(ہندو پاک کے بھولے بسرے گلوکار یاد سیریز)
پنکج ادھاس: پدم شری
تم نہ ما نو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
حسن ہی حسن جلوے ہی جلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے
ان کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوب صورت ہے
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے
(کلام :قابل اجمیری۔آواز و موسیقی:پنکج ادھاس۔البم :مکرر1981)
ہندوستانی شوبز اورمیل پلے بیک سنگنگ میں ایک بڑے نام اور کام کے مالک پنکج ادھاس، جیت پور سوراشٹر (گجرات)کی ایک’ چرن‘ کسان فیملی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کے والدکیشو بھائی ادھاس اور والدہ جیتو بین ادھاس گجرات کے معمولی کسان تھے مگر بچوں کو انھوں نے اعلا تعلیم دلائی۔چنانچہ پنکج ادھاس کے چھوٹے بھائی منوہر ادھاس اور نرمل ادھاس اسکولی تعلیم کے بعد پرو فیشنل اور ٹیکنیکل تعلیم حاصل کر کے بالی ووڈ میں اپنی آواز کا جادوجگانے لگے۔
پنکج ادھاس کی پیدائش 17مئی 1951کو ہوئی ۔انھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1980میں غزلیہ البم ”آہٹ“سے کیا۔یہ البم راتوں رات مقبول ہو گیا اور شائقین کی دنیا میں اس کی طلب و جستجو نے حیرت انگیز سماں باندھ دیا ،مکررمکر رکی آواز آنے لگی تو 1981میں انھوں نے”مکرر“ البم ریلیز کیا۔شائقین اسے بھی لے اڑے،اب انھیں ترنم کی تلاش تھی،پنکج کو حوصلہ ملا اور انھوں نے 1982میں ”ترنم “ریلیز کیا۔وہ بعد ازاں ’محفل‘۔’نایاب‘۔’آفرین‘۔’ہم نشیں‘۔’نبیل‘۔ ’کیف‘۔’شگفتہ‘۔’رباعی‘ ۔ ’حسرت‘۔’آشیانہ‘۔’خیال‘۔’نشہ‘۔’گیت نما‘۔’مہک‘۔’مسکان ‘ اور ’دھڑکن‘ ایک پر ایک البم ریلیز کرتے رہے اور شائقین کے دل لوٹتے رہے۔1984میں ایک موقع ایسا آیا کہ انھیں’رائل البرٹ ہال ‘لندن سے لائیو پروگرام نشر کرنے کا زرین اور یادگار موقع ملا۔وہ سماں دیکھنے کے قابل تھا،شبانہ اعظمی اپنی سریلی آواز میں پنکج ،ان کے کارناموں اور غزل و موسیقی کے مابین جس طرح رشتوں کے احساس کو بیان کررہی تھیں۔ انگریز اورہندوستانی جھوم رہے تھے ،تالیوں کی گونج کے ساتھ ان کی انتظار سراپا آنکھیں اور دل پنکج پنکج ،غزل غزل ،شراب شرب کہہ رہے تھے۔یہ شواس قدر مقبول ہو ا کہ اسی برس پنکج ادھاس نے اس عنوان سے البم ہی ریلیز کردیا۔یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ہندوستانی آواز اور موسیقی کے مالک لندن لوٹیں اور ہندوستانی سنیما انھیں نظر انداز کردیں۔چنانچہ انھیں سب سے پہلے مہیش بھٹ اپنی فلم ’نام۔1986‘ میں لے کر آئے اور انھیں’چٹھی آئی ہےوطن سے چٹھی آئی ہے‘ نغمے کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ نغمہ ان کی پہچان ہی بن گیا۔دوسرا تاریخی نغمہ انھوں نے ”فلم گھائل1990‘میں لیجنڈری گلوکارہ،بھارت رتن لتا منگیشکر کے ساتھ گایا۔ 1994میں راجیو رائے کی ہدایت میں آئی مووی’مہرا‘ کے سب ہی گانے یوں تو شوبز اور فلم شائقین کی زبان پر آج تک ہیں مگر ’نہ کجرے کی دھار “کا جادو تو ایسا ہے جوسرچڑھ کر بول رہا ہے۔اس مووی میں انھوں نے سادھنا سرگم کی ہم نوائی میں گیت گائے۔
2004میں پنکج ادھاس نے اپنے فلمی کیریئر کا آخری نغمہ ریکارڈ کرایا ’چاندی جیسا بدن ہے تیرا سونے جیسے بال‘اس کے بعد محض 14نغمے گا کر فلموں سے رشتہ توڑلیا۔حالاں کہ اس سے ان کے مقصد اور عزم پر کوئی فرق نہیں پڑا ،کیوں کہ وہ فلموں میں آنے سے قبل ہی عالم گیر شہرت حاصل کرچکے تھے۔ایک موقع پر انھیں لگا کہ ان کی مقبولیت میں کچھ کمی واقع ہو رہی ہے تو 2011میں انھوں نے 20البم ریلیز کرکے کمی سے زیادہ اضافے کا گراف بلند کردیا۔سچ تو یہ ہے کہ شوبز لووَر ز کے لیے پنکج کوئی اجنبی یا ایسا نام نہیں ہے جو جلد فراموش کردینے کے قابل ہے، انھوں نے مختلف سوز وساز اور آہنگ کی جو دنیا بنائی ہے،اس پر دائمی زوال نہیں آسکتا،ہاں!وقتی زوال کی ضمانت نہیں ہے،مگر جیسے ہی وقت کروٹ بدلے گا،یہ گمشدہ ہیرے جواہر ضرور اس کے پہلو سے اجاگر ہوں گے۔
2006میں پنکج ادھاس کی مجموعی خدمات کے صلے میں انھیں صدر جمہوریہ(سابق) اے پی جے عبد الکلام کے ہاتھوں پدم شری کے گراں قدر اعزاز سے نوازا گیا۔علا وہ ازیں انھیں ساری دنیا سے بڑے چھوٹے تقریباً20ایوارڈز ملے ہیں جن میںاندرا گاندھی پریہ درشنی ایوارڈ، دادا بھائی نوروجی ملینیم ایوارڈ ،کلاکارایوارڈ(کلکتہ)بالی ووڈ میوزک ایوارڈ(نیو یارک) انڈین آرٹس ایوارڈ،(جرسی سٹی )ریڈیو لوٹس ایوارڈ (جنوبی افریقہ)خصوصی طورپرقابل ذکر ہیں۔
پنکج ادھاس آج بھی سنے جاتے ہیں باذوق افراد کی خواب گاہوں میں ان کی فریم شدہ تصاویر آویزاں ہیں ،اسی طرح ان کے معروف البمس ان کی خاص ڈائریوں کے پنوں میں کہیں سوکھے پھولوں کی مانند رکھے ہیں۔ایک فن کار کی یہی مقبولیت ہوتی ہے اور یہی اسے خراج تحسین بھی۔
٭٭٭