صوبہ اترپردیش گزشتہ کئی صدیوں سے اردو زبان و ادب کی آبیاری کرتا چلا آ رہا ہے ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ یہ ریاست تقریباً 75 اضلاع پر مشتمل ہے جسے صوبائی حکومت نے اپنے انتظامی امور کی انجام دہی کی آسانی کے لیے چار زونوں( Zones ) میں منقسم کیا ہوا ہے ، یعنی مشرقی اترپردیش، مغربی اترپردیش، شمالی اترپردیش اور جنوبی اترپردیش مگر اس مضمون میں ہم صرف اور صرف مشرقی اترپردیش کے ایک مردم خیز ضلع ، ضلع گورکھپور کے حوالے سے بات کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ضلع گورکھپور اپنے قیام کے زمانے ہی سے صوفی سنتوں کی آماج گاہ بنا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو اس ضلعے کا نام ناتھ پنتھ کے مشہور و معروف سنت گورکھ ناتھ کے نام پر ہمیشہ ہمیش کے لیے منسوب کر دیا گیا۔ تاریخی کتب کے مطالعہ سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جہاں اس زمین کو رشی منیوں اور صوفی سنتوں نے اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے میدان عمل بنایا اور اگر سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو چندر گپت جیسے سیاست داں نے بھی اس کو اپنے سیاسی ہدف کی تکمیل کے لیے استعمال کیا۔ مزید یہ کہ اس سرزمین کے حوالے سے دو بڑے بزرگوں کے نام نمایاں طور پر لیے جاتے ہیں ایک مہاویر سوامی کا جن کا تعلق جین مذہب کے چوبیسویں تیرتھنکر کے روپ میں لیا جاتا ہے۔ دوسرے مسلم طبقے کے سے تعلق رکھنے والے سید روشن علی شاہ ہیں جو اپنے زمانے میں ایک پایہ کے بزرگ ہو کر گزرے ہیں۔ اِن کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ ان شخصیت کی مقبولیت نہ صرف عوام تک تھی بلکہ راجا اور نوابوں کے محلات تک بھی جا بجا دیکھنے کو ملتی رہی تھی۔ سلام سندیلوی اپنی کتاب بعنوان تاریخ ادبیات گورکھپور میں ایک جگہ سید روشن علی شاہ کے حوالے سے یوں حق بجانب ہیں۔
” جب نواب آصف الدولہ سیر و شکار کے سلسلے میں 1795ء میں گورکھپور آۓ تو انہوں نے حضرت روشن علی شاہ کی خدمت میں حاضری دی اور ان کو 16 علاقے بخش دیے۔ ” ( ص 41 )
تاہم علمی و ادبی اعتبار سے بھی اس ضلعے کی تاریخ بہت ہی درخشندہ ہے جہاں اس شہر سے کبیر داس کی وابستگی باعث فخر ٹہرتی ہے وہیں اردو زبان وادب کی ایک سے بڑھ کر ایک نابغۂ روزگار ہستی کو اس مٹی نے اپنے بطن سے جنم دیا ہے جن کے ناموں اور کاموں کی فہرست بہت طویل ہے ۔ سب کا ذکر کرنے کے لیے الگ سے ایک مقالے کی ضرورت پڑے گی۔ان میں سے چند نام یہاں درج کیے جا رہے ہیں۔ تمنا گورکھپوری، سید احمد علی شاہ، مراد عالم، گورکھ پرساد عبرت، سنت لال عنبر، محشر گورکھپوری، حکیم برہم، ناگسیر پرساد احقر، وسیم خیرآبادی ، ریاض خیرآبادی، صغیر گورکھپوری، عبید اللہ محشر، چراغ علی شاہ طیش، رنگ بہادر لال جگر، ذاکر گورکھپوری، ولایت گورکھپوری، عبد المجید حیرت، اصغر گورکھپوری، اسد گورکھپوری، ناہید گورکھپوری، ہری ہردت خوشتر، فانی گورکھپوری، فہیم گورکھپوری، ناچیز گورکھپوری، ریحان گورکھپوری، عمر گورکھپوری، جگر گورکھپوری، فراق گورکھپوری، ساجد علی اخگر، مجنوں گورکھپوری، احمر گورکھپوری، ایشوری پرساد گہر ، ہندی گورکھپوری، مسلم انصاری، عمر قریشی، شمیم صابری، شبنم گورکھپوری، ایم کوٹھیاوی راہی، نثار اللہ نثار، سالک گورکھپوری، عاصم گونڈوی، شاطر گورکھپوری، عبد الحق امام، کلیم قیصر، جالب نعمانی اور انور ضیاء کے نام قابل ذکر ہیں۔
زیرِ مطالعہ کتاب بعنوان ہندی گورکھپوری:افقِ ادب کا نیرِ تاباں کے نام سے نوجوان شاعر اور قلم کار عالی جناب ماسٹر مصباح الدین انصاری کی شبانہ روز کوششوں کا نتیجہ ہے۔ موصوف مرتب ایک دشک سے گورکھپور اور اس کے اطراف و اکناف میں منعقد ہونے والی علمی و ادبی نشستوں کا حصہ بنتے رہے ہیں اور اپنے ادبی ذوق سے لوگوں کو محظوظ فرماتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ آپ کی نثری اور شعری تحریرات ملک کے مؤقر رسائل و جرائد کی زینت بھی بنتی رہی ہیں۔ آپ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں مگر اردو شعر و ادب سے بھی انتہا کی حد تک شغف رکھتے ہیں۔ ہندی گورکھپوری سرزمین گورکھپور کا ایک ایسا محب وطن شاعر جسے کچھ تو ذاتی مفلوک الحالی نے اور کچھ وقت کے تھپیڑوں نے گمنامی کے اندھیرے میں دھکیل دیا جو کئی دشکوں تک اپنی جوشیلی اور انقلابی شاعری سے ملک عزیز کی فضاؤں کو گونجاتا رہا متعلقہ کتاب انہیں کی ادبی خدمات کا اعتراف نامہ ہے۔ جس کے لیے صاحب مرتب بلا شبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ہندی گورکھپوری کی ولادت 17 جولائی 1917 ء کو کریم اللہ خاکی کے گھر ضلع گورکھپور میں ہوئی۔ آپ کا اصل نام محمد وحید اللہ انصاری تھا مگر دنیاۓ ادب میں آپ ہندی گورکھپوری کے نامِ نامی سے جانے اور پہچانے گۓ۔ آپ کی ابتدائی تعلیم زمانے کے رواج کے مطابق گھر کی چار دیواری ہی میں ہوئی اور میٹرک کی تعلیم کے لیے بنارس ہندو یونیورسٹی کا رخ کیا بعد ازاں انٹرمیڈیٹ کے لیے شہر ہی میں واقع سینٹ اینڈریوز کالج میں داخلہ لیا جہاں ان کا سابقہ اردو زبان و ادب کا خاص طور سے تنقید کے حوالے سے ایک بڑا نام مجنوں گورکھپوری جیسے منجھے ہوئے استاد سے پڑا مگر آزادانہ طبیعت کے سبب ہندی زیادہ دنوں تک اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور جلد ہی درمیان میں تعلیم سے مستثنیٰ ہو کر زندگی کے بقیہ ایام شعر و شاعری کے لیے وقف کر دیے۔ در اصل آپ جس گھرانے کے چشم و چراغ تھے وہ اپنی شعری خدمات کے لیے کسی بھی طرح سے ادبی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں تھا۔ وجہ آپ کے دادا دائم، والد ماجد خاکی اور برادر اکبر شادماں کا پایے کے شاعر ہونا تھا۔ سبھی کی جملہ حیات شعر و شاعری کی نوک و پلک سنوارنے میں صرف ہوئی تھی تو بھلا جب گھر کا ماحول ایسا ہو تو پھر ہندی گورکھپوری جیسے عظیم شاعر کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ آپ اپنی اوائل عمری ہی سے شعر و شاعری کی طرف راغب تھے جب اسکول اور کالج میں زیر تعلیم تھے تو کچھ نہ کچھ جوڑتے رہے جو بعد میں ایک منجھا ہوا شاعر بننے کے لیے بہت ہی معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔
یوں تو ہندی گورکھپوری نے اردو شعر و ادب کی تمام اصناف سخن میں خامہ فرسائی کی مگر ان کی اصل پہچان کی باعث ان کی نظمیہ شاعری بنی اس میں بھی ایک خاص موضوع پر لکھی گئیں نظمیں جو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھیں۔ یہ تحریک آپ کو جد وجہد آزادی سے ملی تھی۔ آپ جس دور میں سن شعور کو پہنچے وہ دور انقلاب اور تحریک آزادی کا دور تھا ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی ادب اپنے دور کا سچا آئینہ ہوتا ہے جب ہندی گورکھپوری نے اس طرح کا اتھل پتھل کا دور دیکھا تو وہ اس سے دو چار ہوۓ اور انہوں نے ان تمام احساسات اور مشاہدات کو شعری قالب میں ڈھالنے کی حتی الامکان سعی کی اور اس میں وہ صد فیصد کامیاب بھی رہے کیونکہ وہ اپنے تمام کلام کو انقلاب اور بغاوت کے لیے دھار دار ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہاں اس طرح کی تمام نظموں کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کرنا تو تھوڑا محال ہے مگر پھر بھی کچھ نظموں کے عنوانات کا ذکر کرنا ضروری معلوم پڑتا ہے جس سے با آسانی یہ اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ ہندی گورکھپوری کس طرح کی شاعری کے خواہاں تھے بغاوت کا نعرہ،جوانوں سے خطاب،پابند سلاسل،مجاہد وطن،لوٹ لو، غلامی میں لطف جوانی کہاں، مادر ہندوستاں،انقلاب آ رہا ہے، سویرا،ہمارا وطن، امن کا ترانہ،شاعر کا اعلان جنگ اور دلی جو ایک شہر تھا جیسی نظمیں واردِ قلم ہوئیں۔اپنی اس طرح کی باغیانہ شاعری کے حوالے سے آپ اپنے شعری مجموعے بعنوان شعلۂ گل میں ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں ملاحظہ فرمائیں:-
“اپنی شاعری سے میں جنگ آزادی میں برابر حصہ لیتا رہا اور غلام ذہنوں کو جھنجھوڑتا رہا، میں نے باغیانہ رجحانات کو غزلوں میں سمویا۔ حب الوطنی میرے خمیر میں ہے۔ اس لیے قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے جذبات کو بھی ابھارتا رہا۔ ” ( ص نمبر 09 )
ہندی گورکھپوری کا وہ کلام جس نے مجھے دوران مطالعہ بہت زیادہ متاثر کیا اس سے یہاں چیدہ چیدہ اشعار آپ تمام قارئین کے لیے بطور نمونہ پیش خدمت ہیں ملاحظہ فرمائیں:-
غزلیہ کلام
(1) قناعت کر اسی پر جو خدا دے
ہر خوشی پر شکر غم پر مسکرا دے
(2) جس حال میں ہوں مجھے آرام بہت ہے
احسان ترا گردش ایام بہت ہے
(3) اے مالکِ کونین مری آس نہ ٹوٹے
میں نے بھی مصیبت میں ترا نام لیا ہے
نظمیہ کلام۔۔۔۔۔۔۔
(1) دشمن کے ہر اک وار سے ہم بڑھ کے لڑیں گے
وقت آنے دو اغیار سے ہم بڑھ کے لڑیں گے
(2) مٹ جائیں گے، ناموس وطن مٹنے نہ دیں گے
جیسے بھی ہو اغیار سے ہم بڑھ کے لڑیں گے (شاعر کا اعلان جنگ)
(3) اس میں ارجن کا دل ہیر کا بانکپن
اس کی ہر اک کلی ہے چمن در چمن
(4) رشکِ لعل یمن رشکِ در عدن
یہ ہمارا وطن ہے ہمارا وطن
(ہمارا وطن ) سے ماخوذ
موصوف کبھی بھی شاعری کو دل بہلانے کا سامان نہیں گردانتے تھے وہ ہمیشہ شاعری سے عوامی فلاح و بہبود کے لیے بڑے بڑے کام لینے کے قائل تھے یعنی وہ تعمیری اور مقصدی ادب کے علمبردار تھے یہی وجہ تھی جو وہ عمر کے آخری پڑاؤ تک ادب برائے زندگی کی وکالت کرتے رہے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ فرمائیں مندرجہ ذیل اقتباس:-
“میری زندگی کا مسلک انتہائی رجائی اور شاعری میں میرا مسلک ادب برائے زندگی ہے، میری شاعری ہمیشہ مقصدی اور تعمیری رہی ہے۔ ”
( شعلۂ گل از ہندی گورکھپوری ص نمبر 09 )
ہندی گورکھپوری کا شمار ان چند محب وطن شعرا میں ہوتا ہے جن کا نام ادب میں ہمیشہ کے لیے سچے محب وطن شعرا کے طور پر محفوظ کر لیا گیا ہے جن میں اقبال، چکبست، جوش ، مجاز اور فیض جیسے شعرا کے نام سر فہرست ہیں۔ یہ بات یہاں موصوف کے حوالے سے بہت ہی معنی خیز ہو جاتی ہے کہ آپ نے تخلص بھی رکھا تو وہ رکھا جس سے آپ کی وطن کے تئیں محبت میں کوئی حرف نہیں آتا جس کی خوبصورت عکاسی نازش پرتاپ گڑھی کی آپ پر لکھی گئی نظم کا مندرجہ ذیل پیش کیا جا رہا شعر بخوبی کرتا نظر آتا ہے۔
تونے ڈھونڈا وہ تخلص جو پتہ دیتا ہے
مادرِ ہند کا بے لوث پرستار ہے تو
موصوف نے جہاں شعر و شاعری کے ذریعے ملک کی بقا کے لیے اپنی نمایاں خدمات انجام دیں وہیں آپ صحافت کے میدان کے بھی شہسوار نکلے جہاں آپ نے کلکتہ سے عبد الجبار وحیدی کی سرپرستی میں نکلنے والے اخبار زمانہ میں بحیثیت مدیر کام کیا علاوہ ازیں پائنیر میں بھی آپ نے خصوصی نمائندے کے طور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی احسن طریقے سے انجام دیں۔ آپ جہاں ترقی پسند تحریک کے پیروکار تھے وہیں آپ سیاست میں کانگریس پارٹی کے اخیر وقت تک حامی و ناصر بھی رہے مگر سہی کو سہی اور غلط کو غلط کہنا ہمیشہ اپنا فرضِ اولین سمجھا پھر اس کا تعلق چاہے اپنوں سے تھا یا بیگانوں سے اس کی عمدہ ترین بانگی کے لیے ملاحظہ فرمائیں ان کی نظم دلی جو ایک شہر تھا سے کچھ اشعار:-
(1) اسی دلی سے بیکاری و مہنگائی پنپتی ہے
اسی دلی سے نا آسودگی کی مے چھلکتی ہے
(2) حکومت کے خزانوں میں یہاں دولت برستی ہے
مگر نادار جنتا کے گھروں میں بھوک پلتی ہے
ہندی گورکھپوری کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ تب پیش آیا جب ان کے کچھ دوستوں نے ان سے ان کے شعری مجموعے جنس گراں کا مسودہ اس غرض سے مانگ لیا کہ ہم اسے زیور طباعت سے آراستہ کرا کر ایک پر وقار تقریب میں اجراء کرنے کے متمنی ہیں تو موصوف نے ان احباب کی باتوں پر یقین کرتے ہوئے اپنا متعلقہ مسودہ دوستوں کی شکل میں موجود ان خونخوار درندوں کے ہاتھوں میں سپرد کر دیا مگر اتفاق کہیے کہ کچھ ہی دنوں بعد ہندی گورکھپوری اور ان کے احباب میں کسی بات کو لے کر اختلاف ہو گیا اور ان لوگوں نے وہ مسودہ آپ کی نظروں کے سامنے ہی آگ کے حوالے کر دیا جس سے آپ ایسے ٹوٹے کی آپ میں پھر کبھی بھی مقامی علمی و ادبی نشستوں میں بیٹھنے کی سکت باقی نہ رہی، یہ آپ کی زندگی کا سب سے پڑا حادثہ تھا۔
بہر کیف آپ کی زندگی ہی میں آپ کے چار شعری مجموعے زیور طباعت سے مزین ہو کر ادبی حلقوں میں شرف قبولیت پا چکے تھے، جن میں شرارے، جنس گراں، قفس سے آشیاں تک اور شعلۂ گل کے نام قابلِ مذکور ہیں۔ آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سن 1974ء میں ہندی اردو ادبی سنگم لکھنؤ نے آپ کو قومی شاعر ایوارڈ سے نوازا وہیں 1981 ء میں میر اکادمی لکھنؤ نے آپ کی ادب کے تئیں بے لوث خدمات کے لیے آپ کو میر ایوارڈ سے سرفراز فرمایا۔
مجروح سلطانپوری ہندی گورکھپوری کے ان معاصرین میں سے ایک ہیں جن کے ساتھ آپ نے نہ صرف مقامی مشاعروں میں کلام پڑھا بلکہ باہر بھی خوب خوب مشاعرے پڑھے۔ بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجروح صاحب نے موصوف کی شاعری سے متاثر ہو کر انہیں فلموں میں کام کرنے کے لیے ممبئی آنے کی دعوت دی جہاں آپ عرصہ دراز سے فلمی دنیا سے وابستہ ہونے کے سبب مقیم تھے۔ مگر آپ نے کسمپرسی کی حالت میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی آپ نے اپنی تنگ دستی میں بسر ہونے والی زندگی کو عیش و آرام والی زندگی پر ترجیح دی۔ بقول بنت ہندی ثمینہ ادیب ضیاء:-
“مجروح کا دستی خط پانے کے بعد بھی وہ اپنے ‘ کنج قفس ‘ (ہندی نے اپنے گھر کا نام کنج قفس رکھا تھا) کو چھوڑ کر جانے پر آمادہ نہ ہوۓ بلکہ اس شاندار زندگی سے اپنی معاشی تنگی کو بہتر جانا۔ ”
دنیاۓ ادب میں جن ادبی لوگوں نے ضلع گورکھپور کو مقبولیت دلائی ان میں تین نام خاصے اہمیت کے حامل ہیں فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری اور ہندی گورکھپوری جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ فراق صاحب تو ملازمت میں آنے کے بعد تمام عمر الہ آباد ہی کے ہو رہے تھے کبھی کبھی گورکھپور جانا ہوتا تھا تو کسی ادبی محفل کے حصہ بن گئے ورنہ تو کوئی بات نہیں مگر مجنوں اور ہندی تا حیات سرزمین گورکھپور کی ادبی محفلوں کو اپنے ادبی ذوق سے گرماتے رہے۔ بعد کے ادب دوست اور ادب نواز حضرات اس بات کا کھلے من سے اپنے مضامین میں اعتراف کرتے پاۓ گۓ ہیں کہ ان دونوں کی موجودگی کسی بھی ادبی حلقے اور مشاعرے کی کامیابی مانی جاتی تھی۔ اس حوالے سے پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی راۓ پورے طور پر صادق آتی ہے۔
“مجنوں اور فراق کے بعد سرزمین گورکھپور اپنے کسی شاعر پر اگر بجا طور پر فخر کر سکتی ہے تو وہ ہندی گورکھپوری کی شخصیت ہے۔ ” ( مضمون : ہندی گورکھپوری از ملک زادہ منظور احمد ص نمبر 71 شامل کتاب، ہندی گورکھپوری افق ادب کا نیر تاباں )
لیکن یہ ہم تمام شائقین اردو کے لیے بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ ایک ایسا خادم اردو جس نے نہ صرف اپنے کلام سے وطن عزیز کو آزاد کرانے کے لیے بوڑھے اور نوجوانوں کی مردہ رگوں میں خون دوڑانے کا کام کیا بلکہ جب اردو زبان کو مٹانے کی سازشیں رچی جانے لگیں تو آپ اس کے دفاع میں اتر آۓ اور ہماری جامعات نے ہنوز ان کی ان بیش بہا ادبی خدمات پر کوئی تحقیقی کام نہیں کرایا شرم کی بات ہے، جبکہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگوں پر ان کے ایک ایک مختصر سے ناول اور شعری مجموعے پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ایوارڈ کرا دی جا رہی ہیں جن کی ضخامت چند صفحات پر مشتمل ہیں سچائی یہ ہے کہ آج ہمارے شعبے اپنی اپنی لوبی کے شکار ہو گۓ ہیں۔ جہاں وہ حقیقی معنوں میں جس شخصیت پر تحقیق ہونا ضروری ہے اس پر کام نہ کرا کر اپنے ذاتی مفادات کو پیش نظر رکھ کر کسی بھی ایرے گیرے نتھو کھیرے پر کام کرانا ضروری سمجھتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں جس طرح سے گورکھپور ضلع انتظامیہ نے گورکھپور شہر کے گھنٹہ گھر کو ہندی بازار کے نام سے معنون کر کے سچی محبت پیش کی ہے آج اسی طرح سے پنڈت دین دیال اپادھیائے یونیورسٹی اور خاص طور پر اس یونیورسٹی سے ملحقہ اردو شعبے کو چاہیے کہ وہ ہندی گورکھپوری کی مختلف الجہات شخصیت کے الگ الگ پہلوؤں پر تحقیقی مقالات لکھا کر فرض کفایہ ادا کرنے کا کام سر انجام دے۔
مجموعی طور پر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی کہ جس دل جمعی اور عرق ریزی سے جناب مصباح انصاری صاحب نے اس کتاب کو مرتب کیا ہے اس نے جہاں ہندی گورکھپوری کو سچی خراج عقیدت پیش کی ہے وہیں ہم جیسے نۓ لکھاریوں اور ریسرچ اسکالرس کے لیے بہت سی چیزیں یکجا کر کے آسانی پیدا کر دی ہے۔جن تک اس مصروف ترین دور میں ہم سب کی رسائی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھی بیشک آپ کی یہ کاوش ہندی گورکھپوری کو جاننے کے لیے قدرے آضافے کا ذریعہ ثابت ہوگی جس کے لیے آپ بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں اہالیان اردو کو چاہیے کہ وہ اس کتاب کو اپنے مطالعہ کا محور و مرکز بناتے ہوئے موصوف کے لیے مزید لکھنے کا حوصلہ بخشنے کا کام کریں ۔
محمد انعام برنی
ریسرچ اسکالر
دہلی یونیورسٹی، دہلی