بے اعتبار دنیا سے ان کا یقین اٹھ چکا ہے . وہ سامانوں کا بوجھ اٹھاے ہجرت پر مجبور اور نہیں جانتے منزلوں کا سراغ ملے گا بھی یا نہیں . میں نے انھیں قطار میں دیکھا ہے . ان میں عورتیں بھی ہیں .معصوم بچیاں بھی . ان میں مرد بھی ہیں جن کے سروں پر سامان لدے ہیں . یہ یو پی اور بہار کے مزدور ہیں . ان کے پاس راشن نہیں . سواری نہیں . امید ہے . ایک موہوم کرن کہ کسی طرح اپنے وطن اپنے گھر پھچ جاییں . ایسے لوگ اس بات سے بھی واقف نہیں کہ روزگار نہیں ہوگا تو گھر پھچ کر بھی کیا کریں گے . حکومت وعدے تو کرتی ہے مگر وعدوں کی جھولیوں میں ہوتا کچھ نہیں ہے . میں نے دیکھا .ایک چھوٹی سی بچی چلتے چلتے بیٹھ گیی ہے کہ اب آگے چلنا مشکل ہے ماں . کچھ لوگ مفت چلنے والی بس پکڑنے میں کامیاب ہو گئے ہیں . دھکا مکی ، بھاری بھیڑ ، کون جانے اس میں کرونا کا کوئی مریض ہوا تو ..؟ یہ وبا کہاں تک پہچے گی ، کون جانے .
دعا کے دربار میں موت . تبلیغی جماعت کے بیسیوں مولاناؤں کو پولیس نے گرفتار کیا . کیی شہروں میں ممانعت کے باوجود جمعہ کی نماز میں بھیڑ نظر آیی . کچھ ویڈیو دیکھے ، جہاں پولیس مسجد سے نماز پڑھ کر نکلنے والوں پر ڈنڈے برسا رہی ہے. ایسا ہم کیوں کر رہے ہیں . جبکہ حکومت کی طرف سے یہ اعلان آ چکا ہے کہ یہ چار پانچ دن ہمارے لئے بیحد خوفناک ہو سکتے ہیں . اب کورونا سے مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے . اگر ہم ایک دوسرے تک وائرس پنھچاتے ہیں تو پھر تعداد اس حد تک بڑھ جائے گی کہ حکومت کا کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا .ہم یہ نہ بھولیں کہ کورونا سے دفاع کے لئے ہمارے پاس وینٹیلیٹر تک اچھی تعداد میں نہیں ہیں . ہمارے پاس چین ، امریکہ ، اٹلی کی طرح نہ فیسلیٹی ہے نہ ہمدرد ڈاکٹروں کی فوج . ہمارے ڈاکٹر بھی کرونا کے خوف سے زمین دوز ہو جاییں گے . اگر کرونا عذاب لے کر آیا تو ہم تہی دامن ہوں گے ..
ایک انجانی موت ہماری طرف قدم بڑھا چکی ہے . اس وقت ملک ہندو مسلم دشمنی کی کہانیوں تک کو بھول چکا ہے .لیکن ایک کہانی خاموشی سے سر نکال رہی ہے اور یہ کہانی نفرت کی دوسری کہانیوں سے زیادہ خوفناک ہے . سوشل ویب سائٹ پر کہا جا رہا ہے کہ ہندوستان میں وائرس مسلمانوں کی وجہ سے پھیل رہا ہے .کورونا سے مرنے والا پہلا شخص مسلمان تھا . اور یہ موت پٹنہ میں ہوئی . یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دبیی اور دوسرے مسلم ممالک سے آنے والوں نے ہندوستانی معاشرے کو وائرس کا تحفہ دیا ہے . مسجدوں کے نمازی بھی وائرس کو پھیلا رہے ہیں . کچھ دنو ن تک عبادت گاہیں سونی رہیں تو کیا ہو جائے گا ؟ ہم گھر کے اندر نماز کا حق ادا کر سکتے ہیں . کہتے ہیں کورونا کا وائرس آٹھ سے دس گھنٹے ہوا میں بھی رہتا ہے . یعنی فرض کیجئے کویی کورونا کا مریض اگر کسی جگہ سے گزرا اور آپ لاک داؤن کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس جگہ سے گزرے ، یا اس درمیاں آپ کے گھر کی کھڑکی دروازے کھلے رہے تو یہ وائرس آپ تک پھچ سکتا ہے . یہ کہا جا چکا ہے کہ ماسک صرف تسلی ہے اور بازار میں بکنے والے ماسک ہم کو راحت نہیں پنہچا سکتے .
اس میں شک نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ہم اب بھی احتیاط کا راستہ نہیں اپناتے تو موت ہمارے گھر کا دروازہ دیکھ لے گی .
اس میں شک نہیں کہ ہندوستان میں ایک دوسرے تک وائرس کے پہچنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جو خطرناک ہے . کیرلہ میں کوویڈ 19 مریضوں کی مجموعی تعداد 137 ہوگئی۔ ۔ مہاراشٹرا دوسرے نمبر پر ہے جہاں اب تک 130 سے زیادہ معاملات درج ہوئے ہیں۔
گجرات میں مجموعی طور پر ٥٠ افراد کا ٹیسٹ پازیٹو پایا گیا ۔ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران دو اموات ہوئیں۔ ریاست تلنگانہ میں کوویڈ 19 کے 45 کیس پاے گئے ۔ کرناٹک میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے .
دہلی میں اب تک ستر کوویڈ 19 واقعات دیکھنے میں آئے ہیں جبکہ ہریانہ میں 16 کورونا وائرس کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں۔ جموں و کشمیر اور لداخ میں بھی مریضوں کی تعداد بڑھی ہے .دنیا بھر میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد زد میں آ چکے ہیں . جبکہ ایجنسیاں بتا رہی ہیں کہ پچیس لاکھ سے زیادہ افراد زد میں آ چکے ہیں .
ہم موت کے انجانے خطروں کے درمیاں کھڑے ہیں اور نہیں جانتے کہ کون کب زمینی نقشے سے غائب ہو جائے . ہمارا کمزور ایمان اس وبایی موسم میں مسجدوں میں پناہ تلاش کر رہا ہے جبکہ الله ہر جگہ ہے اور دلوں میں بستا ہے . آنے والے چار پانچ دن ہندوستان کے لئے بیحد خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں . ہم نفرت کے اس کھیل سے بھی آگاہ رہیں کہ کرونا مہا ماری کی شکل میں پھیلا تو اسکی ذمہ داری بہت حد تک مسلمانوں پر ڈال دی جائے گی اور یہ کھیل شروع ہو چکا ہے.
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...