::: " ہیمُوں کالانی: " شیر سندھ" آزادی ملک کا گمنام ستارہ " :::
ہیمُوں کالانی، سندہ کا انقلابی مزاحمتی اور ہندوستان کی تحریک آزادی کا گمنام شہید جن کو ہماری تاریخ نے بھلا دیا۔ آذادی کا یہ پروانہ آل انڈیا اسٹوڈنس فیڈریشن { AISF} کی طالب علوں کی زیلی سیاسی تنظیم' سوراج سینا" کے نوجوان رہنماوں میں شامل تھے۔ ان کو سندھ کا بھگت سنگھ اور " شیر سندھ " بھی کہا جاتا ہے۔
ہیمُوں کالانی 23مارچ، 1923 میں صوبہ سندھ کے شہر سکھر { پاکستان} میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پشومل کالانی پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ان کی والدہ کا نام جیتی بائی تھا۔ ان کے چچا منگرام کلانی بھی تحریک آزادی کے سرگرم رہنما تھے۔ ان کا ہیمُوں کالانیپر گہرا اثر تھا۔ انھوں نے پرانے سکھر کے کےتلک ہائی اسکول میں تعلیم پائی۔ اسکول کے زمانے میں ان کا پسندیدہ مضمون " ریاضی" تھا۔ وہ بچپن میں گاندھی جی کے تحریک آزادی کے نظرئیے سے متاثر ہوئے اور ہیمُوں کالانی نےغیر ملکی اور فرنگی اشیاء کا بائیکاٹ کیا۔ اور مقامی آبادی میں انھوں نے مقامی سامان کو خریدنے کی طرف لوگوں کو راغب کیا۔ اس کا مقصد انگریز استبداد سے چھٹکارا حاصل کرنا اور فرنگیوں سے نفرت کا اظہار تھا۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے ایک سرکاری موٹر کار کو نذرآتش بھی کیا تھا۔ 1942 میں انھوں نے مہاتما گاندھی کی " ہندوستان چھود دو" کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس زمانےمیں ان آزادی کے متوالوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے ایک خصوصی پلٹن { بٹالین} کو بھیجا تو آزادی کے ان متوالوں، جن میں ہیمُوں کالانی
پیش پیش تھے، انگریز کے اس منصوبے کو ناکام بنانے کا منصوبہ بنایا۔ جہان سے فوجی پلٹن کی ریل آنے والی تھی او پٹریوں کی " فش پلیٹ" اکھاڑنے کا منصوبہ بنایا۔ اور اپنے اس پلان کو پایہ تکمیل پانے کے لیے ان کے پاس "آوزار" نہیں تھے۔ اس لیے انھوں نے ریلوے کی پٹری کو اکھیڑنے کے لیے رسی کا استعمال کیا گیا۔ اکتوبر 1942 میں سوراج سینا کی " انقلابی کمان" کو یہ اطلاع ملی کہ انگریز فوج کے اہلکار ، گولہ بارود اور ہتھیاروں سے بھری ٹرین صوبہ سرحد { اب صوبہ پختوں خواہ} جارہی ہےجہاں پر غفار خان کے " خدائی خدمت گار" کے ایک جلسے کو کچلنے کے لیے روہٹری سے کوئٹہ جارہی تھی۔ ریلوے کے گارڈ نے اان کی آواز سنی اور " فش پلیٹ" اکھیڑتے ہوئے دیکھا، ہیمُوں کالانی کو گرفتار کرلیا گیا اور ان کے دو/2 ساتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ جیل میں ان سے ان کے ساتھیوں اور سہولت کاروں کے نام پوچھیے گئے ۔ ہیمُوں کالانی
نے فوجیوں کو اپنے ساتھیوں کے نام بتانے سے صاف انکار کردیا تو ان پر بے تحاشہ تشدد ہوکیا گیا۔ ان وقت سندھ میں مارشل لا لگا ہوا تھا۔ ان کو مقدمہ حیدرآباد اور سکھر میں چلایا گیا۔ اور انھیں موت کی سزا سنائی گئی۔ ہیمُوں کالانی، کےبھائی ٹچیک چند کالانی نے بتایا کہ" رحم کی اپیل کے لیے میرے والد بااثر انگریزں سے سے ملے۔ اور مارشل ایڈمنسٹریٹر کرنل رچرڈ سن سے بھی ملاقات کی تھی اور رحم کی درخواست بھی دی " جس پر ہزارہا لوگوں کے دستخط تھے۔ اس کے بعد سندھ کے عوام نے وائسرے ہند سے ہیمُوں کالانی، کے لیے رحم کی اپیل کی۔ وائسرے نے سزائے موت کا حکم واپس لینے کے لیے یہ شرط رکھی کہ وہ اس سازش اس سازش میں شریک لوگوں کی شناخت نشاندھی کی۔ ہیمُوں کالانی نے دو بار دریافت کرنے پر وائسرے کو معلومت فراھم کرنے سے انکار کردیا۔ اور اسے حقارت سے ٹھکرادیا اور ساتھ ہی کہا کہ " آزادی کو حاصل کرنے کے لیے گولہ بارود اور ہتھیاروں کا استعمال جائیز ہے"۔ سندھ کے اس سپوت کو 21، جنوری 1943 کو سکھرسنٹرل جیل نمبر2 میں تختہ دار پر چڑھادیا گیا۔ موت کے وقت ان کا وزن سات/7 پونڈ بڑھ گیا تھا۔ پھانسی پر چٹرھنے سے پہلے " انقلاب زندہ باد" ۔۔۔ بھارت ماتا کی جے" اور انگریزی میں HAIL FREEDOM کا نعرہ لگایا۔ موت کے وقت ان کی عمر انیس /19 سال تھی۔ ان کی شہادت کے بعد اندر بہادور کھرے نی ۔۔" ہیمُوں کالانی" کے عنوان سے ایک بہترین نظم لکھی تھی۔
پاکستان کے سابق وزیر قانون اور تعلیم عبد الحفیظ پیرزاداہ کے والد عبد الستار پیرزادہ نے ہیمُوں کالانی کے مقدمے کی پیروی کی تھی۔ آزادی کے بعد حکومت پاکستان نے سکھر میں "ہیمُوں کالانی پارک" کا نام تبدیل کرکے ۔۔"قاسم پارک"۔۔ کردیا۔ انکی شہادت کے بعد وزیراعظم ہند پنڈت جواہر لعل نہرو نے ان کی والدہ کے لیے سرکاری وطیفہ لگا دیا تھا۔
ہیمُوں کالانی کا خاندان تقسیم ہند کے بعد ممبئی کے مضافات چمبور کیمپ میں آن بسا۔ ان کے چھوٹے بھائی تجک چند 72 سال کی عمر میں اب بھی وہاں رہتے ہیں۔ ممبئی کے اکثریتی سندھی علاقے چمبور میں " ہیمُوں کالانی مارگ" ہے۔ اس طرح ہندوساںن کے کئی شہروں بھیل واڈہ، ٹونک، اجمیر شریف، کوٹہ بیکا نیر {راجھستان}، احمد آباد { گجرات}، کان پور سٹی، بنیچ ستی ،{ مدھیہ پردیش}، اور مہاراشتر کے کئی شہروں میں ہیمُوں کالانی کے نام سے کئی سڑکین، پارک، اور محلے موسوم ہیں۔
1983 میں بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے حکم پر بھارتی محکمہ ڈاک نے ہیمُوں کالانی پر ایک یادگار ڈاک کا ٹکٹ جاری کیا۔ افسوس پاکستان میں اور خاص کر صوبہ سندھ میں اپنے اس سیکولراور آزادی کے سپاہی کو بھلادیا۔ ان پر کوئی کتاب نہیں ملتی ہے اور نہ ہی کسی جریدے یا اخبار میں ان کا ذکر ھوتا ہے ۔ اور پرانی نسل تھورا بہت جانتے ہوئے بھی ہیمُوں کالانی، کا نام لیتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ کچھ سال پہلے میں سکھر کے پرانے شہر میں ہیمُوں کالانی کے اجڑے اور ٹوٹے پھوٹے گھر کو دیکھا تھا۔ میرے ڈرائیور کے دادا جان کو ان کے گھر کے متعلق معلوم تھا۔ وھی مجھے ان کا گھر دکھانے لے گئے تھے ۔ کیا حکومت پاکستان نے جس طرح لاھور میں بھگت سنگھ کی یادگار بنائی ہے کیا سکھر میں ہیمُوں کالانی کے مکان کو محفوظ کرکے یادگار اور قومی اثاثے کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ؟؟؟؟۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔