میری ان تصاویر میں جو آپ کی نظروں کے سامنے ہیں یہ مدائن صالح کا ریلوے اسٹیشن ہے۔ انیسویں صدی میں ریل کی ایجاد کے بعد ترکی کی عثمانی حکومت کی یہ خواہش تھی کہ ایک ریلوے لائن دمشق سے لے کر مدینہ منورہ تک بچھائی جائے جسے آگے مکہ مکرمہ تک لے جایا جائے۔ بالآخر بیسویں صدی کے آغاز میں یہ ریلوے لائن بچھائی گئی۔ اس ریلوے کو "حجاز ریلوے" کا خطاب دیا گیا۔ اس لائن کو بچھانے کے لئے ترک حکومت نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے چندے کی اپیل کی۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر اس چندے میں حصہ لیا کیونکہ یہ حرمین شریفین کے نام پر مانگا گیا تھا۔
<
حجاز ریلوے کا پہلا فیز 1907 میں مکمل ہوا جس کے نتیجے میں دمشق سے مدینہ منورہ تک کا فاصلہ جو ڈیڑھ مہینے میں طے ہوتا تھا، اب محض چار دن کا رہ گیا۔ یہ ریلوے لائن دمشق سے عمان ، تبوک اور مدائن صالح کے راستے مدینہ منورہ پہنچتی تھی۔ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک کا دوسرا فیز کبھی مکمل نہ ہو سکا۔ اس کے ٹھیک ایک سو سال بعد 2007 میں سعودی حکومت نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک ریلوے لائن بچھانے کا اعلان کیا ۔
عربوں میں ترکوں کے خلاف ایک عمومی نفرت پائی جاتی تھی۔ اس کی وجہ ترکوں کا عربوں سے امتیازی سلوک تھا۔ عثمانی ترکوں نے عربوں کی عباسی سلطنت کو ختم کر کے اپنی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔ سلطنت عثمانیہ، جو سولہویں صدی سے انیسویں صدی تک تقریباً چار سو سال تک دنیا کی سپر پاور کے رتبے پر فائز رہ چکی تھی، بیسویں صدی کے اوائل میں یورپ کے مرد بیمار کا خطاب حاصل کر چکی تھی۔ اس ریلوے لائن کے نتیجے میں دمشق سے مدینہ منورہ تک ہزاروں عربوں کے ہوٹلوں اور سراؤں کا کاروبار بھی ختم ہوا جو حجاج کی وجہ سے قائم تھا۔
ان تمام عوامل کے ساتھ ساتھ برطانوی حکومت نے بھی اس علاقے میں ترکی کی حکومت کے خلاف سازشوں کا جال بچھا دیا تھا۔ لارنس آف عریبیا کا کردار بھی اسی سے متعلق ہے۔ کرنل لارنس نے اس علاقے میں ایک عظیم بغاوت منظم کی جسے "عرب بغاوت (Arab Revolt)" کا نام دیا گیا جس کی قیادت اس وقت کے مکہ کے گورنر شریف حسین کر رہے تھے۔ اس موضوع پر ایک فلم بھی بنی ہے۔
جس کا نام ہے لارنس آف عربیہ آپ اس کو نیٹ پر بھی دیکهہ سکتے ہیں
ترکی کی حکومت نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری جب انہوں نے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ دیا۔ جرمنی کی شکست کے بعد انگریزوں نے ترکی کے حصے بخرے کرنے شروع کیے جس کے نتیجے میں سعودی عرب، اردن، شام اور لبنان کی حکومتیں وجود پذیر ہوئیں۔ اسی دور میں دور دراز سے یہودیوں کو بھی لا کر فلسطین میں آباد کیا گیا اور اسرائیل کی بنیاد بھی رکھی گئی جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد باقاعدہ آزاد ملک کا درجہ دیا گیا۔
نجد کے سعودی حکمرانوں اور حجاز کے ہاشمی خاندان کے درمیان بھی اس دور میں جنگیں ہوئیں جس کے نتیجے میں ہاشمی خاندان کی حکومت صرف اردن تک محدود ہو گئی اور نجد کے ساتھ ساتھ حجاز کا علاقہ بھی سعودی خاندان کے زیر نگیں آ گیا۔ اردن کے موجودہ شاہ عبداللہ، شریف حسین کے پڑپوتے ہیں۔
: عرب بغاوت میں حجاز ریلوے کی پٹریوں کو اکھاڑ دیا گیا تھا۔ اب اس کے نشانات صرف
ریلوے اسٹیشنز کی صورت میں موجود ہیں جنہیں سعودی حکومت نے آثار قدیمہ کے طور پر محفوظ کر لیا ہے۔ مدائن صالح کے ریلوے اسٹیشن کا ڈیزائن ہمارے قدیم اسٹیشنز جیسا ہے۔ یہ تنگ گیج کی پٹری ہے جس پر ریلوے کی تین ویگنز کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔ ایک طرف ریلوے ورکشاپ بھی تصاویر میں دکھائی دے گی آپ کو
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیجسے لی گئی ہے۔
“