کینسر کو سمجھنے کے لئے پہلے کچھ اصطلاحات
مائیٹوسس ۔ ایک خلیے کے تقسیم سے دو نئے خلیے بننا۔ اس میں ڈی این اے کھلتا ہے، دونوں خلیوں میں کاپی ہوتا ہے اور دو الگ خلیے بن جاتے ہیں۔
اپوپٹوسس ۔ خلیے کی خودکشی۔ ہر خلیے کی زندگی کی مدت اس کے پروگرام کا حصہ ہے۔ جلد کے خلیے کی چار ہفتے، خون کے سرخ خلیے کی چار ماہ۔ معدے کی لائننگ کے خلیے کی تین روز۔ اس مدت کے ختم ہونے کے بعد یہ خلیہ ایک طریقے سے اپنے آپ کو ختم کر لیتا ہے۔ اپنے اجزاء ادھر ادھر پکڑا دیتا ہے تا کہ استعمال ہو سکیں۔ اگر مائیٹوسس کے عمل کے دوران غلطی رہ جائے جو ٹھیک نہ کی جا سکے تو بھی اپوپٹوسس کا عمل شروع ہو کر ایسے ایبنارمل خلیے کو ختم کر دیتا ہے تا کہ جاندار ٹھیک رہ سکے۔
پروٹو اونکو جینز ۔ یہ خلیاتی تقسیم کے عمل کو بڑھنے اور تقسیم ہونے پر آمادہ کرتی ہیں۔
ٹیومر سپریسر جینز ۔ یہ خلیاتی تقسیم کو سست کرتی ہیں۔ پروٹو اونکو جینز اور ان کا آپس میں توازن رہتا ہے اور اس توازن کی وجہ سے خلیہ اپنے وقت پر تقسیم ہوتا ہے۔
کینسر ۔ اگر پروٹو اونکو جینز میں میوٹیشن کی وجہ سے ایک خلیہ تقسیم در تقسیم ہونے کا بے قابو عمل شروع کر دے تو وہ یہی غلطی اپنی کاپی میں بھی لے جائے گا۔ دن میں ایک مرتبہ خلیاتی تقسیم میں ایسی غلطی ہو جانا معمول کی بات ہے۔ اس کے خلاف جسم کا دفاع اپوپٹوسس ہے یعنی کہ ایسی خرابی والا خلیہ خودکشی کر لے گا تا کہ زیادہ نہ پھیلے۔ اگر یہ عمل ناکام ہو جائے تو پھر ایسی خرابی والا خلیہ پھیلنا شروع کر دے گا۔ ایسے بے قابو خلیے جن میں خود کشی کا طریقہ بھی خراب ہو چکا ہو، یہ کینسر والے خلیے ہیں۔ تقسیم ہو کر یہ اپنی غلطیاں اپنے پڑوس تک پھیلانا شروع کر دے گا اور یہ کینسر ہے۔
پھر ان خلیوں کو وسائل درکار ہوں گے۔ خون کی سپلائی لینا شروع کر دیں گے۔ جب یہ اپنی خون کی شریانیں بنا کر خون کی سپلائی سے مل جائیں گے تو خون کے راستے باقی جگہوں پر پھیلیں گے۔ یہ میٹاسٹیسس ہے۔ اور کسی کے لئے بھی ایک تکلیف دہ بیماری کا آغاز۔
علاج:
کینسر کے علاج کے تین بنیادی طریقے ہیں۔ ریڈیوتھراپی، کیمیوتھراپی اور سرجری۔ 49 فیصد میں علاج سرجری سے ہو جاتا ہے۔ 40 فیصد میں ریڈیوتھراپی سے جبکہ 11 فیصد میں کیمیوتھراپی سے۔
ریڈیوتھراپی میں کینسر والے خلیوں کا ڈی این اے ریڈی ایشن کی مدد سے توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تا کہ وہ اس قابل نہ رہیں کہ تقسیم ہو سکیں۔ جب ایک خلیہ تقسیم کے عمل کی درمیان میں ہوتا ہے تو اس طریقے سے اس کا ڈی این اے آسانی سے ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک طریقے سے یہ اس ناکام ہونے والے اپوپٹوسس (خلیاتی خودکشی) کا عمل کروانے کا مصنوعی طریقہ ہے۔ اس کو ایکس ریز کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ ایکس رے اس ڈی این اے کے ایٹموں سے ٹکراتی ہیں۔ ان کے الیکٹرانز کو بکھیر دیتی ہیں اور ڈی این اے کا بانڈ ٹوٹ جاتا ہے۔
اگر ان ایکس ریز کو مختلف سمتوں سے پھینکا جائے تو یہ اس ڈی این اے کو زیادہ نقصان پہنچائیں گی۔ یہ ریڈیو تھراپی کا اصول ہے۔ ریڈیو تھراپی میں مریض ایک بڑی مشین کے اندر لیٹ جاتا ہے اور اس میں ریڈی ایشن کی بمباری کی جاتی ہے۔ 360 درجے پر گھوم سکنے والا آلہ جینٹری ایکس رے خارج کرتا ہے۔ اس کی مقدار، شکل اور سمت کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے تا کہ یہ کینسر سے متاثرہ خلیوں کو ٹھیک نشانے پر لگ کر نقصان پہنچائیں۔
یہ ایکس رے پارٹیکل ایکسلیریٹر سے پیدا ہوتی ہیں۔ ایک دھات سے الیکٹران نکلالے جاتے ہیں۔ ان کی رفتار کو بڑھایا جاتا ہے، اس وقت تک جب یہ اتنی توانائی حاصل کر لیں جتنی کہ آپ کو ضرورت ہے۔ ان کو ایک ٹارگٹ سے ٹکرا کر ایکس رے کا اخراج ہوتا ہے۔ کولی میٹر اس شعاع کو سمت اور شکل دیتے ہیں۔
ایکس رے کا ایک مسئلہ ہے۔ یہ گزر جاتی ہے اور تمام جسم سے گزر جاتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر یہ متاثرہ حصے تک ہی رہے؟ یہاں پر اس کے علاج کی نئی جدت ہے جو پروٹون تھراپی کہلاتی ہے۔ فوٹون کے بجائے ہائیڈروجن کے نیوکلئیس جو مثبت چارج رکھتے ہوں، ان کو ٹکرا کر الیکٹرون کو ہٹانا سب سے زیادہ موثر ہے۔ یہ اپنے سفر میں سب سے زیادہ نقصان ٹیومر کو پہنچاتے ہیں۔ (تکنیکی اصطلاح بریگ پِیک ہے) اس میں فاصلے کو بہت ہی ایکوریٹ طریقے سے ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ نہ صرف صحت مند خلیے بڑی حد تک محفوظ رہتے ہیں بلکہ متاثرہ خلیوں کو پہنچنے والا نقصان بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
اس طریقے نے کئی طرح کے کینسر اور خاص طور پر بچوں میں اس کے علاج پر اچھے نتائج دئے ہیں لیکن اس کی ٹیکنالوجی آئی کہاں سے؟
یہ تحقیق پارٹیکل فزکس کا شعبہ ہے۔ اس میں پروٹون کی بیم کو ٹکرا کر فطرت کے چھوٹے ترین ذرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس کی مشہور مثال دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ سرن لیبارٹری میں لارج ہیڈرون کولائیڈر ہے۔ (اس پر تفصیل نیچے دئے گئے لنک سے)۔ اس کا ایک بڑا کارنامہ ہگز فیلڈ کی موجودگی کی تصدیق کرنا تھا۔ پارٹیکل ایکسلریٹر اور سنکٹرون دنیا میں کئی اور جگہ پر بھی سائنس کے تجربات کے لئے چل رہے ہیں۔ ان سب کو خالص سائنس کے لئے بنایا جاتا رہا ہے۔ اس تمام تحقیق میں کسی کے ذہن میں نہیں تھا کہ اس کی مدد سے کینسر کا علاج بھی کیا جا سکے گا۔ لیکن پروٹون تھراپی کا طریقہ پارٹیکل فزکس سے نکلا ہے۔ اس کا پہلا ٹریٹ منٹ سنٹر ہائیڈل برگ میں بنا جس کا لے آوٹ سرن کی تجربہ گاہ کی طرح کا ہے۔ سائز کا فرق ہے مگر پھر بھی یہ مشین چھ سو ٹن کی ہے۔ (پروٹون تھراپی کی ہلکی مشین بھی ڈیڑھ سو ٹن وزنی ہے)
پروٹون تھراپی ہر قسم کے کینسر کے لئے نہیں۔ لیکن جن کینسرز میں استعمال ہوا ہے، وہاں پر دوسرے طریقوں کے مقابلے میں بہتر نتائج دے رہا ہے۔ اب دنیا میں 70 سے زائد پروٹون تھراپی سنٹر کام کر رہے ہیں۔ یہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، پولینڈ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ، سویڈن، کوریا، اٹلی، چیک، چین، تائیوان، روس اور انڈیا میں ہیں۔