فلپائن میں مارکوس آمریت کے خلاف جدوجہد اور قربانیاں دینے والوں کا میوزیم “ہیروز کی یادگار”
پاکستان میں فوجی آمریت دور کے جمہوری ہیروز کی یاد میں کچھ بھی نہیں۔
آج پانچ جولائی ہے اور 43 سال قبل آج کے دن ایک فوجی جرنیل ضیاالحق نے ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء کا نفاذ کیا تھا۔ یہ فوجی آمریت اگست 1988 تک جاری رھی جب ضیاالحق ایک طیارہ حادثے میں ھلاک ہو گیا۔
اسی دور میں فلپائن میں بھی مارکوس آمریت اقتدار میں تھی۔ 1986 میں ایک عوامی بغاوت کے بعد آمر مارکوس اور اس کی مشہور بیوی امیلدا مارکوس فلپائن سے فرار ہو گئے تھے۔ اس عوامی بغاوت کو “پیپلز پاور انقلاب” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ضیاالحق آمریت کے خلاف بے شمار عام لوگوں نے جدوجہد کی، پھانسیاں کوڑے جیلیں، جلاوطنی سب کچھ اس دور میں نظر آتا ہے۔ ان قربانیوں کی یاد میں آج پاکستان میں سوائے چند کتابوں کے کچھ بھی نہیں۔
فلپائن میں کیوزون سٹی میں 2000 میں ایک میوزیم بنایا گیا۔ جس کا نام ہے
The Bantayog ng mga Bayani (Monument of Heroes')
یعنی “ہیروز کی یادگار” میوزیم اور ریسرچ سنٹر
یہ میوزیم ان ہیروز کی یاد تازہ کرتا ہے جنہوں نے فرنینڈ مارکوس کی 21 سالہ آمریت کے خلاف جدوجہد اور قربانیاں دیں۔
فرنینڈ مارکوس نے 1965 سے 1986 تک فلپائن پر فوجی آمریت کے ذریعے حکومت کی تھی۔
“ہیروز کی یادگار” میوزیم کا میں نے بھی 2015 کے دوران وزٹ کیا ہوا ہے۔ اس کی ڈائریکٹر میری دوست ہے اس نے ہمیں پورے میوزیم کا وزٹ کرایا اور کہا اس کا بنیادی مقصد آج کے نوجوانوں کو فوجی آمریت کے نقصانات سے آگہی دینا ہے۔ اس کے ہم سکولوں کے بچوں کے لئے اس میوزیم کی وزٹ کو ممکن بناتے رھتے ہیں۔
اس میوزیم میں فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والے ہیروز کے استعمال کی اشیاء، کتب، انکی تحریروں، تقریروں کو محفوظ کیا گیا ہے۔ آمرانہ دور کے سیاہ اقدامات، اس کے معاشرہ اور خاص طور پر عورتوں نوجوانوں پر منفی اثرات کو مختلف ذریعوں سے محفوظ کیا گیا اور اسے لائیو پیش کیا جاتا ہے تا کہ لوگ آمریت کے اقدامات کو بھول نہ جائیں۔
نعرہ یہ بھی تھا Never Again # Never Forget#
یہ میوزیم 1965 سے لیکر 1986 تک کے آمرانہ دور کے اھم واقعات کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے پیپلز پاور انقلاب کے ایک سال کو بھی محفوظ کرتا ہے اور اسکی یاد ویڈیوز، فوٹو گرافس اور مختلف اشیاء کے ڈسپلے سے کرتا ہے۔
مرکزی گیلری کے ساتھ ایک Hall of Remembrance بھی ہے جس میں اس دور کے جمھوری ہیروز کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
پاکستان میں یہ کبھی ہوا ہی نہیں۔ جس پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کی گئی اس نے اپنے 1988 میں اقتدار میں آنے کے بعد کچھ ہیروز کو پلاٹ دے کے کر فارغ کر دیا، کچھ کو حکومتی نوکریاں مل گئیں۔ اور اکثر کو فراموش کر دیا گیا۔
اس کی دو دفعہ دوبارہ حکومت آئی مگر یہی سلسہ ہی دہرایا گیا۔ کوئی اس ضمن میں ٹھوس اقدام نہ اٹھایا گیا۔
ضیاالحق آمریت کے دور کی یادیں اب بھی تازہ ہیں، سندھ میں اب بھی حکومت پیپلز پارٹی کی ہے۔ اب بھی کچھ زیادہ دیر نہ ہوئی ہے۔
سندھ حکومت کسی ایک جگہ ضیاالحق آمریت کے دور کے ہیروز کا میوزیم بنانے کی منصوبہ بندی کرے، اس میں اس دور کے اہم واقعات، ہیروز کی جدوجہد، قربانیاں اور ان کی اشیاء کو محفوظ بنانے کا کام کیا جائے۔ اس قدم سے بھی آمرانہ مخالف شعور کو بلند کرنے میں مدد ملے گی۔
“ہیروز کی یادگار “
کیوزون سٹی فلپائن میں میوزیم کی چند تصویری جھلکیاں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...