جو لوگ عبدالغفار خان (باچا خان)، فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھُٹو کی ریاستی جبر کیخلاف پامردی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کر سکے، انکے لیئے منظور پشتین اور اسکے کارکنان کی آئینی حقوق کیلئے جنگ میں مندرجہ بالا تمام پیش رویان کو درپیش مشکلات کی داستان چھُپی ہے۔
محض دو برس قبل 26/27 جنوری 2018 کو قبائلی علاقوں میں سرکاری لینڈ مائنز کیخلاف مارچ کرنے والے 22 افراد میں سے 18 لڑکے وہ تھے جو اس سے قبل کبھی ڈیرہ اسماعیل خان سے باہر نہیں نکلے تھے۔ شہباز ستوریانی کے اصرار پر اسے پشتون مارچ کا نام دیا گیا حالانکہ منظوراس میں تردد سے کام لے رہا تھا کہ بالفرض اگر لوگ باہر نہیں نکلے تو بے عزتی ہو جانے کا احتمال تھا لیکن یہ بائیس لوگ اپنے مقصد کے ساتھ مخلص تھے لہذا اللہ کی مدد شاملِ حال ہو گئی۔
ان سبھی کو کوہاٹ پریس کلب کے باہر قتل کرنے کا سامان کر لیا گیا تھا لیکن عین وقت پر یار لوگوں کو اطلاع مل گئی اور یہ پرامن، نہتے نوجوان بجائے کوہاٹ سیدھے پشاور جا پہنچے۔ ان بائیس شیر دل جوانوں میں منظور پشتون، منظور محسود، شہباز ستوریانی، فصیح اللہ اور احمد وزیر، بختیار محسود، وقار، رضوان، حمزہ، زین، امین شاہ، مصطفیٰ، قدرت اللہ، احمد حسین ، قادر، ثناءاللہ، کلیم اللہ، شیراللہ بلال، عبدالوحید محسود اور بختیار باغی شامل تھے۔ محسن پشاور جبکہ علی وزیر اسلام آباد سے انکے ساتھ ملا۔ یوں محسود تحفظ موومنٹ اس مارچ کیبعد پشتون تحفظ موومنٹ میں تبدیل ہوئی۔
ایک چھوٹے سے علاقے کو بارودی سرنگوں سے پاک کروانے کیلئے نکلنے والے چند "ہِلے ہوئے لوگ" اسلامآباد پہنچے تو چند سو افراد تھے لیکن جب وہ اسلامآباد سے واپس آئے تو ملک بھر کے پشتونوں کی آنکھ کے تارے تھے۔ چہار سمت سے پڑھے لکھے پشتون نوجوانوں نے ان سے رابطہ کرنا شروع کر دیا اور مئی 2014 میں گومل یونیورسٹی کے 8 لڑکوں کی شروع کردہ تحریک جو جنوری 2018 میں محض 22 لوگوں کو مارچ کیلئے نکال سکی وہ اسلامآباد سے واپسی پر پشتونوں کے حقوق کی ایک موثر آواز بن گئی۔
باچا خان سے لیکر محترمہ بینظیر بھٹو تک جس جس نے انگریز کی باقیات کے استبداد سے عوام کیلئے حقوق چھیننے کی کوشش کی اسے بھارتی، افغانی، امریکی ایجنٹ کے تمغوں کیساتھ ساتھ الزام تراشیوں، قید و بند، جبری گمشدگی، قتل و غارت گری کی اگنی پریکشاء سے گزرنا پڑا۔ گو 2006 میں امریکہ کی "Akira to Zoltan: Twenty-Six Men, Who Changed The World" نامی کتاب میں باچا خان کا نام ان 26 لوگوں میں شامل کیا گیا جنکی جدوجہد نے دنیا کو بدل دیا لیکن آج بھی سرکاری پراپوگنڈہ مشین اس عظیم انسان کو ملک دشمنوں میں سرِ فہرست لکھتی پڑھتی ہے۔
مادرِ ملت فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے قتل کے اسباب واضع کرنے کیلئے ایک کتاب "My Brother" لکھی جسے قاتلوں نے اُسی بھائی کے آزاد کردہ ملک میں شائع تک نہیں ہونے دیا۔ الٹا قوم کی ماں کے کردار کی اس طریقے سے دھجیاں اُڑائی گئیں کہ گوجرانوالہ میں قاتلوں کا ایک آلہ کار غلام دستگیر خان مس جناح کے انتخابی نشان لالٹین کو ایک کُتیا کے گلے میں ڈال کر شہر بھر میں پھراتا رہا اور مقتدروں نے قومی اخبارات و ریڈیو سے اسکی بھرپور تشہیر کروا کر داد کے ڈونگرے سمیٹے۔
بھٹو پوری انسانی تاریخ میں اپنی طرح کا ایک ہی تھا۔ ایک راٹھ کے یہاں جنم لیا مگر انتہائی کم عُمری میں اپنی کمتر ذات سے لائی گئی ماں کیساتھ روا بدسلوکی سے متاثر ہو کر دالان میں خیمہ لگایا اور اعلان کر دیا کہ وہ آئیندہ اپنے مخملی بستر پر نہیں سوئے گا۔ اُس نے اس ملک کے غریبوں کیلئے جو کچھ کیا وہ دراصل اپنی ماں کیساتھ ہونے والی بدسلوکی کو ماڑے بندے کی زندگی سے نکالنے کی سعی تھی۔ غریب کو سینے سے لگاتے ہوئے بھٹو کو چاہے مخالفین سیاسی شعبدہ باز سمجھیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان سے بھٹو کو اپنی ماں کی خوشبو آتی تھی اور انکی غلامی کی زنجیریں کاٹتے ہوئے وہ درپردہ اپنی ماں کو مبنی بر تعصب رواجات سے آزاد کروا رہا تھا۔
جبکہ خاکی بُتوں اور انکے ہاتھ بندھے پُجاریوں نے بھٹو صاحب کو اُنہی لوگوں میں کہ جنہیں ذات پات اونچ نیچ سے نکالنے کے جُرم میں وہ قلندر پھانسی جھُولا، آجدن تک متنازعہ بنا رکھا ہے۔
بی بی صاحبہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ انکے باپ کی کمزوری اس ملک کے پِسے ہوئے طبقات تھے۔ وہ جب جب غریبوں سے ملیں تب تب کارکنوں نے انہیں روتے دیکھا، شائید ہی کوئی سمجھ پایا ہو کہ یہ رئیس زادی اس بات کو روتی ہے کہ اسکے باپ کا عشق، اس ملک کا غریب، بھٹو اور اسکے بیٹوں کی قربانی لگنے کے باوجود آزادی حاصل نہیں کرسکا۔ جو کارساز دھماکوں سے ڈرنے کی بجائے کارکنوں کیساتھ صفِ ماتم پر جا بیٹھی وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اگر وہ باز نہ آئی تو اسے بھی چُپ کرا دیا جائے گا لیکن وہ ڈٹ گئی لہذا ماری گئی۔
یہ کوئی نارمل لوگ نہیں تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں اُن لوگوں کیلئے وقف کر دیں جو اُنکے کچھ نہیں لگتے تھے۔ باچا خان کو ڈرانے کیلئے اسکے سگے بھائی کو قتل کیا گیا، فاطمہ جناح، بھٹو صاحب اور محترمہ کو انکے کارکنوں، عزیز و اقرباء کے جنازے دکھا کر ڈرا ناں پائے تو قتل کر دیا گیا اور آج اسی آگ سے منظور پشتین اور اسکے ساتھیوں کو گزارا جا رہا ہے۔ افغانی یا بھارتی ایجنٹی کا روائیتی الزام ایکطرف، پروفیسر ارمان لونی سمیت وانا بازار اور خرکمر کی 26 لاشیں اور سینکڑوں کی ماورائے عدالت گرفتاریاں، جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنا ماضی ہوا، کل رات منظور پشتین کو اٹھا کر اس نظام نے اپنے گلے سڑے جسم کی سرانڈ سے ماحول کو آلودہ کر دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کارکن جو کسی وجہ سے غیر متحرک بیٹھا تھا اسے لڑنے کی وجہ دیدی گئی ہے۔ باچا خانی فلسفے کے امانتدار افراسیاب خٹک اور بھٹو خاندان کے وفادار فرحت اللہ بابر کی پہلے باقاعدہ احتجاج میں موجودگی اس بات کا اعلان ہے کہ اس ملک کے اصل مالک جاگ رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب انہی تین قوتوں کا اتحاد بدماشیہ اور اسکے نئے پرانے چٹے بٹوں کی بیخ کنی کرے گا۔
افسوس کہ فاطمہ جناح کی مسلم لیگ کی نمائیندگی وہاں موجود نہیں تھی وہ شائید اسلیئے کہ آج اُسی غلام دستگیر خان کا بیٹا مس جناح کی مسلم لیگ میں ٹھیکیدار لگا ہوا ہے۔ یہ لڑائی ایکدن اپنے منطقی انجام کو ضرور پہنچے گی اور اسمیں عوامی حقوق کی بات کرنے والوں کی حتمی فتح یقینی ہے صرف تھوڑی سی جہالت اور یاوا گوئی سے پیچھا چھڑانے کی ضرورت ہے۔ اگر آپکو منظور کی پشتو تقریر سمجھ نہیں آتی تو اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک کا نمائیندہ ہے۔ پشتین اُتنا ہی افغانی یا بھارتی ایجنٹ ہے جتنا کبھی باچا خان تھا یا فاطمہ جناح یا پھر ذوالفقار علی بھٹو اور اسکی بیٹی تھے۔ اس ملک میں ملاں مسلم لیگ اتحاد نے روزِ اول سے بدماشیہ کی چوکھٹ پر سر رکھا ہوا ہے اور وہ ہر اس آواز کیخلاف آلہ کار بنتے آئے ہیں جس نے بدماشیہ کے حقِ حکمرانی کو چیلنج کیا ہے۔
آج اگر دائیں بازو سے مولانا فضل الرحمٰن، شاہ اویس نورانی اور نواز شریف قدرے بجانب حق کھڑے ہیں تو اس موقع کو ضائع کرنا حماقت ہوگی۔ باچا خان مرکز پشتون سیادت کی جلن میں اگر منظور پشتین اور ساتھیوں سے فاصلہ رکھتا ہے تو کوئی اسفندیار ولی کو سمجھاتا کیوں نہیں کہ یہ نوجوان اُسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں چالیس برس قبل اسکا باپ اور ستر سال پہلے اسکا دادا موجود تھے اور وہ اُس جگہ کھڑا ہو گیا ہے جہاں پچھلے زمانوں کے ابن الوقت کھڑے تھے اور جنکی مسابقتی سوچ نے بدماشیہ کے ناگ کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔ پشتون، بلوچ، کشمیری اور سندھی پچھلے بہتر سالوں سے انسانی حقوق کی جو لڑائی لڑتے آئے ہیں آج اسکی مشعل پشتین کے ہاتھ میں ہے اور یہ مشعل اس نے کسی حقدار سے چھینی نہیں بلکہ انقلابی تاریخ رکھنے والوں نے مشعالِ حُریت جس چوبی طاقچے کو سونپ کر Status Co سیاست کی راہداریوں میں قدم رکھا تھا وہ انقلابیوں کا پیچھا کرتے کرتے اتفاق سے اُسی طاقچے تک آ گیا ہے۔ آگے پیچھے اندھیرا تھا سو اس نے یہ مشعل لپک لی ہے۔
اب حقداران پلٹ آئیں یا منظور بھٹو اور باچا خان کے لہو سے روشن یہ شمع لیکر ان کو جا ملے بحر صورت روشنی کا سفر جاری رہنا ہے۔ بدماشیہ نام کا منہ ذور جانور صرف اسی مشعل سے بِدکتا ہے اور ویسے بھی منظور پشتین پیشے کے اعتبار سے جانوروں کا ڈاکٹر ہے اور اس بدمعاش جانور کا علاج کرنے کیلئے بلاول بھٹو اور ایمل ولی خان کو ڈاکٹر منظور پشتین کی اشد ضرورت ہے۔