(ہندوپاک کے بھولے بسرے گلوکاروں کی یاد سیریز)
’’اے۔ نیّر۔آرتھر نیّر: آواز پاکستان‘‘
چاندتارے گھٹا، پھول شبنم صبا،چاندنی شاخ کلیاں دھنک روشنی
سب ملے اک جگہ تو یہ مکھڑا بنا،جس نے دیکھا یہ مکھڑا کہامرحبا
تجھ کو چھوکے ہوائیں معطر ہوئیں،تیری زلفوں سے بادل کو رنگت ملی
تیرے ہونٹوں سے گلشن کی قسمت بنی،تیری آنکھوں سے دنیا کو چاہت ملی
سر سے پاوں تلک نور کا سلسلہ،جس نے دیکھا یہ مکھڑا کہامرحبا
تیرے ہنسنے میں جھرنوں کی آوازہے،تیرا چلنا قیامت کا انداز ہے
تو مصور کے شاہ کار سے ہے حسیں ،جو اداتجھ میں ہے شاعری میں نہیں
حسن تیرا صنم دو جہاں سے جدا،جس نے دیکھا یہ مکھڑا کہامرحبا
( کلام: ریاض الر حمان ساگر۔آواز :اے نیّر(آرتھر نیّر)موسیقی:ایم اشرف۔فلم:ساتھی۔1980۔پیش کش :گولڈن لالی ووڈ اسٹوڈیو،لاہور)
جس طرح تعمیر پاکستان میں کیا پنجابی،کیا بنگالی،کیا ہندی/سندھی،کیا اکثریتی طبقے کے مسلمان اور کیا اقلیتی کمیونیٹوں سے وابستہ جیالے،سب نے اپنے سرخ اور جیتے جیتے لہو کا نذرانہ پیش کیا،اسی طرح فن و ثقافت کی قدروں کو بلند کرنے اور پروان چڑھانے میں بھی ان کی قربانیاں اور خدمات قابل قدر اور ناقابل فراموش ہیں۔ ایک اے۔ نیّر۔یعنی آرتھر نیّر ہی نہیں اتنی کتنی ہی مثالیں موجود ہیں جو اس دعوے کی دلیل میں پیش کی جاسکتی ہیں۔اب ذکر اے۔ نّیر کا ہی ہے تو پڑھیے جگر تھام کے۔
لالی ووڈ پلے بیک سنگر اور انڈسٹری کو کم و بیش 4000سدابہار نغمے عطا کرنے والے اے۔ نیّرکی پیدائش پنجاب کے ضلع ساہی وال کے چھوٹے سے گاوں چک نمبر 148/9.Lمیں رنسن آباد میں17 ستمبر 1955کو ہوئی ۔تاہم ان کا بچپن عارف والا میں بسر ہوا۔یہیں انھوں نے اپنے گائیکی اور موسیقی کے سفر کا آغاز کیا۔اس کی تحریک انھیں ان ہندوستانی و پاکستانی فلموں سے ملی جو انھوںنے عارف والا کے ملٹی فلیکس اور لگزرئس سنیما گھر”رچنا“میں دیکھیں تھیں۔اس سے چند قدم مزید آگے وہ محمد رفیع،طلعت محمود اور سلیم رضا جیسے لے جنڈری گلوکاروں کے فین بنتے چلے گئے۔ عارف والا میں اے۔ نیّر نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی بعدازاں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ یہاں وہ سینٹ فرانسس اسکول میں داخل ہوئے اور میٹرک تک تعلیم مکمل کی۔اگلا تعلیمی مرحلہ سرکر نے کے لیے وہ فورمین کرسچین کالج لاہور کی پر بہار فضاؤں میں پہنچ گئے۔یہاں انھوں نے گریجویشن کے ساتھ ساتھ انھوں نے 1975میں گورنمنٹ سینٹرل ٹریننگ کالج سے شعبۂ تعلیمات سے بی ۔ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔
1974میں جب پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن لمیٹڈ [Ptv]نے ’نئےفن کار‘شو کا آغاز کیا، اے۔ نیّربھی قسمت آزمانے چلے گئے۔لاہور سے اسلام آباد تک کا یہ سفر گو ان کے لیے نارمل نہیں تھا۔دل میں کتنے ہی عجیب وغریب سے خدشات سر اٹھا رہے تھے۔مگر ان کا غیر مرئی سا اعتماد، انھیں اسلام آباد اور پی ٹی وی تک کھینچتا لے گیا۔انھوں نے یہ سفر کیسے طے کیا اور وہ کس قدر دشوار رہ گزر سے گزرے ،خود ان کے لفظوں [ور میری ترجمانی] میں پڑھیے:
”یہ 1973کی بات ہے جب میں نے پہلی دفعہ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے در کھٹکھٹائے،مگر میرے لیے وہ نہ کھلے ،تاہم میں بھی ضد کا پکا رہا اور پُر امید ہو کراس وقت تک مسلسل کوشش ہی کرتا رہا جب تک دربانوں نے مجھے کورنش بجاکر اندر نہیں بلالیا۔بلآخر مجھے پی ٹی وی کی کسوٹی پر مجھے ٹکسال بننے کے لیے موقع مل ہی گیا اور رفیق وڑائچ کے پروگرام’نئے فن کار‘میں،میںنے پر فارم کر کے اپنی آمد کی گھنٹی بجادی۔پھر پی ٹی وی کے ہی ایک دوسرے پروگرام’ہم سخن‘میں مجھے موقع ملا اور یہاں میں نے استاد امانت علی خان کی معروف غزل ’موسم بدلا رُت بکھرائی‘گاکر سامعین کے دل موہ لیے“
واقعی قسمت نے ان کا ساتھ دیا اور اے۔ نیّر دوسرا گانا’بلّی تیری اکھ‘’ گاکرنیا فن کار‘ایوارڈ جیتے لے گئے۔لالی ووڈ فلم انڈسٹری کے’ سفیر ‘ ریاض شاہد جو پی ٹی وی کے ’ نئے فن کار‘شو کے ’پینل‘کے ایک خاص رکن تھے۔انھوں نے اس نیّرتاباں کو پرکھا اور اپنے ذہن میں ان کے لیے ایک خاص مقام بنالیا۔ایک موقع پر جب وہ اپنی بہن کی دوست کی برتھ ڈے پارٹی کے موقع پر ’محمد رفیع ‘کا مشہورزمانہ نغمہ ’یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں‘گا رہے تھے۔ریاض شاہد بھی اس محفل میں مدعوتھے،نّیراس لائن پر پہنچے:
’’ان کو خداملے ہے جن کو خدا کی جنھیں تلاش۔مجھ کو بس اک جھلک میرے دلدار کی ملے‘ ‘
تو ریاض عجیب سی ترنگ اورسرمستی کی لہروں میں آگئے۔بے اختیار ان کے منہ سے’ونس مور لالہونس مورلالہ“نکل رہا تھا۔اے۔ نیّر کی جادوئی گلوکاری نے ان پر ایسا سحر کیا کہ نغمہ ختم ہوتے ہی بھری محفل میں انھیں اپنی فلم’بہشت‘کے لیے سائن کرلیا اور مٹھی بندانعام دے کر وہاں سے روانہ ہو گئے۔اور فلمی دنیا میں لے آئے۔اے۔ نیّر کو’بہشت۔1974’میںاے ۔حمید کے تحریر کردہ نغمے’یوں ہی دن کٹ جائے،یوں ہی شام ڈھل جائے‘ میں روبینہ بدر کے ساتھ نغمہ سرائی کا ساتھ ملا۔یہ شریک آوازیں ہٹ ثابت ہوئیں اور پوری فلم کو بھی انھوں نے ہٹ کر دیا۔
فلمی سفر کے آغاز میں ہی انھیں’’ آواز پاکستان‘‘ کا خطاب دے دیا گیا۔ اے۔ نیّرکے گلوکاری کے 1974-2016 اس سفرمیں انھیں جن لے جنڈری گلوکاروں کا ساتھ ملا ان میں ’ناہید اختر‘۔’احمد رشدی‘۔’مہناز‘ وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔
2018میں بعد ازمرگ انھیں سابق صدرپاکستان ممنون حسین(آگرہ والے)کی جانب سے’ تمغۂ حسن کارکردگی ‘ عطا ہواجسے 23مارچ یعنی ’یوم پاکستان‘ موقع پر ان کی بیوہ نے ایوان صدر کراچی سے حاصل کیا۔بہترین گلوکاری کے لیے انھیں پانچ مرتبہ ’نگار ‘ایوارڈسے سرفراز کیا گیا۔
11نومبر 2016ایسا دن آیا جب یہ فن کار لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر بہ عمر 61برس دم توڑگیا اور اپنے چاہنے والوں کو ایک لمبی جدائی دے گیا۔
اے۔نیّر کا یہ ذکر کوئی معمولی ذکر نہیں ،بلکہ 70،80 اور 90 کی دہائی کے صحت مند ذوق گلوکاری کی سماعت رکھنے والوں کی ذہنوں کی ایسی خوش بو ہے جسے کبھی زوال نہیں اور ایسی بہارہے جسے کوئی اندیشۂ خزاں نہیں۔
٭٭٭