منی بیگم ۔’’جلمی اک بار مسکرادو‘‘
مارہی ڈال مجھے چشم اداسے پہلے
اپنی منزل کو پہنچ جاوں قضا سے پہلے
اک نظر دیکھ لوں آجاؤ قضا سے پہلے
تم سے ملنے کی تمنا ہے خدا سے پہلے
حشر کے روز میں پوچھوں گا خدا سے پہلے
تونے روکا نہیں کیوں مجھ کو خطا سے پہلے
اے مری موت ٹھہر اُن کوذرا آنے دے
زہر کا جام نہ دے مجھے کو دوا سے پہلے
ہاتھ پہنچے بھی نہ تھے زلف دوتا تک مومن
ہتھکڑی ڈال دی ظالم نے خطا سے پہلے
(کلام:مومن خاں مومن۔غزل سرا:منی بیگم۔البم منی vol-24،EMIپاکستان)
سحر بنگالہ رونالیلیٰ علی کے علاوہ جس دختر بنگالہ نے اردو شوبز ،موسیقی اور گلوکاری میں شائقین کو مدتوں جکڑے رکھا (آج بھی تاہم)اسے فن و آرٹ کی دنیا میں منی بیگم کے نام سے شہرت ملی۔ان کا اصلی نام تو ”نادرہ“ تھا ۔لیکن ان کی منی بیگم کی شہرت ،اسے کھاگئی ۔منی بیگم غیر منقسم ہندوستان کے ضلع مرشدآباد کے شہر’ کشتیہ‘ میں1940 میں پیدا ہوئیں ۔وہ اپنے والدین کی ساتویں سنتان (اولاد)تھیں۔ انھوں نے موسیقی اور گلو کاری کی تعلیم بنگال کے معروف موسیقار استاد خواجہ غلام مصطفی وارثی سے حاصل کی۔بعد ازاں وہ بنگال انسٹی ٹیوٹ آف میوزک اینڈ فائن آرٹس میں داخل ہو ئیں۔یہاں تین سال تک انھوں نے مختلف اساتذۂ فن اور پروفیشنل گلوکاروں سے موسیقی،غزل گوئی ،بنگلہ گیت کی تعلیم حاصل کی۔تقسیم ہند کے بعد1950کی دہائی میں ان کا خاندان مشرقی پاکستان،ڈھاکہ(موجودہ بنگلہ دیش)ہجرت کرگیا۔ موسیقی اور گلو کاری کے میدان میں ان کا شوق ذوق اور محنت و کوشش دیکھتے ہوئے ان کے والدین نے انھیں پی اے ایف اسکول ڈھاکہ میں داخل کرادیا۔محض پانچ برس کے بعد جب یہ ناکندہ تراش جوہر ”منی بیگم “ کا روپ دھار کر موسیقی اور گلو کاری کی دنیا میں نمو دار ہوا تو اس کی آب و تاب سب سے نمایاں نظر آنے لگی۔ بہت کم عرصے میں منی بیگم کا نام غزل شائقین کے دلوں اور حلقوں میں جگہ بناگیا۔ وہ مشرقی اور مغربی پاکستان،اسی طرح بیرونی دنیا میں اپنے فن و موسیقی کے مظاہرے کررہی تھیں کہ مشرقی پاکستان پر مختلف سیاسی اور سماجی ،قدرتی و موسمیاتی مصیبتیں ٹوٹ پڑیں ۔ان حالات کی سفاکیت اور ان کے مابعد رونما ہونے والے مہیب حالات کی بھنک پاکر کتنے ہی خاندان مغربی پاکستان کے مختلف شہروں اور صوبوں کی طرف ہجرت کرگئے۔یہ1971یعنی سقوط ڈھاکہ سے چند سال پہلے کی باتیں ہیں کہ منی بیگم کے خاندان کو ایک اور ہجرت کرنی پڑی ۔اس باریہ بنگالی خاندان شہرقائد ،اردو بستی اور ادیبوں ،فن کاروں ،ادب و فن کے دل داداؤں کے شہر کراچی جا پہنچا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دوراندیش اور جہاں دیدہ خانوادہ 1968میں کراچی پہنچا تھا۔جہاں دو سال کے بعد یعنی 1970میں منی بیگم نے اپنے کرئیر کا دوبارہ آغاز کیا۔عوامی حلقوں اور اسٹیج کے علاوہ اب انھیں ریڈیو پاکستان،پی ٹی وی اور دیگر انٹرٹین منٹ چینلس سے بھی دعوت نامے موصول ہونے لگے۔1976میں منی بیگم نے اپنا پہلا البم ریلیز کیا۔جس نے تمام سابقہ ریکاڈتوڑدیے۔یہ البم اور اس کے بعد آنے والے البمس میں منی بیگم کا امتیام یہ تھا کہ انھوں نے موسیقی کے قدیم و روایتی سُروںمیں نئے اضافے کیے۔
1980کی دہائی میں منی بیگم رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئیں مگر یہ شادی1998میں طلاق پر منتج ہوئی اور گاتاگنگناتا ستارہ طلاق کا داغ،تین بچے لیے اپنے مدار میں واپس آگیا۔ وہ جب اس 18برس کی زندگی کی طرف دیکھتی ہیں تو بے اختیار کہہ اٹھتی ہیں:
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
میرا جرم تو کوئی اور تھا پر مری سزا کوئی اور ہے
جو مری ریاضت نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور
منی بیگم کے گلوکاری کیرئیر میں جن غزلوں اور نغموں نے آب حیات پیا ان میں یہ انتخاب شامل ہے:
٭ راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
٭ میر منہ کفن سے کھولا
٭ کب میرا نشیمن اہل چمن
٭ میں نظر سے پی رہا ہوں
٭ جھوم برابر جھوم شرابی
٭ ہلکا ہلکا سرور ہے ساقی
٭ بوتل کھلی ہے رقص میں جام شراب ہے
٭ پارسائی دھری کی دھری رہ گئی
٭ ہر قدم زحمتیں،ہر نفس الجھنیں
٭ آوارگی میں حد سے گزرجانا چاہیے
٭ میں خیال ہوں کسی اورکا
٭ وہ جب آئیں گے محفل میں
٭ بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے
٭ چاہت میں کیا دنیا داری،عشق میں کیسی مجبوری
٭ بھولنے والے سے کوئی کہہ دے ذرا
٭ کسی کے غم میں وقار کھونا
٭ مریض محبت ان ہی کا فسانہ،سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے نادرہ ترک کرکے’منی بیگم ‘نام کیوں اختیار کیا ؟تو ان کا جواب تھا کہ میں ، نواب آف بنگال(مرشدآباد)نواب میر جعفر کی دوسری اہلیہ ”منی بیگم “(1720-1813) سے بہت متاثر ہوں ۔ان کی زندگی میرے لیے مشعل راہ ہے۔ممکن ہے آپ کو ان کے شوہر میر جعفر سے اتفاق نہیں ہوگا،مگر ان کی اہلیہ کی خدمات سرزمین بنگال کے لیے ناقابل فراموش ہیں۔
منی بیگم نے اپنے گلوکاری کیرئیر میں بالخصوص اختر شیرانی ،استاد قمر جلالوی،قتل شفائی،فیض احمد فیض،احمد فراز اور سلیم شہزادکی بے زبان غزلوں کو مترنم آواز اور اپنا سوزوساز دے کرحیات جاوداں بخشی ہے۔
مارچ 2008میں اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے انھیں گورنر ہاو
س،کراچی میں منعقد ایک سادہ مگر پر وقار تقریب میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ان دنوں وہ شکاگو(امریکہ )میں مقیم ہیں اور اپنے بیتے دنوں کو یاد کرتی ہیں۔
٭٭٭