔ اس دور میں برائیاں اپنے عروج پر ہیں، اولادیں اپنے ماں باپ کی نافرمان ہوگئیں ہیں اور لوگ مذہب سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ یہ تو ہندو دیو مالا کی بات ہے اور ہندو دیومالا کی کتابوں میں جو قصے ملتے ہیں ان میں بھی یہ سب برائیاں پچھلے دوروں میں بھی ملتی ہیں۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ہوں لیکن ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے لوگوں بلکہ اکثریت کا خیال ہے کہ پہلے کا دور بہت اچھا تھا اور موجودہ دور بہت برا ہے۔ اس مضمون پڑھنے والے بہت سے لوگوں کا بھی یہی خیال ہے کہ پہلے کا دور بہت اچھا تھا۔ حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ گزشتہ ادوار سے بہتر ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آنے والا دور آج کے دور سے بھی بہتر ہوگا۔
میری بیفم کا چند سال پہلے کینسر کے عارضہ میں انتقال ہوگیا۔ میں ڈاکٹر کے پاس گیا اور بتایا کہ بیگم کا انتقال ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے تعزیت کرتے ہوئے کہا اللہ کو منظور یہی تھا، قسمت میں یہی لکھا تھا۔
قسمت کے نام سے میرا دماغ گھوم گیا اور میں نے کہا ڈاکٹر صاحب عرصہ دراز میں میری بیگم آپ کے ہاسپٹل میں آرہی تھی اور بھی بہت سے ڈاکٹروں کو دیکھایا مگر کسی ڈاکٹر نے MR یا لکھ کر نہیں دیا اور اگر لکھ کر دیا ہوتا تو شاید آج میری بیگم زندی ہوتی۔ اگر ہمیں قسمت پر ہی چلنا ہے تو یہ سب جدو جہد بے کار ہے۔ پھر ہم یہ پڑھ لکھ کر یہ ملازمتیں کیوں کرتے ہیں۔ آپ نے ڈاکٹر بنے کے لیے اتنی محنت کیوں کی۔ آپ مجھ سے بہتر جانتی ہیں جب پاکستان بنا تھا تو اس وقت اوسط عمر ستائیس سال تھی اور اب چھپن سال ہے۔ پہلے ہیضہ، ملیریا اور اس طرح کی بیماریوں سے بستیاں خالی ہوجاتی تھیں۔ لوگ گردے کے درد میں مرجاتے تھے، ٹائیفڈ کا علاج برانڈی کے سوا کچھ نہیں تھا، ٹی بی کا علاج یہ تھا کہ اسے کسی پر فضا مقام پر لے جاؤ۔ اگر اس کی قسمت اچھی ہوگی تو بچ جائے گا۔ دس بچے جو پیدا ہوتے تھے اس میں سے چھ بچے بچبن میں اور لڑکپن سے تین نوجوانی تک اور صرف ایک بچہ بڑھاپے تک زندہ رہتا تھا۔ چالیس سال کا آدمی اڈھیر عمر کا کہلاتا تھا اور پچاس سال میں بڈھا اور ساٹھ سال میں بڈھا کھوسٹ ہوجاتا تھا۔ جس کے چہرے پر لاتعداد جھریاں اور کمر جھکی ہوتی تھی۔ پہلی ڈیلوڑی میں دس میں سے چار عورتیں مر جاتی تھیں۔ اکثر لوگوں سے سنا کرتے تھے کہ ان کے دس بچے پیدا ہوئے اور سب مرگئے پھر اور اب جو بچہ پیدا ہوا تو اس کا نام اللہ رکھا رکھا کرتے۔ بچوں کے گلے مختلف تعویزوں سے بھرے ہوتے تھے۔ کیا وجہ ہے پہلے قسمت جس پر تکیہ کرتے رہے تھے اتنی بری تھی اور اب قسمت میں تبدیلی کیسے ہوگئی ہے اور اب ہم صحت اور تندووستی کے لیے قسمت پر چھوڑنے کے لیے ڈاکٹروں سے رجوع کیوں کرتے ہیں۔ اس آپ قسمت کی بات نہیں کریں تو بہتر ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ خاموش ہوگیں۔
لیکن حقیقت میں انسانیت بہت بڑے دور سے گزر کر اس مقام پر پہنچی ہے اور ہم گزشتہ دور کو سوانا دور کہتے ہیں۔ آج بھی بڈھے اور ان کی تائید بہت سے لوگ بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے لوگ اصلی گھی کھاتے تھے اب ہم ڈالڈا کھاتے ہیں۔ مگر انہیں یہ نہیں معلوم ہے کہ جس دور کی وہ تعریفیں کرتے ہیں ہیں نہایت تکلیف و ابتلا کا دور تھا جس کا اب ہم تصور کرنے سے روح کانپ جاتی ہے۔ پچاسوں لوگوں میں سے چند ایک ہی کھانے میں دیسی گھی ملتا تھا۔ ورنہ سوکھی روٹی اور اکثر غربا باجرے، چاول وغیرہ کی روٹی تھی کھاتے تھے۔ کیوں کہ گہیوں اتنا مہنگا ہوتا تھا کہ وہ ان کی رسائی سے باہر ہوتا تھا۔ بریانی جو ہم اب ہفتے میں کئی دفعہ کھاتے ہیں وہ پہلے صرف کسی کسی شادی پر میسر ہوتی تھی۔ مرغی جس کی اب کوئی وقعت نہیں رہی ہے پہلے سالوں میں کھائی جاتی تھی۔ اب انڈا جو ہر شخص روز کھاتا ہے وہ بھی لوگوں کی رسائی سے دور تھا اور اکثر لوگوں کا خیال تھا یہ گرم ہوتا ہے اور روز کھانا نقصان دہ ہے۔ عام گھروں میں گوشت جو اب روزانہ کھایا جاتا ہے بہت کم پکتا تھا۔ ہاں عید بقرعید پر گھر میں پلاؤ پک جاتا تھا۔ اکثر لوگ صبح ناشتہ میں رات کی روٹی اور رات کا بچا ہوا سالن مل گیا ٹھیک ہے ورجہ اچار یا مرچ یا پیاز سے کھالیتے تھے۔ اس وقت چولھے گیس کے بجائے لکڑیوں، اپلوں اور گھر والے کچھ بہتر ہیں کوئلہ پر پکایا جاتا تھا۔
اخلاقیات کا یہ عالم تھا لڑکیون کی نہایت کم عمری یعنی دس بارہ سال کی عمر میں شادی پچاس سال کی عمر کے شخص سے کردی جاتی تھی اور ایسا بھی ہوتا تھا داماد سسر سے بھی عمر میں بڑا ہوتا تھا۔ شادی کے لیے لڑکوں سے رائے نہیں جاتی تھی تو لڑکیوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے کسی لڑکی کی پسند کی شادی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ بلکہ اگر اس قسم کی سن گن ہوجاتی تھی تو انہیں ماڑ دالا جاتا تھا۔ کوئی بیوی اپنے شوہر سے پوچھ نہیں سکتی تھی کہ وہ باہر غیر عورتوں سے تعلقات کیوں بڑھا رہا ہے۔ زنان خانہ اور مرادانہ اچھے گھرانوں میں الگ ہوا کرتا تھا۔ جہاں گھر کے مردوں کا بے وجہ جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مرد اپنے بچوں کو گود میں اٹھا یا پیار نہیں کر سکتا تھا یا اپنی بیوی کے ساتھ کہیں جا نہیں سکتا تھا۔ بچے اپنے باپ سے بات کسی کو توست کرتے تھے۔ طاقت ور اشخاص صرف اپنی طاقت کے اظہار کے لیے معمولی باتوں پر افراد کو مع گھر والوں کے مارپیٹ اور الٹا لٹکا دیا کرتے تھے۔ پیشہ ور تو کسی صاحب حثیت کے آگے گڑگڑا کر بات کیا کرتے تھے اور ان کی بے وجہ مارپیٹ بھی کی جاتی تھی اور ذرا سے بھی آواز بلند کرنے پر انہیں قتل یا سارے خاندان کو برہنہ کرکے سر بازار گشت کرایا جاتا تھا۔ یہی کام حکومتیں کرتی تھی اور ذرا سی بات پر محض شبے اور طاقت کے اظہار کے لیے سیکڑوں لوگووں کو لٹکا دیا جاتا تھی۔ لوگوں میں نشے کی عادت عام تھی۔ لوگوں میں شراب، بھنگ، افیون عام استعمال کرتے تھے۔ یعنی ایسی بہت سے رواج اور دستور تھے جس کا آج کے دور میں سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کا دور بہتر ہے اور جو کل گزرا ہے اسے بہتر کیوں کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ہے جو دور گزر گیا ہے ہمیں اس دور کی صرف اچھائیاں یاد ہیں۔ کیوں کے برے اور تکلیف دہ دن یاد نہیں رکھتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں حال اور آنے والا دور مقابلہ اور آزمائش کا ہے اور ہمیں بہت سے مسلوں کا سامنا رہتا ہے اور بہت سے خدشات رہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ دور برا لگتا ہے۔ ورنہ انسانیت بہت برے دور سے گزر کر اس مقام پر پہنچی ہے اس تصور بھی عام لوگ نہیں کرسکتے ہیں۔