“یہ مجھے پسند نہیں” ٹینگو نے پھر شکایت کی۔ “مجھے اس میں اِدھر اُدھر پھرنا مناسب نہیں لگتا”
“چپ کرو اور اسے پہنو” باس نے اسے کہا اور صاف ظاہر ہے ٹینگو نے اسے پہن لیا۔ باس ٹینگو سے قد بت میں آدھا تھا لیکن وہ ہوشیار شخص تھا۔ اگر انہوں نے ٹینگو کو ایک دُم دی ہوتی تو باس کے کہنے پر اسے بھی اپنی ٹانگوں کے درمیان لگا لیا ہوتا۔
“ایسی بھی بری نہیں” آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے ٹینگو کو اعتراف کرنا پڑا۔ اس نے اپنی طاقت ور چھاتی کو تان لیا اور اپنے چوڑے کندھوں کو پھیلا لیا۔ حتی کہ ایل جو باس کا پارٹنر تھا اور شاذو نادر ہی اپنا منہ کھولتا تھا، وہ بھی کہنے پر مجبور ہو گیا ” لڑکے ! تم تو خاصے وجیہہ ہو.”
اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ ٹینگو بہت اچھا لگ رہا تھا۔ پولیس اہل کار کی وردی شاید پیرس کے کسی اچھے درزی نے تیار کی تھی۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں ٹوپی کے نیچے زیادہ روشن نظر آتی تھیں اور وہ کافی حد تک پُر ذہانت لگتی تھیں۔
“اپنے آپ کو گھورنا اور دانت نکالنا بند کرو۔ “باس نے کہا “اور سنو یہ بہت آسان ہے۔ ایک کم عقل بھی یہ کر سکے گا چناچہ اگر تم پوری کوشش کرو تو تم بھی یہ کر سکتے ہو۔ سارا کام جو تم نے کرنا ہے وہ یہ کہ بس گلی میں اِدھر اُدھر گھومنا ہے۔ بہت آرام سے اور آہستہ آہستہ بالکل ایک اصلی سپاہی کے انداز میں۔ اس طرح اگر کسی کو گھر کے اندر ہمارے کام کا کھٹکا ہوتا ہے تو وہ سوال پوچھنا شروع نہیں ہوں گے۔ جب تک ہم باہر نہ آ جائیں ٹہلتے رہنا اور چند ثانیے ہماری آڑ بننے کے لیے مٹر گشت جاری رکھنا۔ بس اتنا ہی کرنا ہے۔ اب تم سمجھے؟”
“یقینًا” ٹینگو بولا۔ اس کی نظریں بد ستور آئینے پر بھٹک رہی تھیں۔
“پھر جاؤ اب.” باس نے کہا۔
ٹینگو گلی میں ٹہلنے سے کچھ مضطرب تھا, باس اور ایل اسے اس کام کے لیے منتخب کر چکے تھے لیکن کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہوا۔ جس گھر میں کام ہونا تھاوہ بلاک کے وسط میں تھا۔ ٹینگو نے اس جیسی گلی شاذ و نادر ہی دیکھی تھی کیونکہ وہ پیرس کے بوسیدہ کوارٹرز کےعلاقوں میں پرس چھیننا، دکانوں سے مال اڑانا اور مفت خوری جیسے چھوٹے موٹے کام کرتا تھا۔
وہ گزر گاہ پر ٹہلنے لگا، ایک نکڑ مڑا اور پلٹ آیا۔ جب وہ دوسری نکڑ مڑ رہا تھا اس نے ایک پولیس اہل کار کو دیکھا ۔ عموماً ایسا منظر اس کے قدموں کی حرکت تیز تر کر دیتا تھا۔ وہ خوفزدہ ہونے لگا۔ اس کی ہتھیلیاں پسینے سے تر ہو رہی تھیں۔ جب پولیس افسر اس سے چند قدم دور رہ گیا، اس نے اپنا بازو اٹھایا اور سلامی پیش کی۔ افسر نے پر سکون انداز میں جوابی سلامی پیش کی اور وہاں سے چلا گیا۔ ٹینگو کھڑا اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ اسے بہت انوکھا سا اور ممنونیت کا احساس ہوا۔ “بولو ! ” اس نے خود کلامی کی۔ “بتاؤ ، تم نےوہ دیکھا : میں نے سلام کیا اور اس نے فوراً ہی جواب دیا۔ میرا اندازہ ہے کہ میں اسے اچھا لگا ہوں۔ میرا خیال ہے اس نے زیادہ تر ایسے سپاہی نہیں دیکھے ہوں گے جو بہت اچھے نظر آتے ہیں۔ ”
کچھ مزید چکر لگانے کے بعد اسے نکڑ پر رکی ہوئی ایک عورت ملی۔ ٹینگو نے اس کے ہاتھ میں پھولا ہوا بٹوہ بھی نہ دیکھا۔ وہ اس کے سامنے ٹھہر گیا اسے سلام کیا اور مدد کے لیے اپنا بازو بڑھا دیا۔ اس عورت نے میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا “اوہ بہت شکریہ افسر !”
“براہِ مہربانی محترمہ ” ٹینگو بولا “شکریہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں” اس نے توقف کیا ” ہم یہاں اسی مقصد کے لیے ہیں ” اس نے مزید کہا اور فخریہ انداز میں اسے سلام پیش کیا۔
تب ایک خستہ حال آدمی اس کی جانب بڑھا۔ وہ ٹینگو کو دیکھتے ہی اس پر غرّایا ” گندے انڈے” وہ چلّایا ” وردی میں فضول گو آدمی ! میں تم پر تھوکتا ہوں. ” شرابی نے علی الاعلان کہا اور اس پر تھوک دیا۔ کوئی بات ٹینگو کے دماغ میں آئی، اس نے اپنے مضبوط ہاتھ سے شرابی کو پکڑا اور اسے گھسیٹتا ہوا گلی سے باہر لے گیا۔
جب باس اور ایل اپنا کام مکمل کر کے لوٹے تو ٹینگو رکنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
“تم احمق، تم کیا کر رہے ہو؟” باس نے غصے بھری سرگوشی میں پوچھا۔ “تم تمام کیے کرائے پر پانی پھیرنا چاہتے ہو؟” اور اس نے ٹینگو کے گال پر چانٹا رسید کر دیا۔
ناقابل بیان احساسات ٹینگو کے دماغ میں گھوم گئے۔ اسے افسر کو سلامی کا جواب یاد آیا ؛ خاتون کی میٹھی مسکراہٹ یاد آئی اور تب ہی اسے یاد آیا کہ شرابی نے کیا کہا تھا۔
وہ غصے کی آخری حد کو چھوتی طاقت کے ساتھ اٹھا جب کہ باس اور ایل اسے دہشت زدہ انداز میں گھورنے لگے۔ ٹینگو نے چمک دار پولیس سیٹی منہ میں دبائی اور با آواز بلند اتنی دیر تک بجائی کہ پیرس کی ساری پولیس اکٹھی ہو جاتی۔
“بد معاشو !
لٹیرو !
وہ دھاڑا.
“میں تمہیں گرفتار کرتا ہوں !
میں تمہیں قانون کے نام پر گرفتار کرتا ہوں.”
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
English Title:
Clothes make the man
Written by:
Henri Duvernois (4 March 1875 in Paris – 30 January 1937 in Paris) was a French novelist, playwright and screenwriter.
****
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 375 : وردی
تحریر: ہنری دوُ ویرنواء (فرانس)
مترجم: رومانیہ نور (ملتان)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...