ڈیڑھ ٹن کا ایئرکنڈیشنر مسلسل چل رہا ہے۔ کھڑکیوں پر دبیز پردے پڑے ہیں۔ کمرے میں ہلکی ہلکی‘ نرم‘ رومان بھری روشنی ہے۔ آبنوس کی دیدہ زیب میز پر خشک میوے پڑے ہیں۔ ایک طرف دودھ‘ شہد اور مصفّیٰ پانی سے بھری ٹھنڈی بوتلیں رکھی ہیں۔ دوسری طرف خوان دھرے ہیں جن میں اشتہا انگیز پکوان پڑے ہیں۔ تخیل کہتا ہے کہ اس خنک آرام گاہ کے باہر‘ آسمان پر بادلوں کی چھتری تنی ہے۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جسموں کو ترو تازگی بخش رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑتی ہے تو آسودگی کا احساس دوچند ہو جاتا ہے۔ ذرا اس طرف آسمان پر دھنک اپنے سارے رنگوں کے ساتھ نظروں میں طرب بھر رہی ہے۔ درخت جھوم جھوم کر بہار دکھلا رہے ہیں۔ پھولوں پر تتلیاں اڑ رہی ہیں۔ نہروں میں پانی اٹھکیلیاں کر رہا ہے۔ دنیا کشمیر جنت نظیر بنی ہوئی ہے یا کوہ قاف کا پرستان۔ بہشت ایسا ہو گا ؎
بہشت آنجا کہ آزاری نہ باشد
کسی را با کسی کاری نہ باشد
کسی سے جھگڑا نہ تعرّض‘ نہ کوئی دل آزادی!
مگر آہ ! ایسا نہیں ہے۔ یہ محض خنک آرام گاہ میں تشریف فرما حضرات کی پرواز تخیل ہے۔ ایئرکنڈیشنر سے ٹھنڈے کیے کمرے میں‘ دبیز پردوں کے سائے میں‘ خشک میوئوں اور خوش ذائقہ خنک مشروبات سے حظ اٹھاتے ہوئے محسوس یہی ہوتا ہے کہ باہر بھی سماں ایسا ہی ہو گا مگر زمینی حقیقت اور ہے۔ باہر گرم لُو کے تھپیڑے چل رہے ہیں۔ گرمی ہے اور ایسی گرمی کہ مٹکوں میں پانی جل رہا ہے۔ چیل انڈہ چھوڑ رہی ہے۔ کڑی دوپہر میں درختوں کے سائے بھی سمٹ کر درختوں کے تنوں کے ساتھ چمٹ رہے ہیں! پیاس ہے کہ بجھتی نہیں! سورج آگ برسا رہا ہے۔ گلیوں میں سناٹا ہے۔ دکاندار بھی شٹر گرا کر کونوں میں لیٹے پنکھوں کی گرم ہوا میں پناہ لیے ہیں!
یہ ہے وہ صورت حال جس کا ہم مسلمان‘ ہم پاکستانی‘ ان دنوں سامنا کر رہے ہیں۔ ہم امت مسلمہ کے دیوانے ہیں۔’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ کا نعرہ ہمارے خون میں رواں ہے۔ خواہش ہماری یہ ہے کہ مسلم دنیا ایک ہو جائے۔ افواج ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں۔ سرحدیں معدوم ہو جائیں۔ پاسپورٹ اورویزے ختم ہو جائیں۔ مسلمان لاہور سے چلے تو مراکش کے اس ساحل تک‘ جو اٹلانٹک کو چھو رہا ہے‘ کوئی اسے روکنے والا نہ ہو۔ مگر یہ وہ خواب ہے جو ہمارے دانشور ڈرائنگ روموں میں سجے بلّور کو سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں!
حقیقت کیا ہے؟ بہت خوفناک اور عبرت انگیز! ایران اور افغانستان بھارت سے مصافحہ نہیں‘ معانقہ کر رہے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کا گوادر کا منصوبہ ناکام بنا دینے کی تیاریاں ہیں! لاکھوں افغان آج بھی پاکستان کی ہوا‘ چاندنی ‘پانی اور گندم سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ‘کاروبار کر رہے ہیں۔ دوسری نسل یہاں کی غذا کھا کر جوان ہونے کو ہے مگر افغان صدر نے پاکستان کے یہ سارے احسانات یکسر فراموش کر دیے‘ آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں‘ یہ بھی نہ سوچا کہ گوادر کا فائدہ صرف پاکستان کو نہیں‘ افغانستان سمیت پورے وسط ایشیا کی مسلمان ریاستوں کو پہنچے گا۔ افغان صدر نے مودی کی شرر فشاں آواز پر لبیک کہا۔ امت مسلمہ کے اتحاد کے خواب کی تعبیر دیکھیے۔ ایران اور افغانستان کے سربراہ مودی کے دائیں بائیں بیٹھے عالم اسلام کی یگانگت کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ ٹریجڈی کا منحوس ترین حصہ یہ ہے کہ ایسا کرتے وقت ان کے چہروں پر مسکراہٹیں ہیں!
صرف یہی نہیں! افغانستان کی خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) تربیت یافتہ دہشت گردوں کو مسلسل پاکستان بھیج رہی ہے جو دھماکے اور قتل و غارت کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی نے کل دنیا کو بتایا ہے کہ چھ افغان دہشت گرد پکڑے گئے ہیں جنہوں نے چالیس سے زائد پاکستانیوں کے قتل اور متعدد بم دھماکوں کا اعتراف کیا ہے۔ افغان حکومت یعنی این ڈی ایس‘ ان دہشت گردوں کو ایک ٹارگٹ کلنگ کے لیے اسی ہزار روپے اور ایک بم دھماکے کے لیے اڑھائی لاکھ روپے’’معاوضہ‘‘ ادا کرتی ہے۔ یہ ہے مہمان نوازی کا افغان صلہ! جن کی نسلوں کی پرورش پاکستان نے کی‘ وہ پاکستان کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں ۔کیا یہی وہ افغان بہادری اور وہ افغان غیرت ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے؟ کیا محسن کُشی ان لوگوں کی سرشت میں داخل ہے؟ اگر میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ ہم مزید ان مہاجرین کی مہمان نوازی نہیں کر سکتے‘ یہ واپس جائیں ورنہ بلوچ اور پشتون عوام انہیں دھکے دے کر واپس بھیجیں گے تو اور کیا کہتے؟ درست ہے کہ یہ شدتِ جذبات کا اثر ہے ۔ ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا مگر اس ذہنی اذیت کا اندازہ لگانا چاہیے جس میں یہ الفاظ کہے گئے! بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے بدلے کیا ہم افغانوں کو پھولوں کے ہار پہنائیں اور مہاجرین کے آگے دست بستہ کھڑے ہو جائیں کہ حضور! آپ یہیں قیام فرمائیے اور پاکستان کی جڑوں پر کلہاڑا مسلسل مارتے رہیے؟
جو حقیقت ہم فراموش کر دیتے ہیں یہ ہے کہ امت مسلمہ کا تصور روحانی ہے‘ سیاسی نہیں! امت مسلمہ کا یہ روحانی تصور حج کے موقع پر پوری طرح ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ہر رنگ ‘ نسل زبان‘ قامت کے مرد عورتیں اکٹھے کر بارگاہ ایزدی میں جھکتے ہیں اور خاک مدینہ کی زیارت کرتے ہیں! امت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آپ دنیا کے جس گوشے میں جائیں مسجد یا اسلامک سنٹر آپ کے لیے آغوش وا کیے ہے۔ آپ مسلمان بھائیوں سے ملتے ہیں۔ پھر ان کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ در د میں شریک ہوتے ہیں! اتحادِ امت کا تیسرا پہلو حرمین کی حفاظت ہے جس کے لیے دنیا کا ہر مسلمان جان قربان کرنے کو تیار ہے۔
تاہم سیاسی حوالے سے پوری تاریخ میں امت ایک انتظامی اکائی نہیں بنی‘ نہ ہی یہ مطلوب ہے‘ اس لیے کہ ممکن نہیں۔ خلافت راشدہ کا دور آغاز کا دور تھا۔ اس وقت عالم اسلام‘ جتنا بھی تھا ایک اکائی تھی۔ مگر بدلتے ہوئے حالات اور پھیلتے علاقوں میں ایسا ممکن نہ تھا۔
اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک کنبے میں پرورش پانے والے بچے جوان ہو کر شادیاں کر لیتے ہیں تو پھر ضروری نہیں کہ ایک ہی گھر میں رہیں۔ اکثر و بیشتر ایسا ممکن بھی نہیں ہوتا۔ اب الگ الگ فیملی یونٹ بن جاتے ہیں۔ ہر بھائی الگ گھر میں رہتا ہے۔ وہ اب بھی مصیبت کے وقت ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں مگر یہ مطالبہ کہ سب ایک گھر میں رہیں اور ایک ہی باورچی خانے میں کھانا پکے‘ ایک غیر ضروری اور ناممکن العقل مطالبہ ہے!
مسلمانوں کی فتوحات میں‘ علاقوں میں اور آبادی میں اضافہ ہوتا گیا تو الگ الگ حکومتیں بننے لگیں۔ اندلس میں الگ حکومت بنی۔ عباسیوں کے زمانے میں بھی دوسری مسلمان حکومتیں موجود تھیں۔ سلطنت عثمانیہ بھی مسلم حکومتوں میں سے ایک حکومت ہی تھی۔ اس میں ایران شامل تھا نہ وسط ایشیا‘ نہ مشرقی ترکستان نہ ہندوستان!
سیاسی حقیقتیں ہمیشہ مختلف رہیں۔ تیمور نے سلطنت عثمانیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ صفوی ایران اور عثمانی سلطنت تو شیعہ سنی تھے مگر تیمور اور عثمانی ترکوں کا تو مسلک بھی ایک تھا۔ بابر اور ابراہیم لودھی دونوں سنّی تھے!
تو پھر ہم کیا کریں؟ کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں کہ اتحاد امت ناممکن ہے؟ نہیں! پہلا اقدام تو یہ کرنا چاہیے کہ مسلمان ممالک‘ انفرادی طور پر استحکام حاصل کریں۔ ہر مسلمان ملک الگ اکائی کے طور پر معاشی سیاسی اور سماجی ترقی کرے۔ مسلمان ممالک جس قدر انفرادی طور پر مضبوط‘ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہوں گے‘ امت کے روحانی تصور کو بالواسطہ ارتقا نصیب ہو گا!
اس ضمن میں یورپی یونین کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یورپ کے ممالک نے پہلے مرحلے میں انفرادی حیثیت سے اقتصادی استحکام حاصل کیا۔ جنگی طاقت بنے اور خواندگی اور تعلیم کی چوٹی تک پہنچے۔ جرمنی پہلے جرمنی بنا! ٹیکنالوجی کا سردار! فرانس نے دنیا میں اپنی حیثیت منوائی۔ پھر معاشرتی ارتقا حاصل کیا گیا۔ تعلیم عام ہوئی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں عروج پر پہنچے۔ سوک سنس عام ہوا۔ یہاں تک کہ شاید ہی کوئی تھوکتا‘ ناک میں انگلی مارتا یا بلند کھردری آواز میں بولتا دکھائی دے۔ ہر ملک کے پاس اپنے سائنسدان اور ماہرین اقتصادیات ہیں۔ جبھی اتحاد بنا اور کامیابی سے چل رہا ہے۔ بھوکے ننگے ملکوں کا جو آمریت یا نام نہاد جمہوری ڈھکوسلوں میں سسک سسک کر جی رہے ہیں‘ کیا اتحاد بنے گا؟ ؎
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“