:::" ہندی کوی اور فلمی گیت نگار نیرج دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے"۔ :::
نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹیوٹ {ایمس} کے ٹراما سنٹر میں 19 جولائی 2018 جعمرات کے دن (یو این آئي) ہندی کے مشہور نغمہ نگار اور جانے مانے پدم بھوشن یافتہ شاعر گوپال داس 'نیرج' کا انتقال ہو گیا۔ان کو " راجکمار" بھی کہا جاتا تھا۔ وہ 93 سال کے تھے۔ بڑھاپے کی وجہ سے کافی عرصے سے بیمار چل رہے تھے۔ مسٹر نیرج کی طبیعت بگڑنے پر آگرہ کے لوٹس اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔لیکن طبیعت مسلسل خراب ہونے پر انہیں آگرہ سے لا کر کل ایمس میں داخل کرایا گیا تھا۔ جہاں انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا اور ان کے پھیپھڑوں میں پیپ نکالنے کے لئے نلی ڈالی گئی تھی۔ مسٹر نیرج کے خاندانی ذرائع نے بتایا کہ آج شام سات بج کر 15 منٹ پر انہوں نے ایمس میں آخری سانس لی۔ ان کے خاندان میں تین بیٹے ہیں اور ان کی بیوی کی پہلے ہی وفات ہوچکی ہے
نیرج کا پورا نام " گوپال داس سکسینہ" نیرج ھے۔ وہ اتر پردیش کے چھوٹے سے گاؤں " اکدل" ( اٹاوا) میں 4 ، جنوری 1924 میں پیدا ھوئے ۔ شروع میں انھوں نے اٹاوا کی کی کچیری میں بحیثیت ٹائپسٹ کے اپنی عملی اندگی کا آغاز کیا۔ بھر دہلی کے محکمہ صفائی نیں ٹائپسٹ کی ملازمت کی اور پھر یہاں سے یہ کام چھوڈ کر کان پور کے اے وہ کالج میں انھیں کلرک کی ملازمت مل گئی۔ 1953 میں نیرج نے ہندی ادب میں ایم۔ اے کیا۔ وہ ۔بنیادی طور پر ہندی کے شاعر ہیں ایک زمانے میں ہندی کوی سمیلن میں ان کی دھوم ہوا کرتی تھی۔ ان کی شاعری عام فہم اور اسے عام آدمی بھی آسانی سے سمجھ لیتا تھا۔ 2007 میں انھیں پدما بھوش کا ایوارڈ دیا گیا۔ وہ علی گڑھ میں ہندی ادب کے پروفیسر رہے۔ 2012 میں نیرج منگالاٹن (MANGALAYATAN) یونیورسٹی، علی گڑھ، یوپی کے چانسلر بھی ہے۔ نیرج نے ایک ٹیلی ویزن کے ایک مصاحبے میں کہا تھا کہ " وہ بدقسمت شاعر ہیں کہ انھوں نے فلموں میں گیت لکھنا بند کردیے"۔اور بھر انھوں نے اپنی شاعری کی اشاعت پر زیادہ توجہ دی۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ایس ڈی برمن اور شنکر جے کشن جیسے موسیقاروں کے مرنے کے بعد ان کی فلمی گیتوں کے لکھنے میں دلچسپی کم ہوگئی۔ کیونکہ ان دونوں موسیقاروں کی موسیقی کی بدولت ہی نیرج کے گیت ہندوستان اور پاکستان کے کونے کونے میں گونج اٹھے۔ اوروہ مایوسی کے ساتھ فلمی دینا سے کنارہ کش ھوگئے۔ نیرج ہندی کے شاعر ہری ونش راے بچن کے دوست تھے اور ان کی شاعری سے وہ متاثر بھی رہے۔ نیرج کو1941 میں ہری ونش راے بچن نے بحیثت ایک " کوی" (شاعر) کے ادبی دینا میں متعارف کروایا۔ وہ 1960 میں فلمی دینا میں بحیثت گیت نگار داخل ہوئے۔ انھیں ہمیشہ اپنی شاعری کو چھپوانے کا زیادہ شوق رہا۔ ان کی شاعری انگریزی میں بھی ترجمہ ھوچکی ھے۔ نیرج کے گیتوں میں رومانی فضا کا تناسب زیادہ ھے۔ اگر ان کی شاعری کو توجہ اور گہرائی سے پڑھا اور سنا جائے تو یہ معلوم ھوتا ھےکہ ان کی شاعری معاشرہ شکن، مذھبی علحیدگی کے خلاف ایک رومانی بغاوت ہے۔ نیرج کی شاعری اور فلمی گیتوں نے ہندی زبان کو نئی سادگی اور آہنگ عطا کیا۔ ان کا خیال ہے کہ " ہر آدمی شاعر ہے جب وہ عشق کرتا ہے "۔ وہ خالص ہندی میں گیت لکھا کرتے تھے۔ نیرج اپنی ہندی شاعری اور گیتوں میں اردو کی آمیزش کے سخت مخالف تھے ۔ حالانکہ وہ اپنی شاعری اور گیتوں میں اردو کے الفاظ خوب استعمال کرتے تھے۔۔۔ جیسے " کاروان، غبار، زندگی، اشک، عمر، شباب، گل، کمال خمار، زلف، مزار ، مقام، گلزار، اقرار، الفت، جہاں ، آشیاں اور دل وغیرہ جیسے الفاظ کو اپنی شاعری اور گیتوں میں شامل کئے۔ وہ ساحر لدھیانوی کی اردو شاعری کو پسند کرتے تھے اور اس سے متاثر بھی تھے۔ ان کے چند مشہور فلمی گانے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں:
* لکھے جو خط تجھے یو تیری یاد میں ( کنیا دان)
* اے بھائی زرا دیکھ کے چلو ( میرا نام جوکر)
* دھیرے سے جانا کھٹین میں (چھپا رستم)
* جیوں کی بگیا کھیلے گی( تیرے میرے سپنے)
* میں نے قسم لی ( تیرے میرے سپنے)
* میگھا چھائے آدھی رات ( شرمیلی)
* او، میری شرمیلی، شرمیلی آؤ نا ( شرمیلی)
* پھولوں کے رنگ سے، دل کے قلم سے ( پریم پجاری)
* رنگیلا رے، میرے من میں ( پریم پجاری)
* کاروان گزر گیا غبار دیکھتے رہے ( نئی عمر کی نئی فصل)
* آج مدھوش ہوا جائے ری میرا من ( شرمیلی)
* کھلتے ہیں گل یہاں گل سے بچھٹرنے کو ( شرمیلی)
* ایک مسافر ہوں میں ایک مسافر ہے تو ( گناہ)
*گیت گاتا ھوں میں ( لال پتھر)
تو سے نیناں لاگے رے، لاگے رے (پتنگا)
ان کے ہندی شعری مجموعوں میں ۔۔"پران گیت، ڈرا دیا ہے، سنگرش، بادل برس گیا، اسوادی، نیرج کی پنی، نیرج گیتی کاہن، دو گیت، ندی کنارے، مکتی، گیت گیت، نیرج کی رتنا اولی، انتروانی، بادلوں سے سلام لیتا ہوں، گیت جو گایا نہیں ۔۔۔ بہت معروف ہیں ۔
گوپال داس نیرج نے ہندی نظموں اور نغموں کے علاوہ بے شمار غزلیں بھی لکھیں۔ ان کی یہ غزل دیکھیں۔
ہم تری چاہ میں اے یار وہاں تک پہنچے
ہوش یہ بھی نہ جہاں ہیں کہ کہاں تک پہنچے
اتنا معلوم ہے خاموش ہے ساری محفل
پر نہ معلوم یہ خاموشی کہاں تک پہنچے
وہ نہ گیانی نہ وہ دھیانی نہ برہمن نہ وہ شیخ
وہ کوئی اور تھے جو تیرے مکاں تک پہنچے
ایک اس آس پہ اب تک ہے مری بند زباں
کل کو شاید مری آواز وہاں تک پہنچے
چاند کو چھو کے چلے آئے ہیں وگیان کے پنکھ
دیکھنا یہ ہے کہ انسان کہاں تک پہنچے
{گوپال داس نیرج}
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوپال داس نیرج کی ایک نظم کے کچھ اشعار ملاخطہ کریں :
ہاتھ تھے ملے کہ زلف چاند کی سنوار دوں‘
ہونٹ تھے کُھلے کہ ہر بہار کو پکار دوں‘
درد تھا دیا گیا کہ ہر دُکھی کو پیار دوں‘
اور سانس یوں کہ سوَرگ بھومی پر اُتار دوں‘
ہو سکا نہ کچھ مگر‘ شام بن گئی سحر‘
وہ اُٹھی لہر‘ کہ ڈھے گئے قلعے بکھر بکھر‘
اور ہم ڈرے ڈرے‘ نِیر نیَن میں بھرے‘
اوڑھ کر کفن پڑے‘ مزار دیکھتے رہے !
کارواں گزر گیا‘ غبار دیکھتے رہے ۔
*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔