’’اللہ توبہ تم کیسے اس تمبوں نما کپڑے میں خود کو بند کئے رہتی ہو'' عمیرہ نے ہادیہ سے گلے ملنے کے بعد الگ ہوتے ہوئے کہا۔’’ اوپر سے ہاتھوں پردستانے پاؤں میں جرابیں پہنے ہوتی ہو' کیا تمہیں گرمی کا احساس نہیں ہوتا،میں تمھارے لئے اسی ملک کا حلال مشروب روح افزح بنا کر لاتی ہوں . میں جانتی ہوں تم مولوانیوں کے لئے غیر ملکی مشروبات مکروہ اور حرام ہیں‘‘ عمیرہ ہلکا سا طنز کرتے ہوئے کچن کی طرف چل پڑی۔
ہادیہ نے مشروب کا گلاس تھامتے ہوۓ مسکرا کر عمیرہ کی طرف دیکھا اور بولی' میں جب بھی تمھاری طرف آتی ہوں ہر بار یہی باتیں دہراتی ہو آخر ایسا کر کے تمہیں کیا ملتا ہے.
ملتا تو کچھ نہیں مگر حیران ہوتی ہوں گرمی ہو یا جاڑے کا موسم ایک طرح کی زندگی لباس پہناوا تھکا نہیں دیتا تمہیں''
ہادیہ صوفے سے اٹھ کر عمیرہ کے پاس آئی اور اطمینان بھرے لہجے میں بولی’’سنو؛ عمیرہ نامحرم اور محرم کی تمیز دنیا کا سب سے بڑا ثواب والا کام ہے. عورت سے جتنا ہو سکے پردے کا اہتمام کرے اور نامحرم آدمیوں کی نظروں میں آنے سے بچی رہے. جانتی ہو پردہ کرنے سے عورت زاد شیطان مردو دکے شر سے محفوظ رہتی ہے اور شیطان کا بس نہیں چلنے پاتا کہ عورت کو بہکا پھسلا کر نفسانی خواہشات کی طرف بھٹکا سکے. پردہ کرنے سے دشمن خدا شیطان ملعون جلتا کڑھتا ہے‘‘
’ایک بات پوچھوں ‘سوالیہ لہجے سے عمیرہ نے ہادیہ کو مخاطب کیا
’ہاں پوچھو‘
’کیا سچ میں شیطان اس تمبوں نما کپڑے سے رک جاتا ہے؟ تمھاری برادری کے مولویوں نے کتابوں میں شیطان کو جنت میں پہنچوا کر آدم و حوا کو شیطان سے بہکوایا اور زمین پر جبراً پھینکوا دیا‘
دیکھوعمیرہ؛ ایسی باتیں مت کیا کرو اللہ پاک سے معافی مانگو اور استغفار کیا کرو' ایسی باتیں کفر اور گمراہی کا سبب بنتی ہیں، اسلاف اور اکابرین پر باتیں نہیں کیا کرتے جانتی ہو آج ہم ان ہی کی مرہون منت مسلمان ہیں وگرنہ ہم آج بھی رام رام ہنو مان کے نعرے لگا رہے ہوتے اور بتوں کے آگے سے لڈو اٹھا کر کھا رہے ہوتے۔
اف؛ ایک توتمھارے اسلاف اور اکابرین ۔حد ہوتی ہے لکیر کے فقیر ہونے کی. عمیرہ طنزیہ لہجے میں بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولی'' تو اسکا مطلب تقدیر ذمے دار نہیں اور ہدایت کے لئےقرآن مجید بھی کچھ نہیں ؟‘‘
استغفراللہ ہادیہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوۓ بولی’’ ایسا نہیں ہے پیاری۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اسلاف اور اکابرین نے قرآن مجید پڑھایا اور اس پہ عمل کرنا سکھایا۔‘‘
متفق ہوں تمھاری بات سے ہادیہ''ہمیں قرآن مجید اسلاف و اکابرین نے پڑھایا'سمجھایا مگر اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئےاپنے حساب سے ہمیں سکھایا اور سمجھایا. ذہن سازی کی تاکہ ہم عمر بھر ان کے محتاج رہیں..افسوس ہادیہ اسی لئے آج ہمارے ہر قول و فعل میں تضاد ہے۔ہم میں اتفاق نہیں. اتحاد نہیں.پیار نہیں. ہم نے دوریاں پیدا کر لیں اور ہر کسی کی نفی کرنے کے ساتھ لفظ کافر کی گردان رٹ لی..نفرت کے بیج بو دیئے. خوب ٹکڑے کئے ہیں'تمھارے پیشواؤں نے قرآن مجید کے' اس پہ مزید جبر یہ کیا کہ عام مسلمان کو قرآن مجید پر تحقیق کرنے سے روک دیا اور شرط عائد کر دی کہ قرآن کی تعلیمات بس وہی ہیں جو مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہیں اسکے علاوہ کوئی تعلیم نہیں.. گویا کہ تم لوگوں نے قرآن مجید پر بھی قبضہ جما لیا.. پھر مجھ جیسوں کو قرآن مجید پر تحقیق کرنے سے ناصرف محروم کیا الٹا خود سے غور کرنے کو گمراہی کہہ کہہ کے رد کر دیا' اس لئے کوئی ہماری بات ہی نہیں سنتا حالانکہ مجھ جیسے جتنے بھی مسلمان ہیں سب کا ایمان یہی ہے' قرآن مجید لاریب اور ہدایت والی کتاب ہے. اللہ کا کلام ہے.. ہمارے نزدیک تو یہ کتاب کبھی بھی گمراہ نہیں کر سکتی ہے۔۔۔معاف کرنا ہادیہ میرا ماننا ہے قرآن مجید پہ تحقیقی مطالعہ انسان کو خدا کے قریب لے جاتا ہے..ساتھ میں قدرت اور فطرت کے رازوں سے متعارف کرواتا ہے.. تم لوگوں نے مطالعہ پہ خوامخواہ ہی روک لگا رکھی ہے اپنے مفادات اور ترجیحات کی خاطر..
اب دیکھو ہادیہ؛ شیطان کی ہی بات لے لو. محرم نامحرم کا ہی نقطئہ نظر لے لو. تم کہتی ہو اس تمبوں نما کپڑے سے شیطان رک جاتا میں کہتی ہوں یہ تمبوں سے شیطان نہیں رکنے والا. شیطان تو دل اور دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے. اسی طرح محرم اور نا محرم کی تمیز کا فیصلہ انسان کا ایمان اور یقین کرتا ہے. انسان اشرف المخلوق ہے. احسن التقویم ہے. عقل و شعور کا مالک ہے. انسان کی معرفت اور علم کی معراج فرشتوں سے کہیں بڑھ کر ہے. اللہ پاک نے انسان کو جو عزت و تکریم دی ہرگز کسی اور مخلوق کو نہیں دیں.
عمیرہ عمیرہ عمیرہ ؛ مزید تم سے بحث میں الجھ کر میں گناہ گار نہیں ہونا چاہتی. تم لبرل طبقے سے تعلق رکھتی ہو. تم نے دینی تعلیم حاصل نہیں کیں صرف دنیاوی علم کے اردگرد تمھاری سوچ اور شعور ہے جبکہ تمہیں معلوم ہی نہیں دنیا اور دین میں فرق کا..مہربانی کیا کرو یوں مباحث میں مت الجھا کرو. جہنمی مت بنو ۔ہادیہ نے پھر عمیرہ کو تنبیہ والے لہجے میں کہا–
لبرل'دنیاوی تعلیم'جہنمی ' یہ خوب ہتھیار ہوتا ہے تم مولویوں کے پاس عمیرہ نے طنزا کہا.
ڈراؤ دھمکاؤ کی پالیسی کے علاوہ کوئی اور وطیرہ بھی کبھی کبھار اپنا لیا کرو' کیوں اپنی مرضی سے زمین پر جہنمی اور جنتی کا فیصلہ کرنے لگ جاتے ہو تم مُلا لوگ. ویسے عجیب ہے خدا کے ماننے والے ہو کر خدائی فیصلے کرتے ہو.. عمیرہ نے پھر طنز بھرے جملے سے وار کیا' خیر یہ بھی ٹھیک ہے لوگوں نے خدا تو دیکھا نہیں..تم اور تمھارے طبقے کے لوگ ان بیچاروں کے لئے خدا کے نمائندے ہو۔چاہتے نا چاہتے ہوئے لوگوں کو وہی کرنا پڑتا ہے جیسا تم ملا حضرات کہو.. بےچاروں کو آج تک نہیں معلوم کہ وہ خدا اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مان رہیں ہیں یا تمھاری۔۔
—
اب بس بھی کرو تم تو پیچھے پڑ جاتی ہو مزید مت الجھو اور الجھاو مجھےعمیرہ ؛ ہادیہ نے ملتجیانہ لہجے میں ساری بحث سے فرار چاہتے ہوئے کہا.
——–
اچھا کیسے آنا ہوا عمیرہ نے ہادیہ سے سوالیہ انداز میں پوچھا' ہاں وہ آج درس میں سالانہ تقسیم اسناد کے سلسلہ میں جلسہ ہے. تمہیں شمولیت کی دعوت دینے آئی تھی. پھر ایسا بھی ہے تمھارے آنے سے مجھ پہ کام کا ذرا بوجھ ہلکا ہو جائے گا اور تمھاری مدد سے کام بھی آسانی سے نمٹ جائے گا' اچھا'' حیرت ہے ویسے تم کہتی ہو مدد صرف اللہ تعالی کی ہے تو پھر مجھ انسان سے مدد کی امید کیوں ؟ عمیرہ نے پھر ہادیہ پہ طنز کرتے ہوئے کہا' تم کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا عمیرہ'' اللہ کی پناہ تم سے ہادیہ نے مسکراتے ہوئےکہا' اچھا وہ سمیع سے بھی کہنا مغرب کے بعد مسجد میں آجائے گا. آج ملک کے نامور مولانہ صاحب آ رہے ہیں. شائد ان کا بیان سن کر تمھارے لفنگے بھائی کو اللہ پاک ہدایت نصیب کر دے. جب دیکھو موبائل پہ بات اور لڑکیوں کے پیچھے گھومتا رھتا ہے۔
یاد سے آ جانا دونوں اب میں چلتی ہوں بہت دیر ہو گئی ہے. اللہ حافظ عمیرہ؛ شام کو ملتے ہیں.
اللہ حافظ ہادیہ–
——-
مدرسہ بنات حوا کے سالانہ تقسیم اسناد کا سلسلہ ابھی تھوڑی دیر میں شروع ہو جائے گا۔جلسے کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا جاتا ہے" میں دعوت دیتا ہوں حضرت مولانہ قاری اشراف الحق صاحب کو کہ تلاوت قرآن کا شرف حاصل کریں.
تلاوت قرآن پاک شروع ہو گئی تھی ابھی تک عمیرہ نہیں آئی تھی. ہادیہ کے چہرے پر بےچینی اور انتظار کے اثرات لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے.. آہستہ آہستہ ہادیہ کا انتظار اور بےچینی مایوسی میں بدلنے لگی. اچانک کسی نے ہادیہ کی پشت کی جانب سے آنکھوں پرہاتھ رکھا..
عمیرہ مل گئی فرصت تمہیں. یاد آ گئی.ہادیہ نے خفگی بھرے لہجے میں کہا' ارے بڑی پہچان ہے تمہیں میری‘ عمیرہ نے ہادیہ سے سوال کیا" عمیرہ اس طرح کی اوٹ پٹانگ حرکت میری سہیلیوں میں تم ہی کرتی ہو ۔ہادیہ نے جلے بھنے لہجے میں کہا. اچھا بابا آ گئی ہوں اب تو موڈ ٹھیک کر لو اور ویسے آج بن سنور کر بہت پیاری لگ رہی ہو" آں ہا ،کیا بات ہے محترمہ‘‘ عمیرہ نے خوشامد بھرے لہجے میں ہادیہ کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
اتنی دیر کیوں ؟
ہادیہ تم تو جانتی ہو امی ابو کی وفات کے بعد میں اور سمیع گھر پہ اکیلے ہوتے ہیں۔ کھانا پکانا ،صفائی ستھرائی کتنے کام ہوتے ہیں. اور سمیع کا تم جانتی ہو کتنا لاپرواہ لڑکا ہے.. بڑے بھائی ارشد اور انکے بیوی بچے بیرون ملک ہوتے ہیں سال بعد چکر لگاتے ہیں.. تب کہیں جا کے مجھے بھابھی کی وجہ سے کام کاج سے تھوڑی فرصت ملتی ہے۔ بھائی کہہ رہے تھے کہ سمیع بی اے کر لے تو ہم بیرون شفٹ ہو جائینگے۔ عمیرہ سنجیدگی سے سب معاملات ہادیہ کو بتاتی گئی اور پھر چپ ہو گئی.
اچھا سمیع نہیں آیا ہادیہ نے پوچھا.. ہاں وہ گھر پہ ہے تمہیں تو معلوم ہے وہ جلسے اور مولویوں کے کتنا خلاف ہے.. چھوڑوسمیع کو عمیرہ نے بات بدلتے ہوئے کہا" اس بار تو پچھلی بار سے بھی زبردست انتظام ہے جلسے کا..کیا کہنے جی آپ مولویوں کے..عمیرہ نے طنزیہ تعریف کی..پھر بولی اچھا مجھےایک بات سمجھ نہیں آتی ہادیہ !یہ جلسہ ہر سال ہوتا ہے. درس بھی لڑکیوں کا ہے. پھر تقسیم اسناد پہ ہر سال مولویوں کو کیوں مدعو کیا جاتا ہے جبکہ مدرسہ میں معلمات بھی تو ہیں؛
تم بعض نہیں آنے والی۔ ہادیہ نے عمیرہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوۓ کہا" جب تمہیں نہیں معلوم تو مت پوچھا کرو ایسے سوال" تم بس یہ دیکھو کہ خواتین اور مرد حضرات کا علیحدہ علیحدہ بندوبست ہوتا ہے.. " او ہو " ہادیہ نے افسوس والے لہجے سے کہا دیکھو تم سے باتیں کرتے ہوۓ یاد بھی نہیں رہا' قاریہ رفیقہ کو لینے جانا تھا مجھے. انہوں نے کہلوا بھیجا تھا کہ جلسہ شروع ہو تو انہیں لینے آ جاؤں'عمیرہ پلیز تم پیچھے سے کام سنبھالنا میں ابھی آئی. ابو پوچھیں تو کہنا قاریہ کو لینے گئی ہوں—
———-
اندھیری اور ویران گلی میں"سانسیں چڑھی ہوئیں اور دل کی تیز دھڑکنوں کےساتھ' ہادیہ آخرکار گلی میں موجود ایک گھر کے پہلے سے کھلے دروازے میں داخل ہوتے ہی بولی. "پانی پانی" ارے کیا ہو گیا ہے۔ ہادیہ اتنی گھبرائی کیوں ہو؛ سمیع نے پوچھا. تم بس گلی میں جھانک کر تسلی کرو مجھے گھر میں داخل ہوتے ہوئے قاریہ رفیقہ نے تو نہیں دیکھا۔ ہادیہ نے تمبوں نما برقعہ اتارتے ہوۓ سمیع سے کہا.
نہیں تو گلی میں کوئی نہیں ہے اور ویسے بھی اس وقت بجلی بند ہے'کسی کو کیا پتہ کون آیا اور کون گیا سمیع نے تسلی بھرے لہجے میں جواب دیتے ہوۓ پانی کا گلاس ہادیہ کو تمھایا.
اچھا تم سچ میں آ گئیں۔ میں تو مذاق سمجھ رھا تھا سمیع نے شرارت بھرے لہجے میں ہادیہ سے کہا' اگر نہیں پسند تو میں چلی جاتی ہوں۔ ہادیہ نے برا مناتے ہوۓ ذرا سا قدم کو پیچھے کی جانب سرکایا ہی تھا' "سمیع نے پھر سے ہادیہ کو چڑاتے ہوئے کہا" سچ میں جانے کے لئے آئی ہو؛
سمیع بہت کمینے ہو تم' ہادیہ شرما کر سمیع کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی اور پھر مسکرا دی..
ہادیہ کا چہرہ اب گلاب کی طرح کھل رہا تھا چہرے پر پریشانی کے آثار چھٹ چکے تھےاور چہرے پر واضح طمانیت جھلک رہی تھی۔
"اچھا اب کیا کریں ہادیہ" سمیع نے معنی خیز نظروں سے ہادیہ کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
"وہی کچھ جو مجھے روز فون پر بولتے ہو"اور عجیب عجیب حرکتیں کرنے کو کہتے ہو..ایک ہی سانس میں پورا پانی سے بھرا گلاس پی کر ہادیہ نے سمیع کو خالی گلاس تھماتے ہوئے کہا.. سرد آہ بھرتے ہوۓ بولی' جانتے ہو سمیع؛ اس دن کی خاطر میں نے کتنا انتظار کیا ہے. ہادیہ کی بے چینی بڑھتی چلی گئی مگر بولتی رہی" جانتے ہو سمیع رات تھی جو مجھے کاٹے جاتی. تمھاری قربت اور جسم کے لمس کا احساس مجھے تڑپاتا رھتا."تم تو کال بند کر دیتے تھے" مگر؛ جو' جو جیسا'جیسا میں کرتی رہی"مجھے معلوم ہے' پر تسلی نہیں ہو پائی کبھی' نہ تشنگی بجھتی.. بےچینی تھی کہ رات رات بھر میرے ساتھ ہوتی میرا جسم ٹوٹتا مچلتا میں تڑپتی' ایک آگ کی بھٹی میں جلتے ہوۓ ٹھنڈی آہیں بھرتی" دعائیں کرتی. "یااللہ جلدی سے دوریاں مٹا اور قربتیں عطا فرما" دیکھو آج میری دعائیں قبول ہوئیں.. ہم ساتھ ہیں اکیلے ہیں.. آج سب دوریاں مٹیں گی پیاسیں بجھاؤں گی..
اس دن کے لئےمیں نے کیا کچھ نہیں سوچا تم میرے ساتھ یہ کرو گے وہ کرو گے کہتے ہوئے ہادیہ سمیع سے لپٹ گئی..
——-
دستانے جرابیں اور کپڑے صوفے پر پڑے تھے سمیع؛ ہادیہ کے جسم کو بوسے دیئےجا رھا تھا' ہادیہ سمیع کے ھاتھ پکڑ کر اپنے ابھرے ہوۓ سینے پر رکھتی تو کبھی پیٹ پر تو کبھی ناف کے نچلے حصے پر.. بے چینیاں بڑھتی جا رہی تھیں..ہادیہ آج مکمل ہونا چاہتی تھی سمیع کو زور سے بانہوں میں جکڑے ہوئےکچھ پڑھے جا رہی تھی کہ آیتیں اور باتیں آپس میں گڈ مڈ ہوئے جا رہیں تھیں. واضح کچھ سمجھ میں نہیں آ رھا تھا۔
سمیع نے پوچھا' ہادیہ یہ کیا پڑھ رہی ہو" ہاں ہادیہ چونکنے کے انداز میں بولی' وہ میں حفاظتی وظیفےکیے جا رہی ہوں' ان سے فائدہ یہ ہے کہ اللہ پاک ہمیں شیطان کے شر، مصیبتوں پریشانیوں اور لوگوں سے فرشتوں کے ذریعے ہماری حفاظت فرما رھا ہے.. تم بے فکر رہو آو بس جلدی سے کرو ہادیہ نے بے چینی سے کہا اب مزید انتظار نہیں ہو رھا مجھے مکمل کر دو سمیع' میرے وجود میں سما کر جلدی سے ایک ہو جاؤ..
—–
لیکن سمیع تھا اسکی توجہ ہادیہ سے ہٹ چکی تھی. وہ کانپ رھا تھا حالانکہ اس سے پہلے وہ نہ جانے کتنی لڑکیوں کے اندام کی لذت سے آشنا ہوچکاتھا اور پیاسیں بجھاتا رھا تھا..خوف خدا اس کے دل میں جاگ اٹھا تھا. حفاظتی وظائف سمیع پر اثر کر گئے.. ہادیہ کی ذات،پستان،ناف اور ننگے بدن سے سمیع بلکل بےنیاز ہو چکا تھا.. اسے خود سے کراہیت ہونے لگی،احساس ہونے لگا.. کہ وہ کتنا بڑا گناہگار ہے. اسی سوچ میں وہ اٹھا اور کپڑے پہننے لگا..
سمیع یہ کیا کر رہے ہو ہادیہ نے بے چین نظروں سے سمیع کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا اور سمیع کا ھاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچنا شروع کر دیا.
ہادیہ تمھاری اللہ پاک نے حفاظت کی، تم شیطان کے شر، لوگوں اور میرے شر سے محفوظ ہو مصیبت آنے سے پہلے بچ گئی.. سمیع نے نظریں جھکائے ہادیہ کا ھاتھ جھٹک کر خود سے الگ کرتے ہوۓ کہا.. مجھے معاف کر دو ہادیہ میرے بس میں نہیں ہے اب یہ سب کرنا تم بس چلی جاؤ..
سمیع تم یوں مجھے ادھورا کیسے چھوڑسکتے ہو ،پلیز ایسا مت کرو ،سمیع آو دیکھو تو سہی میں کتنی بے چین ہوں، کچھ تو ترس کھاؤ مجھ پر، صرف ایک بار مجھے مکمل کر دو ۔ہادیہ نے ملتجیانہ لہجے میں سمیع کی منت سماجت کی..
ہادیہ کہا نا تم سے کہ چلی جاؤ سمیع غصے سے بولا ..
ہادیہ بڑبڑاتی ہوئی سمیع کو اسکی نامردانگی کا طعنہ دیتے برا سا منہ بنائےکپڑے پہن کر چلی گئی.. اور سمیع وہاں بیٹھے ناجانے کتنی دیر روتا رھا۔
ٹھیک ہفتے بعد سمیع مسجد میں نماز پڑھ رھا تھا اچانک اسکے کانوں میں آواز پڑی
" مولانا صاحب کی بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی"
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1721068348159865/