برصغیر پاک و ہند میں اردو زبان و ادب اور صحافت کے حوالے سے سب سے بڑا اور معروف علمی و ادبی گھرانہ رئیس امروہوی اور انور مقصود کا سمجھا جاتا ہے اور میرے خیال میں اس کے بعد حجاب عباسی صاحبہ کا گھرانہ ہے ۔ رئیس امروہوی، انور مقصود اور حجاب عباسی کے خاندان کے زیادہ تر افراد ادیب و شاعر پیدا ہوئے اور ہر ایک فرد نے علم و ادب کے شعبے سے وابستہ رہ کر علم و ادب کی خوب خدمت کی اور بڑی شہرت حاصل کی ہے ۔ انہی نامور علمی اور ادبی شخصیات میں سے ایک اہم نام محترمہ حجاب عباسی صاحبہ کا ہے۔ نسلی اعتبار سے بنو عباس کے شجرہ نسب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے حجاب کا خاندان خود کو عباسی کہلاتا ہے ۔ حجاب عباسی پاکستان کی معروف ادیبہ، شاعرہ اور ڈرامہ نگار ہیں ۔ ان کا اصل نام حجاب بانو ہے۔ یہ 14 اکتوبر 1954 کو کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد صاحب کا نام شعیب حزیں عباسی ہے جو کہ پاک و ہند میں معروف شاعر، ادیب، ڈرامہ نگار، اسکرپٹ رائٹر اور سینیئر براڈ کاسٹر ہو کر گزرے ہیں ۔ ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کے بعد ان کے والد صاحب شعیب حزیں عباسی دہلی بھارت سے ہجرت کر کے کراچی پاکستان منتقل ہو گئے ۔ شعیب حزیں عباسی صاحب دوران ملازمت لاہور میں روزنامہ امروز اور کوئٹہ میں روزنامہ زمانہ سے بھی وابستہ رہے ۔ انہوں نے تاریخ اسلام کے موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی جس کو انٹر کی تعلیم کے نصاب میں شامل کیا گیا ۔ وہ ڈرامہ نگار ،اسکرپٹ رائٹر اور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے دہلی، لاہور، کراچی اور کوئٹہ ریڈیو سے وابستہ رہے ۔
شاعری حجاب عباسی صاحبہ کو ورثے میں ملی ہے ۔ ان کے والد صاحب کے گھر میں ادبی نشستیں منعقد ہوا کرتی تھیں جن میں جگر مراد آبادی، تابش دہلوی، ہوش امروہوی، رضی اختر شوق اور سلیم احمد وغیرہ جیسی معتبر ادبی شخصیات شریک ہوتی تھیں ۔ حجاب صاحبہ کے والد شعیب حزیں صاحب کی دو بہنیں تھیں اور دونوں ہی شاعری کرتی تھیں جبکہ ان کے بھائی یعنی حجاب کے چچا اویس عباسی صاحب ایک مزاحیہ شاعر تھے ۔ حجاب نے خود 10 سال کی عمر سے شاعری شروع کی ان کی ایک بہن سیما غزل صاحبہ بھی نامور شاعرہ ہیں دوسری بہن نسرین نظامی ڈرامہ نگار ہیں بھائی زبیر عباسی ٹی وی کے ڈرامہ نگار ہیں اور ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں ۔ حجاب صاحبہ کی شاعری کی ابتدا بھی کمال کی ہے وہ 10 سال کی عمر کی تھیں کہ ایک روز ان کے والد صاحب کے ایک دوست شمس الدین بٹ صاحب ان کی مزاج پرسی کے لئے ان کے گھر آئے باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا کہ آپ کے بچوں میں سے کس کو شعر و ادب سے دلچسپی ہے تو انہوں نے حجاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بچی کو زیادہ دلچسپی ہے تو انہوں نے حجاب سے کہا کہ آپ مصرعہ سمجھتی ہیں انہوں نے اثبات میں جواب دیا جس پر بٹ صاحب نے ان کو یہ مصرعہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کو مکمل کریں وہ مصرعہ تھا
تیرا مرنا خوشی کی بات سہی
حجاب نے 10 منٹ کے بعد مصرعہ لگا دیا جس پر وہ شعر اس طرح بن گیا کہ
تیرا مرنا خوشی کی بات سہی
دفن کر کے اداس رہتی ہوں
جس پر بٹ صاحب نے پیشن گوئی کی کہ یہ بچی شعر و ادب میں بڑا نام پیدا کرے گی ۔ حجاب صاحبہ نے واقعی شعر و ادب میں بڑا نام پیدا کر کے بٹ صاحب کی پیشنگوئی کو سچ ثابت کیا ۔
شاعری میں حجاب کا کوئی باقاعدہ استاد تو نہیں البتہ وہ پروفیسر سحر انصاری صاحب سے کبھی کبھار اصلاح لیتی رہی ہیں ۔ حجاب کی بڑی بیٹی ثمینہ اعجاز ٹی وی ڈرامہ رائٹر ہیں اور وہ بیسٹ ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں ۔ حجاب صاحبہ کراچی سے شایع ہونے والے سہ ماہی ادبی رسالہ " ادب عالیہ " کی مدیرہ کی حیثیت سے ادبی خدمت بھی انجام دے رہی ہیں جبکہ وہ اپنی تنظیم " تخلیق کار " کے پلیٹ فارم سے بھی فعال کردار ادا کر رہی ہیں ۔ ان کو کوئٹہ ریڈیو کی پہلی نونہال آرٹسٹ ہونے کا فخریہ اعزاز بھی حاصل ہے ۔ وہ ریڈیو پاکستان کے لئے 100 کے لگ بھگ ڈرامے اور فیچرز لکھ چکی ہیں ۔ کراچی ریڈیو سے ان کا پروگرام " آو بچو کہانی سنو" اور ڈرامہ " بات ہے رسوائی کی " کو بہت شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی ۔ موجودہ ادبی صورتحال کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ادباء اور شعراء زیادہ تر ادبی گروہ اور گروپ بندی کا شکار ہیں جبکہ ادبی تنقید معیاری نہیں رہی ہے ۔ تنقیدی ادب کے نام پر دوستیاں نبھائی جا رہی ہیں ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ متشاعر لوگ بھی ہمارے ادب کے لیئے بڑا مسئلہ ہیں یہ متشاعر لوگ جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں اپنی دولت کے بل بوتے پر مفلس اور ضرورت مند شعراء سے ان کی شاعری خرید کر اپنے نام کر کے شعری مجموعے چھپوا کر شاعر اور شاعرہ کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا لیتے ہیں اور یہ سلسلہ میر اور غالب کے دور سے شروع ہو چکا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ میں خود ذاتی طور پر کچھ خواتین وحضرات کو جانتی ہوں جو کہ ایک مصرعہ بھی نہیں بنا سکتے لیکن وہ صاحب دیوان بنے ہوئے ہیں ۔
آخر میں حجاب صاحبہ کی ایک خوب صورت غزل آپ کے ذوق کی نذر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اکثر سوچتی ہوں ! زندگی کو کون لکھے گا
نہ میں لکھوں، تو پھر اس بے بسی کو کون لکھے گا
بہت مصروف ہیں اہل جہاں ہرزہ سرائی میں!
اب آشوب سخن میں، بے حسی کو کون لکھے گا
کئی صدیاں گزاریں منزلوں کے کھوج میں پھرتے
تو پھر میرے سوا، اس گمرہی کو کون لکھے گا
ہم اس شہر جفا پیشہ سے، کچھ امید کیا رکھیں
یہاں اس ہائو ہو میں ، خامشی کو کون لکھے گا
اسے فرصت نہیں ساحل، سمندر، موج لکھنے سے
پریشاں ہوں، مری تشنہ لبی کون لکھے گا
حجاب اس شہر نا پرساں میں، سب جھگڑا انا کا ہے
سرور خود پرستی میں، خودی کو کون لکھے گا
حجاب عباسی