(رائٹر ، فلمساز اور ہدایتکار یش چوپڑا پر ایک نوٹ ؛ پارٹ ۔ 2)
منظر؛ ممبئی، ادتیا چوپڑا کا کمرہ مطالعہ، ادِتیا چوپڑا کے ساتھ دیویکا بھگت بیٹھی ہے۔ ان کے سامنے میز پر ایک مسودہ پڑا ہے جس پررومن میں ”جب تک ہے جان“ لکھا ہے۔ میز پر پڑا ٹیبل لیمپ جل رہا ہے ۔ کمرہ نیم تاریکی میں ڈوبا ہے۔ وہ دونوں فلم کے مرکزی کردار ’ سمر آنند‘ پر گفتگو کر رہے ہیں۔ سمے؛ 2011ء کا وسطی مہینہ رات کا وقت ۔
ادِتیا ؛ ” کیا تمہیں سمر آنند کے کردار پر تسلی ہے ؟ “
دیویکا ؛ ” ہاں ، میں اس پر مطمئن ہوں ۔ “
ادِتیا ؛ ” تو کیا میں سکرپٹ پاپا کو دیکھنے کے لئے دے دوں ۔ “
دیویکا؛ ” ہاں ، اور ان سے یہ مشورہ بھی کر لینا کہ اس میں میرا اور سمر کے لَوو سینز (Love Scenes ) کے بعد کیا یہ زیادہ منطقی نہ ہو گا کہ میرا اس بچے کو جنم دے جس کی سالگرہ مناتے ہم نے اسے دکھایا ہے ۔ “
ادِتیا ؛ ” تم کہتی ہو تو میں یہ بات بھی ان سے کر لوں گا ، گو میں تم سے سہمت نہیں ہوں ۔ ایسا کرنے سے کہانی بکھر جائے گی ۔ “
۔ ۔ ۔ ۔
منظر ؛ ڈرائنگ روم میں یش چوپڑا اور ادِتیا صوفوں پر بیٹھے ہیں ۔ یش چوپڑا مسودے کے آخری صفحے دیکھ رہا ہے ۔ پھر وہ مسودہ ادِتیا کو پکڑاتا ہے ۔ سمے اکتوبر 2011 ء کا ایک دن ، شام کا وقت
یش ؛ ” بطور ہدایت کار ، یہ میری آخری فلم ہو گی ۔ یہ سفر اب تمہیں جاری رکھنا ہو گا ۔ “
ادتیا ؛ ” پاپا ، میں نے تو یہ سفر 1995 ء میں ہی شروع کر دیا تھا ، دل والے دلہنیا لے جائیں گے ، بنا کر ۔ “
یش ؛ ” وہ تو ٹھیک ہے ، لیکن میں چاہتا ہوں کہ اب تم باقاعدگی سے فلمیں ڈائریکٹ کرو میری طرح ۔ ۔ ۔ اپنے تایا کی طرح ۔ ۔ ۔ پروڈکشن اور سٹوڈیو وغیرہ کو میں دیکھ لوں گا ۔ “
ادتیا ؛ ” ٹھیک ہے پاپا ، لیکن ۔ ۔ ۔ “
یش ؛ ” لیکن کیا ؟ “
ادتیا ؛ ’’ پروڈکشن ہاﺅس ، سٹوڈیو ، میوزک کمپنی ۔ ۔ ۔ یہ سب ۔ ۔ یہ سب آپ کے لئے بہت ہیکٹک ( Hectic ) ہو گا ۔ “
یش بیٹے کو نظر بھر کر دیکھتا ہے ، کچھ کہنا چاہتا ہے ، لیکن کہہ نہیں پاتا ، وہ کچھ دیر سوچتا ہے ۔
یش؛ ” سمر آنند کے مکالموں میں کرائسٹ اور خدا سے ٹکراﺅ دِکھانا ضروری ہے کیا ؟ ۔ ۔ ۔ دیکھتا ہوں کہ تم مجھ سے میرا پیار چھین کر مجھے کب تک زندہ رکھتے ہو ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ۔ ۔ “
ادتیا ؛ ” میرا کے کرائسٹ پر وشواش کے مقابلے میں سمر کو اس سے لڑائی کرتا دکھانے سے سکرپٹ مضبوط ہوتا ہے ۔ میں اور دیویکا اس بات پر خاصی بحث کر چکے ہیں ۔ “
یش؛ ” یہ ’ ایس ہول ‘ ( Asshole ) اور ’ بِچ ( Bitch ) جیسے الفاظ کے بغیر گزارا نہیں ہو سکتا ۔ ۔ ۔ یہ کچھ زیادہ ہی بولڈ نہیں ہیں ؟ “
ادِتیا ؛ ” کَم اون پاپا ۔ ۔ ۔ صدی نہ صرف پلٹ چکی ہے بلکہ اس کی ایک دہائی گزرے بھی ایک سال ہو چکا ہے ۔ ۔ ۔ اس وقت بچے بچے کے منہ پر ایسے الفاظ ہیں ۔ “
یش ؛ ” اس کا مطلب ہے کہ تم مجھے گانے بھی اپنی مرضی سے شوٹ نہیں کرنے دو گے اور سیٹ بھی اپنی مرضی سے لگواﺅ گے ۔ “
ادِتیا ؛ ” وہ تو میں ’ دل تو پاگل ہے ‘ کے وقت سے کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔ زمانہ بدل چکا ہے پاپا ۔ ۔ ۔ آج کا فلم بین وہ دیکھنا چاہتا ہے جو کنٹیمپری ( contemporary ) ۔ ۔ ۔ ہم عصر زمانے کے مطابق ہو ۔ ۔ ۔ ۔ “
یش ایک بار پھر بیٹے کو دیکھتا ہے پھر ڈرائنگ روم کی اس کھڑکی کو تکتے لگتا ہے جو اس کے سامنے ہے اور جس پر لٹکے پردے سمندر سے آنے والی ہوا سے لہرا رہے ہیں ۔ وہ کچھ دیر خاموش رہتا ہے ۔
یش؛ ” اچھا ۔ ۔ ۔ تو ٹھیک ہے چلو شوٹنگ شروع کر تے ہیں ۔ “
ادتیا ؛ ” میں نے گلزار جی اور اے آر رحمٰن کو پہلے ہی اعتماد میں لے لیا ہے ، گیت لکھے جا رہے ہیں اور موسیقی بھی مرتب ہو رہی ہے ۔ شاہ رخ ، کترینا اور انوشکا سے بھی بات ہو گئی ہے ۔ معاونت کے کےلئے فوج سے بھی بات ہو گئی ہے ۔ ہم چند ہی ہفتوں میں شوٹنگ شروع کر سکتے ہیں ، پہلے سٹوڈیو میں ، کچھ لداخ ، کچھ کشمیر ا ور باقی کی لندن میں ۔ “
یش؛ ” میں کچھ شوٹنگ سوئس الپس میں بھی کرنا چاہتا ہوں ۔ “
ادِتیا؛ ” وہ بھی پلان کر لیں گے ، لندن میں شوٹنگ کے بعد ۔ “
۔ ۔ ۔ ۔
منظر؛ اندر کا منظر ، رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگاتے ہال میں سالگرہ منائی جا رہی ہے ؛ یہ یش چوپڑا کی 80 ویں سالگرہ ہے ۔ وہ حاضرین محفل سے خطاب کر رہا ہے ۔ سمے ؛ 27 ستمبر2012 ء ، شام کا وقت
یش؛ ” ۔ ۔ ۔ ’جب تک ہے جان‘ ، آخری فلم ہے جسے میں ڈائریکٹ کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔ اب یہ کام ادِتیا سنبھالے گا ۔ ۔ ۔ “
یش چوپڑا کی آواز میں تلخی اور افسردگی ہے ۔ وہ ایک نظر ادِتیا کو دیکھتا ہے پھر اس کی نظر اودھے پر جاتی ہے اور آخر پامیلا پر ٹک جاتی ہے ۔ پامیلا اس سے نظریں چُرا کر ادِتیا کی طرف دیکھنے لگتی ہے ۔ ادِتیا ماں سے نظریں چُراتا ہے اور رانی مکھر جی کو دیکھنے لگتا ہے جو مسکرا رہی ہے ۔ اودھے اپنی کسی گرل فرینڈ کے ساتھ گپیں لگا رہا ہے ۔
ہال میں ' اوہو ، نو ' ۔ ۔ ۔ ' اوہو نو ' کی آوازیں گونج جاتی ہیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔
منظر ؛ ممبئی ، بندرہ ، لیلاوتی ہسپتال ، پرائیوٹ کمرہ ، بستر پر 80 سالہ یش چوپڑا بستر پر لیٹا ہے ۔ کئی طبی آلات تاروں اور نالیوں کے ساتھ اس کے جسم سے جڑے ہیں ۔ اس کے پاس ایک ڈاکٹر اور دو نرسیں کھڑی ہیں ۔ پاس ہی ادِتیا ، اودھے اور پامیلا بھی موجود ہیں ۔ سمے ؛ 13، اکتوبر 2012 ء ، سہ پہر کا وقت ۔
ڈاکٹر ادِتیا کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے اور اسے لئے باہر کی طرف چلتا ہے ۔ پامیلا اور اودھے ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں ۔ وہ کمرے سے باہر نکلتے ہیں ۔
ڈاکٹر؛ ” انہیں ڈینگی نے کاٹا ہے اور اس سے چڑھا بخار ان کے مدافعتی نظام کومفلوج کر رہا ہے ۔ بھگوان سے بھلے کی پراتھنا کریں ۔ “
۔ ۔ ۔ ۔
یش چوپڑا کے کریا کرم کے بعد ادِتیا نے تیزی سے فلم ’ جب تک ہے جان ‘ کی پوسٹ پروڈکشن مکمل کی اور نومبر کے وسط میں اسے ’ یش راج فلمز‘ کے بینر تلے ریلیز کر دیا ۔ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی ؛ کچھ اچھی ہونے کی وجہ سے لیکن زیادہ تر اس وجہ سے کہ یش چوپڑا کو فوت ہوئے تین ہفتے ہی ہوئے تھے ؛ فلم بینوں میں ' ہمدردی' کا عنصر تھا ، وہ اس کی ' سوان فلم ' ( Swan Film ) ضرور دیکھنا چاہتے تھے ( ادِتیا اس بات سے واقف تھا اس نے اسی لئے فلم کی ریلیز میں دیر نہ لگائی ) ۔ فلم نے 200 کروڑ روپے سے زائد کا بزنس کیا ۔
باپ کے کہے کے الٹ ادِتیا نے ’ ہدایت کاری ‘ کی طرف دھیان دینے کی بجائے ’ یش راج فلمز‘ کے سٹوڈیو ، میوزک کمپنی اور پروڈکشن کے معاملات پر بھائی کے ساتھ مل کر زیادہ دھیان دیا اور 2016 ء چڑھنے تک دس سے زائد فلموں میں سرمایہ کاری کرنے کے علاوہ ' یش راج سٹوڈیو ' کو’ ادھی گودریج ‘ اور ’ کمار بِرلا ‘ جیسے ہندوستانی سرمایہ کاروں اور دیگر فلمسازوں کے لئے بھی کھول دیا ۔ اس نے ’یش راج فلمز ‘ کے سکوپ کو جنوبی ہند کے سینما ( تامل ، تلیگو ) تک بھی پھیلایا ۔ ادِتیا نے ’سونی ٹی وی‘ ، ’ ڈزنی ‘ ، ’ آئی میکس کارپوریشن ‘ اور’ فلم کرافٹ ‘ ، اور ان جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے بھی کاروباری روابط استوار کئے اور ’ یش راج فلمز ‘ کا جھنڈا ہندوستان سے نکال کر دنیا بھر میں اونچا کردیا ۔
2016 ء میں اس نے ’ بے فکرے‘ نام کی فلم ریلیز کی ؛ اسے اس نے خود ہی لکھا تھا اور پروڈیوس کرنے کے علاوہ اس کی ہدایت کاری بھی کی ۔ پچاس دنوں میں تیار کی گئی یہ فلم ہندی کے علاوہ فرانسیسی میں بھی بنائی گئی تھی ؛ آدھی سے زیادہ فلم پیرس میں فلم بند کی گئی تھی ۔ یہ باکس آفس پر درمیانے درجے کی فلم ثابت ہوئی ۔
2018ء کے آنے تک اس نے فقط تین فلموں میں ہی اپنا سرمایہ لگایا البتہ فلموں کی تقسیم کاری ( ڈسٹریبوشن ) کا وہ کام جو اس نے 1998ء میں شروع کیا تھا وہ تسلسل سے جاری رکھا ۔ اِس برس ، یعنی 2018 ء میں’ یش راج فلمز‘ کے بینر تلے چار فلمیں ریلیز ہو رہی ہیں ؛ ان میں سے کوئی ایک بھی ادِتیا یا ادوھے کی اپنی نہیں ، بس ’ یش راج فلمز‘ کا بینر پروڈکشن اور ڈسٹریبیوشن کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ " ہچکی " اِس سال مارچ کے آخری ہفتے میں ریلیز ہوئی ۔
" ہچکی " کا شمار بھی بالی ووڈ کی اُن اَن گنت فلموں میں ہوتا ہے جو مغرب کے کسی ناول ، کہانی یا پہلے سے بنی فلم کی جربہ یا اس سے ماخوذ ہوتی ہیں ۔ میں یہاں ایک ایسی فلم کی مثال دوں گا جو ' dyslexia ' پر ہے ؛ عامر خان کی ’ تارے زمین پر‘ جو ' Thank You Mr. Falker ' سے نقل کی گئی تھی جسے امریکی مصنفہ ' پیٹریشیا پولاکو ' نے لکھا تھا ۔ یہ ' ٹریشا ' اور اس کے استاد ' فالکنر ' کی کہانی ہے جس نے ٹریشیا کے ’ dyslexia‘ میں اس کی مدد کی تھی ؛ یہ ایک طرح سے اس کی اپنی 'آٹو بایو ' فِکشن ہے ۔ عامر خان نے نہ صرف لڑکی کے کردار کو لڑکے میں بدلا بلکہ فلم کے کریڈٹس میں کہیں بھی ' پیٹریشیا پولا ' کو کا ذکر تک نہ کیا ۔ عامر خان اس بات سے انکاری ہے کہ اس نے ' تارے زمین پر ' کو ' Thank You Mr. Falker ' سے اٹھایا ہے ۔
" ہچکی " کے حوالے سے البتہ فرق یہ ہے کہ بالی ووڈ کے ہدایتکار ’ سدھارتھ پی ملہوترا ‘ نے اسے کتاب سے اخذ کرنے اور ہندی فلم میں ڈھالنے سے پہلے اس کے مصنف سے باقاعدہ طور پر ’ کاپی رائٹس ‘ حاصل کیے اور اس کا نام کریڈٹس میں شامل بھی کیا ۔ یہ بریڈ کوہن ( Brad Cohen ) کی آپ بیتی ’ فرنٹ آف دی کلاس ‘ ( Front of the Class: How Tourette Syndrome Made Me the Teacher I Never Had) ہے ۔
بریڈ کوہن چوالیس سالہ ایک ایسا امریکی ہے جو بچپن سے ہی ایک ایسے اعصابی مرض میں مبتلا رہا ہے جسے ’ ٹوریٹ سنڈروم ‘ ( Tourette Syndrome) کہتے ہیں ؛ یہ ایک ایسی نیورو سنڈروم ہے جس میں انسان کو اپنی کچھ حرکات اور آوازوں پر کنٹرول نہیں ہوتا ، ویسے ہی جیسے ہچکی لگنے پر بندہ اس کے ہاتھوں خود کو بے بس پاتا ہے ، ہچکی وقتی ہوتی ہے لیکن ٹوریٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی حرکات ا ور آوازیں بندے کے ساتھ عمر بھر رہتی ہیں ۔ ’ فرنٹ آف دی کلاس ‘ اس نے’ لیزا وِسوکی ‘ کے ساتھ مل کر لکھی جو 2005 ء میں شائع ہوئی تھی ۔ اسے ’ ہال مارک ہال آف فیم‘ ٹی وی کے لئے 2008 ء میں فلمایا بھی گیا تھا ۔ یہ ایک اچھی adaptation تھی ۔ اس میں بریڈ کا کردار میشیگن یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ' جیمز ووک ' نے ادا کیا تھا ؛ یہ اس کی پہلی فلم تھی ۔
بریڈ کوہن نے ’ ٹوریٹ سنڈروم ‘ کے باوجود اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی اور ابتدائی درس و تدریس کے کورسز بھی اعزاز کے ساتھ کامیابی سے پاس کیے البتہ بیس سے زائد انٹرویو دینے کے باوجود اسے پڑھانے کے لئے کوئی نوکری نہ مل سکی ۔ بالآخر ’ ماﺅنٹین ویو ایلیمنٹری سکول ‘ میں اسے دوسری اور تیسری کلاس پڑھانے کی نوکری مل گئی ۔ یوں وہ ابتدائی تعلیم کے حوالے سے آج اس مقام پر ہے کہ امریکہ میں اس کا کوئی ثانی نہیں ۔ اس نے اپنے نام سے ’ ٹوریٹ فاﺅنڈیشن ‘ بھی قائم کی اور اس حوالے سے وہ میڈیا اور لیکچرز کے ذریعے لوگوں میں جاگرتی ’ motivational ‘ تحریک بھی چلا رہا ہے ۔ وہ اپنی پہلی ’ ڈیٹنگ ‘ میں ناکام رہا لیکن دوسری بار وہ انٹر نیٹ کے ذریعے ’ نینسی‘ سے رابطہ میں آیا ؛ یہ کمپیوٹر ڈیٹنگ ایسی کامیاب رہی کہ وہ دونوں 2006 ء میں ازدواجی بندھن میں بندھ گئے ۔
’ سدھارتھ پی ملہوترا ‘ نے ہندی میں اس کتاب پر جو ابتدائی سکرپٹ تیار کیا تھا وہ ' آپ بیتی ' کے مطابق ایک مرد کردار پر ہی مبنی تھا ۔ بریڈ جس طرح نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا ، اسی طرح ’ سدھارتھ پی ملہوترا ‘ بھی بالی ووڈ کے کسی بھی پروڈکشن ہاﺅس کو اس سکرپٹ پر فلم بنانے کے لئے راضی نہ کر سکا البتہ جب وہ ادِتیا چوپڑا سے ملا تو اس نے یش راج چوپڑا کے پروڈکشن ہاﺅس سے اسے بنانے کی اجازت دی البتہ ’ سدھارتھ پی ملہوترا ‘ کو مشورہ دیا کہ وہ باقی تفصیلات پروڈیوسر منیش شرما سے طے کرے ۔ منیش شرما نے سکرپٹ دیکھا اور’ سدھارتھ پی ملہوترا ‘ کو کہا کہ اگر وہ سکرپٹ میں مرکزی کردار کو مرد کی بجائے عورت میں بدل دے تو وہ اس پر سرمایہ لگانے کو تیار ہے ۔
انکُر چوہدری ، امبرہیداپ ، گنیش پنڈت اور’ سدھارتھ پی ملہوترا ‘ سر جوڑ کر بیٹھے اور وہ سکرپٹ سامنے آیا جس پر فلم " ہچکی " بنی اور مردانہ کردار کی جگہ ’ نینا ماتھر‘ ( رانی مکھرجی ) نے لی ۔ سکرپٹ میں ایک اور تبدیلی بھی سامنے آئی ؛ ابتدائی تعلیم ( دوسری تیسری جماعت ) کی جگہ میٹرک نے لی اور فلم میں نینا ماتھر نویں جماعت میں سائنس کے مضامین پڑھاتی نظر آتی ہے ۔ بریڈ کی آپ بیتی کے اُس حصے کو بھی ہندی فلم سے نکال باہر کیا گیا ( جو ہال مارک کی بنائی فلم میں موجود ہے ) جس میں بریڈ اپنی پہلی ’ ڈیٹ ‘ میں ناکام رہتا ہے اور بعد میں نینسی اسے قبول کرتی اور اس سے شادی کرتی ہے ۔ نینا ماتھر فلم میں ریٹائر ہوتی تو دکھائی گئی ہے لیکن بِنا شادی کیے ۔ آپ بیتی میں طبقاتی تفاوت نظر نہیں آتا اور نہ ہی کسی ساتھی استاد سے رقابت لیکن " ہچکی " میں 9F کلاس میں وہی بچے ہیں جو جھوپڑپٹی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے سکول کی زمین پر سینٹ نوٹکر ہائی سکول نے قبضہ کر لیا ہوتا ہے ۔ اسی طرح درمیانے طبقے کی کمینگی سے بھرے ایک ساتھی استاد ’ واڈیا ‘ ، جو کلاس 9A کا ٹیچر اور سٹوڈنٹس کاﺅنسل کا انچارج ہے، کا کردار بھی فلم کا حصہ بنایا گیا ہے ۔
فلم " ہچکی " کے پلاٹ اور اس کے ماخذ کے حوالے سے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ؛ باقی آپ فلم میں دیکھئے ۔ آئیے اس فلم کے دیگر پہلوﺅں پر بات کرتے ہیں ۔ فلم میں رانی مکھر جی کی ’ ٹوریٹ سنڈروم ‘ کے حوالے سے عمدہ اداکاری قابل ستائش ہے ۔ جھوپڑپٹی علاقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کے کردار ادا کرنے والوں کی اداکاری بھی عمدہ ہے ، واڈیا کے کردار میں ' نیراج کبی ' نے بھی اچھا رول کیا ہے ۔ فلم کے ہدایت کار نے بھی اپنی ذہانت کا درست استعمال کیا ہے ۔ فلم کی موسیقی بھی اچھی ہے؛ ہیتیش سونِک اور جیشین رائل نے اس پر خاصی محنت کی ہے ، گیت کاروں نے بھی عمدہ بول لکھے ہیں ۔ اس کا البم ’ یش راج میوزک ‘ نے فلم کے آنے سے پہلے ہی ریلیز کر دیا تھا جو کچھ زیادہ مشہور نہ ہوا ؛ اس فلم کا گیت ’ کھول دے پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ البتہ بہت عمدہ ہے ۔ اویناش ارون نے سینماٹوگرافی بھی اچھی کی ہے اور کئی شاٹس ڈرون سے لیے ہیں ۔ یہاں اگر ’ ورشا چندانانی ‘ اور’ شلپامکھیجا ‘ کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہو گی ۔ فلم میں استعمال ہوئے سارے ملبوسات انہی نے تیار کئے ہیں ؛ انہوں نے رانی مکھر جی کے لباس ’ نینا ‘ کے کردار سے مناسبت رکھتے ہوئے انتہائی محنت کی ہے ؛ یہ سادہ ہیں لیکن بہت ہی گریس فُل ، نینا ( رانی مکھر جی ) کے چہرے پر نظر بعد میں جاتی ہے ، اس کے لباس پہلے ہی اُسے پہلے گرفت میں لے لیتے ہیں ۔
فلمی نقاد اس فلم کو ایک ’ کامیڈی ڈرامہ‘ کا نام دیتے ہیں جبکہ میرے نزدیک یہ ایک سنجیدہ فلم ہے ؛ ٹوٹے گھر ( طلاق شدہ جوڑے ) اور ' ٹوریٹ سنڈروم ' کی ماری بیٹی ، زندگی کی دوڑ میں دوسرے بچوں سے اپنا مذاق اُڑواتی لیکن خود کو منواتی بچی ۔ ۔ ۔ زن و مرد کی محبت سے خالی زندگی والی لڑکی ۔ ۔ ۔ ریٹائر ہوتی سپینسٹر (spinster) ۔ ۔ ۔ جھوپڑ پٹی کے سائیکلوں کو پنکچر لگاتے ، گاڑیاں رنگتے بچے اور بھنڈی کاٹتی اور ٹھیلے پر ماں کے ساتھ ترکاری بیچتی ہوئی بچیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ڈھونگ بھری مڈل کلاس اخلاقیات ؛ جس میں واڈیا تو ہے لیکن نینا سے محبت کرکے اس کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہیں ۔ ۔ ۔ یہ سب مل کر بھلا ’ مزاحیہ ڈرامہ ‘ کیسے ہو سکتے ہیں ؟
اس فلم میں مجھے ادِتیا چوپڑا یا اودھے کا کوئی کمال نظر نہیں آتا ، سوائے اس کے کہ یش چوپڑا نے بالی ووڈ میں ہالی ووڈ کے والٹ ڈزنی کی مانند کردار ادا کرتے ہوئے جو ’ انفراسٹرکچر ‘ ( infrastructure ) کھڑا کیا تھا ، جسے ادِتیا اور اس کے بھائی اودھے نے وراثت میں پایا ( یہ درست ہے کہ انہوں نے اسے مزید مضبوط کیا ہے ) ۔ ۔ ۔ ۔ یہ’ انفراسٹرکچر ‘ ہی اس فلم میں اس خاندان کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے ۔ ادِتیا ’ والٹ ڈزنی کمپنی ‘ کو ماڈل تصور کرتے ہوئے فلمی دنیا میں ہر وہ کام کر رہا ہے جو ڈزنی کمپنی نے کئے ۔ ادِتیا اس وقت جس ’ انٹرپرائز ‘ کا چیئرمین ہے اس کے اثاثوں کی مالیت رواں مالی سال میں 6500 کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ وہ ’ والٹ ڈزنی کمپنی ‘ کی مانند پیسہ تو بہت بنا رہا ہے ۔ وہ کئی ہدایتکاروں اور فلم پروڈکشن ہاﺅسز کو ’ یش چوپڑا فلمز ‘ میں سمو چکا ہے اور مزید کو بھی سمیٹ رہا ہے ۔ وہ شاید گودریج اور بِرلا جیسے سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر’ یش چوپڑا لینڈ ‘ بھی بنا لے لیکن مجھے ڈر ہے کہ وہ اپنے تایا اورباپ کی طرح ایک اچھا ہدایت کار کبھی نہ بن پائے گا ؛ بڑی خواہش تو الگ رہی وہ تو اپنے باپ کی ایک چھوٹی سے خواہش بھی پوری نہ کر پایا تھا ؛ یش چوپڑا چاہتا تھا کہ فلم ’ جب تک ہے جان ‘ کا ٹائیٹل سونگ ’ جب تک ہے جان ۔ ۔ ۔ ' جو ایک طرح سے اب ' سوان گیت ' بن چکا ہے ، کو ’ سوئس الپس ‘ ( Swiss Alps ) کے پہاڑوں میں شاہ رخ خان اور کترینا کیف پر طربیہ انداز میں بھی فلمائے اور فلم کا اختتام اس پر ہی کرے لیکن یش چوپڑا کے فوت ہونے پر ادِتیا نے اسے وہاں نہ فلمایا حالانکہ یہ نظم اس نے خود لکھی تھی اور یہ شاہ رخ خان کی آواز میں فلم کے آغاز میں بھی ہے ۔ ادِتیا نے اسے طربیہ انداز میں فلم کے اختتام پر برتا تو لیکن بیک گراﺅنڈ میں فلم کے کریڈٹس پر ( اسے فلم کو جلد سے جلد ریلیز کرنا تھا اور فلم بینوں کی یش چوپڑا سے محبت کو کیش کرنا تھا ) ۔
وہ 1995 ء سے 2016 ء تک صرف چار فلموں کی ہدایت کاری ہی کر سکا ہے ؛ ’بے فکرے ‘ کے بعد سے وہ اب تک ایک بھی فلم کی ہدایتکاری نہیں کر پایا اور 2020 ء تک ایسا کرنا اس کے شیڈول میں بھی نہیں ہے ۔
شاید ہر نئی نسل پچھلی نسل کی وراثت سے سب کچھ نہیں اٹھاتی ، وہی چُنتی ہے جو اسے خود سے مطابقت رکھتی نظر آتی ہے ۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ شاید زندگی کا چلن بھی یہی ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وضاحت ؛ سوان فلم ، سوان گیت وغیرہ ایسی تخلیق کو کہتے ہیں جو بندے کی آخری تخلیق ہو۔