حکمت اور ذہانت میں فرق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اہم فرق کی طرف ہماری توجہ بہت کم جاتی ہے اوروہ ہے ذہانت اور حکمت کا فرق۔ ذہین شخص کو انگریزی میں اِنٹیلیجنٹ اور بہت زیادہ ذہین شخص کو انگریزی میں جینئس کہتے ہیں۔ اِسی طرح حکیم یعنی حکمت کے مالک شخص کو انگریزی میں ’’وائز‘‘ جبکہ حکمت کو وِزڈم کہتے ہیں۔ حکمت عربی کا لفظ ہے۔ اس کے لیے اردو میں ایک اورلفظ ’’دانائی‘‘ بھی استعمال ہوتاہے۔ اسی طرح حکیم کے مترادف ’’دانا‘‘ کا لفظ استعمال ہوتاہے۔
اب نوٹ کرنے والا خاص فرق کیا ہے؟
ذہانت یا بہت زیادہ ذہانت یعنی جینئس ہونا خالصتاً عقلی سرگرمی کی بدولت ہے جبکہ حکمت یا دانائی صرف عقلی سرگرمی نہیں بلکہ اس میں ایک خاص قسم کی وجدانی رہنمائی بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمت ہو یا دانائی اس میں ’’شَر‘‘ کو مطلق دخل نہیں۔ کوئی بھی کسی حکمت والے شخص کے بارے میں یہ نہیں سوچتا کہ وہ برائی کے لیے اپنی ذہانت کو استعمال کرسکتاہے۔ اردو میں تو یہ بات اور بھی نمایاں ہے۔ ہم کبھی نہیں سوچ سکتے کہ ایک ’’دانا‘‘ شخص بُرا منصوبہ یعنی برائی پر مشتمل منصوبہ بناسکتاہے۔
اس کے برعکس ایک جینئس شخص اِیوَل جینئس بھی ہوسکتاہے یعنی وہ بُرائی کا منصوبہ بناسکتاہے۔ دنیاکے بہترین جاسوسی کے اداروں کے اہلکار اس کی مثال ہیں۔ دنیا میں اِیول جینئس لوگوں کی کمی نہیں اس لیے میں اس قسم کی ذہانت کو مزید وضاحت سے بیان کرنا موقوف کرتاہوں۔
لیکن وہ دوسری قسم، جسے میں نے حکمت، دانائی یا وزڈم کے الفاظ سے پکارا ہے، اپنی نوعیت کے اعتبار سے اعلیٰ انسانی خصلت ہے۔ ایک ایسی خصلت جس کی تدوین میں کسی طرح کی کچھ خاص رُوحانیت کو دخل ہے۔ غالباً اسلامی زبان میں اسے فراستِ مؤمن بھی کہاجاتاہے۔ یہ وہی فراستِ مؤمن ہے جس کے دلدادہ علامہ عنایت اللہ المشرقی ہوا کرتے تھے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک خاص ماحول اور تربیت کو دانائی کی تشکیل میں بہت دخل ہے لیکن پھر اِسی ’’ماحول اور تربیت‘‘ کے اجزأ میں سے ہی ’’غم اور مسلسل غم‘‘ سب سے انمول جزو ہے اور جس کا لازمی نتیجہ ’’صبر‘‘ جیسا ثمر ہے، اس پر مستزاد جس کا قطعی کوئی تعلق کیمیل ری ایکشنز والے ’’غم‘‘ سے نہیں، یہی وہ روحانیت ہے، جو اس کا محرّک ہے۔ یہ ایک تسلسل کا نام ہے جو دانائی کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتاہے یعنی یہ غم یا دیگر جذبات کی شدت کے مقابلے میں صبر کی نعمت سے مالامال ہوجانا، یہ ایک تسلسل اور تواتر کا نام ہے۔ ایک مسلسل ہوتا ہوا تجربہ، ہمیشہ کے لیے، تادم ِ آخر۔ اس کے علاوہ بھی کچھ روحانی اجزأ حکمت یا دانائی کی تعمیر و تشکیل میں لازم ہیں، جن میں ملامت نہایت اہم ہے، جس پر کسی اور وقت بات کرینگے۔ البتہ اس حقیقت سے انکار کیسے ممکن ہے کہ عقل کا بھی اس طرح کی اعلیٰ فطانت یعنی وزڈم یا دانائی کی ساخت میں خاصا بنیادی کردار ہے۔
الغرض حکمت ایسی ذہانت ہے جس میں خیر تو ہے لیکن شر نہیں، جس میں ٹھہراؤ ہے شور نہیں، جس میں صبر ہے زور نہیں۔ جو بالآخر سب سے درست فیصلہ کرنے کی انسانی صلاحیت ہے۔ قران نے بھی فرمایا،
من یؤتِ الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیرا
جس کو حکمت عطاکردی گئی پس اسے خیر کثیر عطا کردی گئی
اگرہم اس آیت کو استخراجی مقدمہ بنادیں تو کچھ یوں بنے گا،
انااعطنٰک الکوثر
ہم نے تجھے خیر کثیر عطا کی
من یؤتِ الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیرا
جس کو حکمت عطاکردی گئی پس اسے خیر کثیر عطا کردی گئی
۔۔
استنتاج:
انّا اعطینٰک الحکمۃ
ہم نے تجھے حکمت عطاکی
اگر کسی معاشرے میں ذہانت بڑھ جائے لیکن حکمت کم ہوجائے تو وہ معاشرہ مادی اعتبار سے تمدن کے عروج کو چھونے لگتاہے لیکن تاریخ میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے برعکس اگر کسی معاشرے میں حکمت فزوں تر ہو بمقابلہ ذہانت کے تو اس معاشرے کو تاریخی سطح کی بالادستی حاصل رہتی ہے اوراس قوم کا جسدِ لافانی دائمی دبدبے اور شان و شوکت کی خلعت زیبِ تن رکھتاہے۔ قدیم یونانی معاشرہ اس کی ایک مثال کے طور پر پیش کیاجاسکتاہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“