"مما مجھے یہ سلیولیس کرتی پہننے دیں ناں پلیز!" یہ جملہ ایک Modern Educated Mind کی 14 سال کی نادان بچی کا تھا جسکے ذہن پہ سمجھداری والی عمر میں پردے ڈلنا شروع ہوگئے تھے۔ عید کے دن بالوں کی خوبصورت کٹنگ بازوں سے ذرا نیچے آتی آستینیں اور گلے میں دوپٹے کے نام پہ سانپ جیسی پتلی رسی۔۔دنیا کی نظر میں وہ واقعی خوبصورت لگ رہی تھی۔۔پھر بھی کسی نے اسے یہ ضرور کہا تھا کہ "کہاں گئے تمہارے مسلمانوں والے کپڑے؟" کچھ سال ایسے ہی بیتے کے ایک بہت اچھی دوست اللہ نے زندگی میں فرشتے کی طرح بھیج دی، بہت اچھے گھر سے تعلق رکھنے والی باپردہ۔ اسے اچھا لگتا تھا جب اسکی دوست غیرمردوں کے آتے ہی اپنا نقاب آگے کرلیتی تھی۔ 3 سال بعد اس دوست کو نمرہ احمد کا ڈریمی ناول "جنت کے پتے" پڑھتے ریکھا تو اسکی بھی چاہ ہوئی اور ناول پڑھا، لیکن شاید سمجھا کبھی نہیں آیا شاید جنت کے پتوں سے کہیں زیادہ ذہن کے پردے تھے۔ وقت گزرتا گیا کہ وہ وقت بھی آگیا جب FSC کے ایگزامز سے فارغ ہو کر career کی بھاگ دوڑ شروع ہوگئ۔ ہر کوئی دعاوءں میں مگن۔ اس نے بھی خود غرض ہوکر اللہ سے یہ وعدہ کرلیا کہ اگر اسکا medical college میں ایڈمیشن ہوجائے تو وہ حجاب لینے لگےگی جیسے اللہ کو اسکے حجاب کی ضرورت ہو۔۔ استغفرللہ۔ بہت مننتوں اور دعاوءں کے بعد بھی اللہ نے اس میں بھتری نہ سمجھی۔۔ اور نہیں ہوا ایڈمیشن، دل ٹوٹا، خواب ٹوٹے، زندگی کا کھیل سمجھ آیا۔ ان سب میں اس لڑکی نے بھی یھی کیا جو آج لوگ کرتے ہیں۔ آللہ سے شکوے شکایتیں اور ناشکری۔ ضدی بن جانا کہ اللہ نے یہ نہیں دیا تو بس آج سے میری اور اسکی جنگ۔ پہلے نماز میں دعا مانگنا چھوڑی اور پھر نماز۔۔
رات کی تاریکی بس برے کاموں کے لیئے یوں ہی بدنام ہے۔ ضمیر کا "ض" بھی زندہ ہو تو تاریکیوں میں سے کھینچ ہی لاتا ہے۔ خالی نگاہیں،ٹوٹا دل،بکھرے ارمان اور تنہائی اللہ کے دائمی وجود کا ثبوت ضرور دیتے ہیں۔ دل میں خیال آیا کہ ساری زنذگی میں ایک چیز نہیں ملی تو یہ رویہ اور جو کچھ ملا اسکا کیا؟ ناشکری کا یہ عالم اور شکرانے کا ایک نفل بھی اعمال میں موجود نہیں۔۔ واہ رے! خودغرض اللہ کی بنائی مخلوق۔ بہت "Modern Educated Mind" نے شعور کی ایک سیڑھی تو طے کی اور اللہ کی رضا کے لیئے حجاب لیا۔تب لوگوں نے کہا "اسلام میں یہ نہیں ہے۔ ڈھانکنا ہے تو منہ ڈھانکو!" تو کچھ نے کہا "فیشن کی آگ لگی ہے اسلیئے سر ڈھانکا جا رہا ہے بس کچھ دن کی چمک ہے"
الحمداللہ فیشن کی آگ 4 سال تک لگی رہی۔ گھر میں شادیوں کا دور آیا، ناچ گانے اور ڈھول کی دھن پہ بجتی تالیایوں میں اسکی تالی بھی شامل ہوتی تھی۔ اور بدقسمتی سے مایوں کے دن ڈآنڈیہ میں اسکا نام سرفہرست تھا۔ اس دن دنیاوی چمک اتنی تھی ک حجاب پیچھے چھوٹ گیا۔ کمر سے نیچے آتے اور پھولوں کی لڑیوں میں سجے بالوں کی تعریف سب نے ہی کی لیکن دل 4 سال پرانے ساتھی کو چھوڑنے پہ اداس ضرور تھا۔۔شریفوں کے مجروں کی ویڈیوز ضرور بنائی جاتی ہیں تاکہ حالتءنزع کے وقت پرانی یادیں تازہ کی جاسکیں۔ (اللہ ہدایت دے مجھے) جسکا افسوس انتہاء سے ذیادہ ہے کیونکہ ہر کسی کی زندنگی میں میجر احمد نہیں ہوتے۔ تقریب اختتام پہ پہنچی تو کسی خیرخواہ نے کہا " بس ڈآنڈیہ کے لیئے اتر گیا حجاب؟" تکلیف ہوئی اور گھر آکر آنسوءں کا دریا بہا ڈالا۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ جو گناہ اس نے حجاب لے کر کیئے اللہ نے کبھی ان گناہوں کی وجہ سے اسکے اجر میں کمی نہیں آنے دی۔ ان دنوں وہ کراچی کی ایک "پوش" یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ جہاں کی جھوٹی چمک دیکھ کر اسکا حجاب اترا تو نہیں لیکن چھوٹا ہوتا چلا گیا۔ لڑکیوں کے خوبصورت لباس دیکھ کر ایک بار پھر وہ اپنے مقصد سے ڈگمگائی تھی لیکن بھٹکی نہیں تھی جسکی وجہ اس "پوش" دلدل میں پڑے کچھ سچے موتی تھے جو اسے اس سفر میں آگے بڑھنے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ (اللہ انہیں ہمیشہ خوش رکھے)اور وہ اپنا دل یہ کہ کر بہلالیتی کہ ایسے کپڑے پہننے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ سر تو ڈھکا ہے ناں۔ کاش اسے یہ خبر بھی ہوتی کہ سر کے ساتھ ساتھ "ذہن" بھی ڈھکا ہوا ہے،اس بات کا اندازہ تو تھا لیکن احساس تب ہوا جب ایک دن اسکول کی ری یونین پارٹی سے آئی ہی تھی کہ آماں ناجانے کب سے غصہ دبائے بیٹھی تھیں کہ کہا "تم اور تمھارے بےحیا کپڑے! خود بھی گناہ میں مبتلا ہو اور ہمیں بھی کیا ہوا ہے۔" اس نے خود پہ ایک نگاہ ڈالی بظاہر تو کپڑے ایسے ہرگز نہ تھے سوائے کاندھوں تک آتے حجاب اور نیچے موجود ٹائیڑز کے۔ اماں کا غصہ اتنی جلدی ٹھنڈا ہونے والا نہ تھا کہ پھر بولیں "اتار کر پھینک دو یہ 2 بالشت کا حجاب! اللہ کے واسطے ہم پہ رحم کرو اور اسلام کا مزاق بنانا بند کردو، خود کو دھوکے میں رکھنا بنر کرو۔ تم بےحیا تھیں اور بےحیا ھو!" اماں کے الفاظوں نے ایک حاضر جواب لڑکی کو لاجواب اور بےساکت چھوڑ دیا تھا۔
اسے لگا جیسے پچھلے 4 سال کی محنت کو بےحیائی کا نام دے دیا گیا تھا۔ ایسا لگا جسے موتیوں کا محل وہ سمجھ رہی تھی وہ دراصل محض کنکریوں کا ڈھیر تھا۔ سب بس معمولی ریت،کنکر اور مٹی بس۔۔ وہ رات کاٹنا واقعی مشکل تھی اور ذہن میں بس ایک ہی بات گھوم رہی تھی کہ اگر اپنی ماں کیلیئے بےحیا تھی تو وہ رب جسکے لیئے یہ سب کیا تھا وہ تو ماں سے ستر گناہ زیادہ چاھتا ہے مطلب اسکے لیئے تو وہ ستر گناہ زیادہ بےحیا ہوئی۔ کاش یہ دو بالشت کا ٹکڑا سر پہ رکھنے کے بجائے منہ پہ رکھا ھوتا تو آج اماں کی اور اللہ کی نظر میں ستر گناہ ذیادہ باحیا ھوتی۔ وہ جانتی تھی کہ آج نہیں تو کبھی نہیں۔ شاید یہ اسکی زندگی کا وہی موڑ ہے جو اسے چاہیئے تھا، جسکی ہمت وہ خود نہ کرسکی تھی۔ اگلے دن یونیورسٹی کے لیئے اپنا 2 سال سے رکھا سعودی عبایا نکالا اور استری سے جلا کر 5 سال پرانا پاکستانی عبایا پہن کر نقاب لگالیا۔
لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ "اسلام میں یہ نہیں ہے۔ تم extremist ہو رہی ہو" "تم نقاب صحیح نہیں کر رہیں تمھاری بنھویں دکھتی ہیں" اور آج یہ فخر سے کہ سکتی ہوں کہ یہ کہانی "میری" ہے اور میں لوگوں کے لیئے جینا شاید چھوڑ چکی ہوں تو اب فرق نہیں پڑتا کیونکہ انسان تو کبھی خوش نہیں ہوگا لیکن مجھے یقین ہے کہ ایک دن میں اپنے رب کے آگے ضرور سرخرو ہونگی۔۔۔ اللہ مجھے استقامت دے۔اللہ نے ہدایت دی،جنت کے پتے دیئے، حیا دی تو جیہان سکندر بھی وہ ہی دیگا۔ دل کی گہرائیوں سے۔ آمین۔۔
نہیں محتاج میری ذات مصنوعی سہاروں کی
حیا کی پاسداری سے مثال حور رہنے دو
مرے سر پہ جو چادر ہےمرے ایمان کاسایہ
اسی سائے کی ٹھنڈک سے ہر اک غم دور رہنے دو
میں اپنے دین پہ شیداں ہوں یہ میرا تاج ہے گویا
مرے اس دیں کی کرنوں کو مرا منشور رہنے دو
اجنبی مسافر