ہند آریائی مذہب
مورخین نے بالعموم آریائی دور کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔
(۱) سابق ویدی دور (۲) آخری ویدی دور یا زرمیہ دور (۳) ہندو دور یعنی پران و سمرتی ہے ۔
آریائی دور اس عہد سے تعلق رکھتا ہے جب کہ وہ پاک ہند پر حملہ آور ہوئے تھے ، اور یہاں کے باشندوں سے برسر جنگ تھے ۔
آریوں کی مذہبی کتابیں
آریوں کی مذہبی کتابیں تعداد میں چار ہیں جو چار ویدسے نام سے مشہور ہیں
(۱) رگ وید (۲) سام وید (۳) یجر وید (۴) اتھرو وید
وید کا لفظ ود سے نکلا ہے ، جس کے معنی جاننے کے اور علم ہیں ۔ اس لئے وید کا اطلاق عام علوم یا مخزن علوم کے ہیں ۔جس کو سمھیتا کہتے تھے ۔ یہ مخزن علوم اوائل میں تین مجموعوں پر مشتمل تھا ، رک سمھیتا، سام سمھیتا اور یجرسمھیتاکہتے تھے ۔ بعد میں اس میں اتھرا سمھیتا کا اضافہ ہوگیا ، جو مضمون کے لحاظ سے ایک ہیں ۔ یہ سمھیتا منتروں یا بھجنوں کا مجموعہ ہیں ، اس لئے یہ منترا بھی کہلاتی ہیں ۔ راسخ عقیدہ ہندؤں کا عقیدہ ہے یہ تمام وید الہامی ہیں اور پرمیشر کے خاص بندوں کے ذریعہ ہم تک پہنچائے گئے ہیں اور برھما نے انہیں خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ۔
ویدوں کے مضامین سے صاف ظاہر ہے ، کہ کچھ منتروں کو چھوڑ کر بقیہ اسی سرزمین پر لکھے گئے ہیں ۔ جب یہاں آریا یہاں آئے تھے ، تو انہیں کچھ مذہبی بھجن زبانی یاد تھے اور انہیں زبانی منتقل کرتے گئے اور وہ جب وہ فن تحریر سے آگاہ ہوئے ، تو ان کی ابتدائی تحریریں یہی بھجن اور منتر ہوں گے ، جو اب رگ وید کا حصہ ہیں اور تکرار اور حذف اضافے کے ساتھ دوسرے ویدوں میں شامل کئے گئے ہیں اور ان کے بہت سے مضامین بہت بعد کے حالات پر مشتمل ہیں ۔ اس طرح ویدوں کا زمانہ ۱۰۰۰ ق م سے ۶۰۰ ق م تک متعین ہوتا ہے ، جو قرین قیاس ہے ۔
رگ وید
اس وید کے زیادہ تر حصہ ابھی تک ناقابل فہم ہے اور یہ منتر ، مناجات اور حمد پر مشتمل ہے ۔ ان میں جگہ جگہ رنگین خرافات بھی ملتی ہیں ۔ ان منتروں سے ان کی ارتقائی حالت ، مقاصد ، سیاسی تنظیم اور دشمنوں کے تمدنی مدارج پر کافی روشنی پڑتی ہے ۔ ان میں بہت سے معبودوں کا نام لے کر دولت و شہرت طلب کی گئی ہے اور دشمنوں کے مقابلے میں اپنی فتح اور کامرانی کی دعا کی گئی ہے ۔
شام وید
قدامت کے لحاظ سے رگ وید کے بعد سام وید کا نام آتا ہے ۔ اس کے تمام منتر سوائے ۱۷۵ منتروں کے رگ وید سے ماخذ ہیں ۔ ان منتروں میں خاص طور پر اکھٹا کیا گیا ہے ، کہ رسموں کی ادائیگی میں آسانی ہو ۔ اس کے تمام منتر بلند آواز میں پڑھے جاتے ہیں ، یہی وجہ ہے اس کا نام سام یعنی ترنم ہے ۔
یجر وید
سام ویدکی طرح اس کے منتر بھی رگ وید سے ماخذ ہیں ۔ اس میں منتروں کے درمیان پوجا کے لئے ہدائتیں ہیں ۔
اتھرا وید
اس کی تصنیف بہت بعد میں ہوئی ہے ، مگر اس بعض حصے رگ وید سے بھی قدیم معلوم ہوتے ہیں ۔ یہ مزکورہ بقیہ تین ویدوں سے مختلف ہیں ۔ اس کے منتر زیادہ تر جادو ٹونے اور جھاڑپھونک پر مشتمل ہیں اور بھوتوں کی پرستش کا ذکر بھی ہے ۔
براہمن
آریا اس ملک میں آنے کے بعد جلد اپنی زبان بھول گئے ، اس لئے ویدوں کی تفسیریں لکھی گئیں ، اور انہوں نے ان منتروں کو جس کو سمجھ سکتے تھے ، کچھ نہ کچھ تفسیریں لکھ دالیں اور بقیہ حصہ کو چھور دیا ، لہذا بقیہ حصہ ناقابل فہم بن گئے ۔ یہ تفسیریں براہمن کے نام سے مشہور ہیں ۔ یہ کل کے کل منتر ہیں ، ان میں منتروں کے معافی اور موضع بتائے گئے ہیں ۔ مگر زیادہ تر اساطیری واقعات خرافاتی قصوں اور قربانی کے متعلق ہدایتیں ہیں ۔ یہ براہمن تعداد میں کافی لکھے گئے تھے ، مگر اب صرف سات باقی بچے ہیں ۔
آرن یک
براہمنوں کے بعد آرن یک کا نام آتا ہے ، جو بطور ضمیہ براہمنوں میں شامل ہیں ، ان کو جنگلوں کی بیاض بھی کہتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ اس قدر پاک ہیں کہ ان کو صرف جنگلوں میں ہی پڑھا جاسکتا ہے ۔ اس میں آریاؤں کے لئے ہدایتیں درج ہیں ۔ یہ براہمن کی طرح ہیں ، مگر اس میں رسومات کے برخلاف معنوں سے سروکار کیا گیا ہے ۔
اپ نے شد
یہ ویدی دور کا آخری ضخیم حصہ ہے ، جسے معنویت اور فلسفیانہ گہرائی کی وجہ سے بڑی اہمت حاصل ہے ۔ اپ نے شد کے معنی کسی کے آگے بیٹھنا کے ہیں اور اصلاحی معنی اسرار کے ہیں ۔ یہ بہت سے ہیں ، یہ بعض نظموں میں اور بعض نثروں میں ہیں ۔ انہیں عام طور پر ودیانت کہتے ہیں ، جس کے معنی وید کا تمتہ ۔ بعض لوگوں نے بھاگوت گیتا اور سوتروں کو بھی ودیانت میں شمار کیا ہے۔
مہابھارت
مہا بھارت رامائن سے زیادہ ضخیم ہے ، اس کے اندر ایک لاکھ اشعار نہیں ہیں ، جو بیس ہزار قطعات میں بٹے ہوئے ہیں ۔ ان کے علاوہ نظموں کا ایک اور مجموعہ بھی ہے ، جو چوبیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب کا مصنف ویاس بتایا جاتا ہے ۔ یہ کتاب بھی کسی ایک مضمون کے متعلق نہیں ہے ، بلکہ اس میں قصے بھی ، پند نصائم بھی ، زرمیہ کارنامے بھی فلسفیانہ بحثیں ہیں اور یوگیانہ درس بھی ہیں ۔ ان میں سب سے اہم بھاگود گیتا ہے ۔
یہ حقیقتاََ نئے مذہب کی کتاب ہے ، جس کے اکثر تصورات گو اپنشد سے ماخوذ ہیں ، تاہم نتیجے کے لحاظ سے ان سے مختلف ہیں ۔ اس میں دوسرے دیوتاؤں پر وشنو کی عظمت قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور وشنو کو برھما مانا گیا ہے ۔ نیز تناسخ کے فلسفہ پر زور دیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ خود کرشن نرائن بھی ، واسدیو بھی وشنو بھی اور برہمابھی ہیں ، دوسرے الفاظ میں وہی معبود اور روح کل بھی ہے ۔ ہندؤں کے خیال میں اس میں ایک ہستی کو تسلیم کرکے وحدت الوجود کی تعلیم دی گئی ہے ۔ اس میں قدیم دیوتاؤں کو نظر انداز کر کے ایک نئے مذہب کی داغ بیل ڈالی گئی ہے ، جس میں کرشن کو ہی سب کچھ بتایا گیا ہے ۔ اس تعلیم نے کچھ عرصہ کے بعد ایک بڑے فرقے کی صورت اختیار کرلی ۔ اس حقیقت کو سمجھانے کے لئے بھاگود گیتا میں تین طریقے بتائے گئے ہیں ۔ (۱) جنان مارگ یعنی علم کے ذریعے (۲)کرمہ مرگ یعنی عمل کے ذریعے (۳) بھگتی مرگ یعنی گیان ویوگ کے ذریعے ۔ یہاں بھی اپنشد کی طرح آرواگون سے رہائی پاجانے یا مکتی7 یٰا نجات بتایا گیا ہے ۔
رامائن
رامائن ماروا لطیفی اور فلسفیانہ بحث سے خالی ہے ۔ اس میں جو کچھ قابل تذکرہ ہے ، وہ رام چندر اور سیتا کی سیرتیں ہیں ، جنہں ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ بعد میں چوں کہ رام چندراور سیتا کو وشنو اور لکشمی کا اوتار مانا گیا ہے ، اس لئے اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور یہ وشنو کے مانے والوں کی سب سے اہم کتاب بن گئی ہے ۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ویدی معبودوں کے ساتھ نئے دیوتاؤں کا نام بھی آتا ہے ، جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ آریائی مذہب ہندو مذہب میں تبدیل ہورہا تھا ۔ گو انہیں برتری نہیں ہوئی تھی ، نیز تناسخ کا عقیدہ پختہ ہوچکا تھا اور عام انسانوں کو اوتار سمجھنے کی بدعت جاری ہوچکی تھی ۔
اس کتاب کا مصنف والمیکی بتایا جاتا ہے اور اس کو رام چندر کا ہم عصر قرار دیا گیا ۔ اس کتاب کے مختلف مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ۶۰۰ ق م سے پہلے کی نہیں ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔