تحریر : سید ماجدشاہ
مترجم : آکاش مغل
1 *وہم*
باوجود کوشش کے آگ نہیں لگ رہی تھی ۔ اس نے دیا سلائی سے تیلی رگڑ کر بھی دیکھ لیا ۔ تیلی اور دیا سلائی کا مسالا ، دونوں بے اثر ہوگئے تھے ۔ وہ حیرت زدہ تھا کہ آج کوئی بھی شے آگ نہیں پکڑ رہی تھی ۔ اس کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہوا کہ دنیا سے آکسیجن ہی ختم ہو گئی ہے ۔ اس نے اپنی انگلیاں ناک کے آگے رکھ کر محسوس کیا . سانس کی آمدورفت تو جاری تھی ! گویا آکسیجن تو موجود ہے ۔ آکسیجن کا خیال آتے اس کی انگلیوں میں آگ جل اٹھی ۔ وہ شعلے اٹھے کہ ہاتھ جھلس کر چھالوں سے بھر گیا ۔ اس کی بیوی نے جلدی جلدی ٹوتھ پیسٹ ہاتھوں پر ملا وہ ڈاکٹر کے پاس گیا۔
سائیکو تھراپی کے بعد یہ تو معلوم ہوگیا کہ آگ کا لگنا محض اس کا وہم تھا ۔آگ لگی ہی نہیں تھی ۔اس کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی تو بیوی کہاں سے آتی ؟ جو اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتی ۔۔۔۔ وہ اپنی حماقت پر ہنستا رہا ۔ اس نے جو دیکھا سب فریب تھا ۔ وہ بھلا چنگا ہوگیا مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ اسے اپنے ہاتھوں سے ٹوتھ پیسٹ کی ٹھنڈی ٹھنڈی مہک اب بھی آتی ہے !
2 *چلندری*
اس نے بڑی لگاوٹ سے کہا ،
" پہیلی بوجھو ،
ہر ہر دی ڈالی،
رو رو دا پتر،
سونے دی قلفی،
چاندی دا چھتر۔''
میں نے بہت سوچا ، خاک پلے نہ پڑا ۔ پھر اس نے فاتحانہ اتراہٹ سے ، مجھے بڑے ناز کے ساتھ سمجھایا،
''ہر ہر دی ڈالی کا مطلب ہے سر سبز و شاداب ڈالی ، رو رو دا پتر، یعنی پتے کا رنگ آنسو جیسا ہے ۔سونے کی قلفی، پھول کی کٹوری زرد رنگ کی ۔چاندی کا سائبان ، گویا پتیوں سے بنا ہوا سائبان اجلا سفید ہے۔'' پھر اس نے پشت کے پیچھے چھپایا ہوا چلندری کا پھول (گل نرگس ) نکال کر دکھایا اور اسے ہوا میں اچھالتے ہوئے کھلکھلا کر ہنستی رہی ۔
آج اس کی قبر پر نرگس کاپھول دیکھ کر میں سوچتا ہوں ، وہ تو ایک بار مر کر فتح یاب ہو گئی ، مجھ سے آگے نکل گئی ، لیکن اس کے بعد اب میری زندگی گویا نزع کے عالم میں گزار رہی ہے ۔۔۔۔ میں کتنا پیچھے رہ گیا ہوں ۔!!!
****
چلندری : (گل ِ نرگس جو قبروں پر بھی لگایا جاتاہے)
****