(Last Updated On: )
نقدِ ادب کی معروف روایت ہے کہ کسی شاعرکامقام معین کرنا ہو تو اس کا تقابلی موازنہ اس کے کسی ہمسر و ہم پایہ سے کرتے ہیں۔مثلاً گوئٹے کا ذکر دانتےؔور ورجل ؔا تذکرہ ہومرؔ کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔حافظ شیرازی کی غزل کا تجزیہ خواہ اجوکی غزل کی نسبت سے کرتے ہیں لیکن وارث شاہ اس قدر جامع حیثیات ہیں کہ نہ ان کا موازنہ کسی شاعر سے کیا جا سکتا ہے اور نہ ہیر کوشاعری کی کسی روایت سے وابستہ کرنا ممکن ہے۔اگر’ ہیر‘ محض ایک عشقیہ قصہ ہوتی تو ایسا کرنا سہل تھالیکن مشکل تو یہی ہے کہ ’ہیر ‘ محض ایک عشقیہ قصہ بھی نہیں ہے ۔ابو الفرج اصفہانی کی کتاب ’’الاغانی‘‘ کو’’ دیوان العرب‘‘ کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں عربی معاشرے کے تمام پہلو منعکس ہوئے ہیں۔اس پہلو سے ہم ہیر وارث شاہ کو’’ دیوان پنجاب‘‘کہہ سکتے ہیں کہ اس میں دیس پنجاب کا معاشرہ پوری آب و تاب کے ساتھ متشکل ہوا ہے لیکن یہ مماثلت اسی ایک پہلو تک محدود ہے کیوں کہ کتاب الاغانی میں بیسیوں کہانیاں ہیں جب کہ ہیر ایک مسلسل منظوم قصہ ہے ۔اصناف ادب میں مقامہ (ایسی کہانی کا مرکزی کردار کوئی لا ابالی مہم جو ہو) ایک ایسی صنف ہے جو ’’ہیر وارث شاہ‘‘ کے قریب تر ہے لیکن دقت یہ ہے کہ رانجھا محض ایک لا ابالی مہم جو ہی نہیں ہے بل کہ عاشق صادق بھی ہے۔
ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وارث شاہ کی شاعری کلاسیکی ہے ،رومانی ہے یا رمزیاتی ہے۔ بے شک ’’ہیر‘‘ میں یہ ساری روایات کسی نہ کسی حد تک موجود ہیں لیکن اس پر کسی ایک روایت کی چھاپ نہیں لگائی جا سکتی ۔ٹی ایس ایلیٹ نے کہا ہے کہ ہر نظم اپنی مستقل بالذات حیات رکھتی ہے کا فی بالذات ’’ کل ‘‘ ہوتی ہے۔ اس لیے اس کا مطالعہ شاعر کے سوانح حیات یا شخصی واردات سے قطع نظر کر کے کرنا چاہیے۔ یہی بات جو ژنگ نے نفسیات کی زبان میں کہی ہے ،ہیر وارث شاہ کے مطالعے پر خاص طور سے صادق آتی ہے۔کیوں کہ ایک ہم وارث شاہ سے کماحقہ واقف نہیں ہیں دوسرے جیسا کہ جو ابھی کہا ہے ’’ہیر ‘‘ کو شاعری کی کسی روایت سے وابستہ کرنا مشکل ہے۔ ’’ہیر‘‘ کے کردار بھی بڑی حد تک منفرد ہیں۔مثال کے طور پر’’ہیر‘‘ کے کردار کو لیجئے وہ فاوسٹ کی مارگریٹ کی طرح مہرو وفا کی پتلی ہے لیکن اس کے احساس مصیبت سے عاری ہے۔طربیہ خدا وندی میں دانتے ؔ نے بیاطریچے کو ایک مقدس دیوی کے روپ میں پیش کیا ہے جب کہ ہیر ایک منچلی الہڑ دیہاتی لڑکی ہے۔ورجل کی اینڈمیس ملکہ دیدو اپنے محبوب اینیسؔ کی بے وفائی پر اسے سخت لعن طعن کرتی ہے اور کہتی کہ موت کے بعد بھی آسیب کی طرح تیرا پیچھا کرتی رہوں گی۔جب کہ ہیر رانجھے کی بے جا طنزو تعریض کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کرتی ہے ۔کالی داس کی شکنتلا باوفا ہے لیکن ہیر کی شگفتگی طبع سے عاری ہے ،وہ بھولی بھالی عورت ہے جب کہ ہیر پنجاب کے دیہات کی ایک بگڑی ہوئی شریر مٹیار ہے جس کے کردار کو خلوص و محبت نے رفعت بخشی ہے۔غزل الغزلات کی حسینہ اپنے بچھڑے ہوئے سے روز خوابی کے عالم میں باتیں کرتی ہے اور گزرے ہوئے ایام کو یاد کر کے آہیں بھرتی ہے ۔ہیر بھی درد فراق کا بے محابا اظہار کرتی ہے لیکن اس کی ہوش مندی اور فہم سلیم میں فرق نہیں آتا وہ اپنے محبوب سے ملاقات کی تدبیر کرتی ہے اور بالآخر اس کوشش میںکامیاب ہو جاتی ہے۔
رومان میںحقیقت پسندی ،جنوں میں ہوشمندی اور شیفتگی میں آگہی کا عنصر موجود ہے ۔البتہ ہیر وارث شاہ سے دنیائے شاعری میں ایک نئی روایت کا آغاز ہوا ہے جسے سوویٹ روس کے معاصر ناقدین ادب کی زبان میں ’’رومانوی‘‘ حقیقت پسندی کا نام دیا جا سکتا ہے۔
حقیقت پسندی کا آغاز ادبیات مغرب میں ناول سے ہوا تھا ۔یہ رجحان جاگیرداروں کے اقتدار کے خاتمے اور عوامی معاشرے کی تصویر کشی سے وابستہ ہے۔ڈکنزؔ ،بالزاک اور گوگل کے ناولوں میں یہ عظیم روایت سر سبز ہوئی اور زولاؔ کے ناولوں اور ہاپٹ مان ؔ کی تمثیلوں میں فطرت پسندی کی انتہا کو پہنچ گئی۔۱۹ ویں صدی عیسوی میں جاگیرداروں کی جگہ تجارت پیشہ،صنعت کاراور ساہو کار برسر اقتدار آ گئے اور کلوں کی ایجاد نے مغربی سامراج کے لیے راستہ ہموار کیا ،اسی صدی کے اواخر میں سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج کے خلاف اشتراکیت کی تحریک شروع ہوئی۔سرمائے اور محنت کی کش مکش میں ذی شعور انسان دوست ادبا اور شعرا نے عوامی امنگوں اور ولولوں کی ترجمانی کی جس سے حقیقت پسندی میں ترقی پسندی کا رجحان پیدا ہوا۔
صنعتی انقلاب اور اشتراکیت کی اشاعت و فروغ کے ساتھ ایک نیا مزاج عصر صورت پذیر ہواجو بدلتے ہوئے سماج کی نئی انقلابی قدروں کا آئینہ دار ہے ۔ترقی پسند شاعر اور ادیب اسی مزاج عصر کے نمائندے اور ترجمان ہیں۔وہ سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے آ ہنی شکنجے میں کسے ہوئے محنت کشوں کی مظلومیت سے روح کی گہرائیوں تک متاثر ہوئے ہیں ۔اس کے ساتھ انھیں یقین ہے کہ مستقبل قریب میں نوع انسان کے مقدر کی باگ ڈور عوام کے ہاتھوں میں آنے والی ہے۔یہی جذبہ اور یہی تخیل ترقی پسندوں کے شعرو ادب میں کارفرما ہے اور انھوں نے پوری خودسپردگی کے ساتھ اپنے آپ کو عوامی تحریکوں کے ساتھ وابستہ کر لیا ہے ۔دوسری طرف رومانی ،رمزیاتی ،اظہاریتی روایات بودیلرؔ ،راں بوؔ،دی انزیوؔ،پیراں ولو ؔ،کافکاؔ اور رمکےؔ میں زوال پذیر ہو گئیں۔یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے نئے سیاسی و عمرانی تقاضوں کی حرارت کو محسوس نہیں کیا ،جن کا ذوقی و قلبی رابطہ نئے مزاج عصر سے قائم نہ ہو سکا۔جو سرمایہ دارانہ نظام کے مخدوش حال اور تاریک مستقبل سے خائف ہو کر اپنی انا کی بند کو ٹھڑیوں میں پناہ گزین ہوئے ۔
ترقی پسند شعرا اور ادبا نے صنعتی معاشرے کی نئی قدروں اور نئے نصب العینوں سے اپنا تخلیقی رشتہ استوار کیا اور ادب و شعر کو زوال پذیری کے دلدل سے نکال کر اسے نئے سرے سے تپشِ حیات عطا کی ۔وارث شاہ کے یہاں بھی جاگیردارانہ معاشرے کے زوال کا گہرا شعور موجود ہے۔انھوں نے ستم رسیدہ عوام کی مظلومیت کا جا بجا ذکر کیا ہے ۔آج سے کم و بیش دو سو سال پہلے جاگیردارانہ نظام میں ان حقائق کا شعور و ادراک بلا شبہ وارث شاہ کی دیدہ وری کی بین دلیل ہے۔
فلسفہ یونان میں ظالموں کو جان سے مار دینا ایک مستحسن فعل ہے وارث شاہ کی اخلاقیات کا بھی یہ ایک اہم اصول ہے فرماتے ہیں:
؎وارث شاہ جے ماریئے بداں تائیں ،تنہاں خون نہ دیونے آؤندے نے
(جو بدوں کوجان سے مار دیں ان پر قصاص واجب نہیں ہوتا)
خود داری ،خود شعوری اور کشف ذات کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں:
؎تنوں رب شہباز بنایا سی،بنیوں کرتباں نال تو اِل آپے
(خدا نے تجھے شہباز بنایا تھا اپنے کرتوتوں سے تو چیل بن گیا ہے)
اخلاقیات کے یہ اصول ہمیں اخلاق جلال یا اخلاق ناصری میں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے ان کتابوں میںفروتنی ، عاجزی اور مسکنت کی تعلیم دی گئی ہے ’’بدوں‘‘کے خلاف بغاوت کی تلقین کرنااور عوام کو اپنی شہبازی کا احساس دلانا وارث شاہ کے انقلابی ذہن کی نشان دہی کرتا ہے۔
مسلمان شمالی ہند میں وارد ہوئے تو ان کی زبان فارسی تھی ترک سلاطین بھی گھروں میں ترکی بولتے تھے اور دربار میں فارسی میں بات چیت کرتے تھے۔محمود غزنوی اور جلال الدین اکبر کے دور ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی اور عسکری غلبے کے زمانے تھے اس لیے فرخیؔ ،عنصریؔ،عسجدیؔ،فیضیؔ،اور عرفیؔ کی شاعری میں ایک خوش آئند حیات پرور طنطنے کا احساس ہوتا ہے ۔اورنگ زیب عالمگیر ؒ کے بعد مغلیہ سلطنت کو زوال آ گیا ۔ مرہٹوں ،جاٹوں اور سکھوں اور راجپوتوں نے چاروں طرف شور ش برپا کر دی۔ اس زوال پذیر معاشرے کا عکس معاصر فارسی شعرا کے کلام میں دکھائی دیتا ہے ۔اسلوب ہندی کا ابتدائی دور اظہار و بیان کی شگفتگی کا آئینہ دار تھا۔
مرور زمانہ سے خلوص بیان کی جگہ دور از کاراستعاروں اور نام نہاد خیال بندی نے رواج پایا اور فارسی غزل سے شعریت کی روح نے رواج پایا اور فارسی غزل سے شعریت کی روح غائب ہو گئی ۔فارسی شاعری کے اس تنزل کے ساتھ اردو شاعری کا آغاز وابستہ ہے ۔چناں چہ اردو غزل فارسی ہی کا چربہ تھی۔اس کے اسالیب بیان ،تشبیہات،استعارے،تلمیحات اور محاورے فارسی ہی سے مستعار تھے۔اس لیے قدرتاً اردو شاعری شروع ہی سے زوال پذیری کا شکار تھی ۔تین شعرا البتہ اس زوال پذیری سے محفوظ رہے۔سوداؔ،غالبؔاورنظیر اکبر آبادی،غالب اور سودا اس لیے کہ ان کے آبا ء کو ہندوستان میں وارد ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا رتھا اس لیے وہ زوال پذیری کی کان نمک میں نمک نہیں ہو پائے تھے۔اسی لیے ان کے کلام میں شگفتگی پائی جاتی ہے ۔نظیر اکبر آبادی مرد قلندر تھے لہٰذا زوال پذیر درباری معاشرے سے ان کا ذہنی و ذوقی رشتہ قائم نہ ہو سکا۔
زوال پذیری کے ساتھ اردو شاعری میں مریضانہ دروں بینیاور سقیم داخلیت و فردیت ممزوح ہو گئی۔ فارسی کے شاعروں کی تقلید میں امردوں اور کسبیوں کو مثالی محبوب کا درجہ دیا گیا۔فارسی کی تلمیحات ،محاورے اور اسالیب بیان من و عن اخذ کیے گئے۔ جس سے اردو شاعری میں مقامی رنگ پیدا نہ ہو سکا نہ اس کی جڑیں ہندو پاک مٹی میں پیوست ہو سکیں ۔پشتو ،سندھی،بروہی اور پنجابی کے شعرا دارالسلطنت دہلی اور لکھنو سے دور ہونے کے باعث فارسی شاعری کے زوال پذیر اثرات سے محفوظ رہے۔ ان کے یہاں بھی کہیں کہیں جام جمشید ،شیریں فرہاد،وغیرہ کا ذکر آتا ہے لیکن ذوق فیضان وہ گردو پیش کے طبعی و تہذیبی ماحول سے حاصل کرتے ہیں اسی لیے ان کی شاعری میں اپنے اپنے علاقے کے لوک بت کہاؤ کا رس اور لوک گیتوں کی شیرینی رچ بس گئی ہے ۔اسی بات میں رحمان بابا،شاہ لطیف بھٹائی،خواجہ فرید اور وارث شاہ کے کلام کی بے پناپ کشش کا راز مخفی ہے۔
فارسی کے کئی شاعروں نے ہیر رانجھے کا قصہ نظم کیا ہے ۔سعید سعیدی کی مثنوی افسانہ دلپذیر ،لائق کی ہیر رانجھا ،فقیراللہ آفریں کی قصہ ہیر رانجھا ،احمد یار خاں یکتا کی داستان ہیر رانجھا،میر قمرالدین منتؔ کی مثنوی قصہ ہیر رانجھا،آرامؔ کی مثنوی ہیر رانجھا اور باقی کولابیؔ کی مثنوی ہیر رانجھا قابل ذکر ہیں لیکن اسالیب ،تشبیہات اور تلمیحات کے لحاظ سے ان مثنویوں میں ملا جامیؔ یا امیر خسرو کی مثنویوں میں کچھ بھی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ان کے یہاں معاصرت کے اس شعور کا فقدان ہے جس کی اہمیت گوئٹے نے یہ کہہ کر واضح کی تھی:
’’ہر معاصر ادیب کو یہ بات معلوم کرنا ہو گی کہ اس کے معاصرین کی حس زمان کیا ہے ایک ادیب یا ایک مصور اس شے کا زیادہ واضح شعور رکھتا ہے ۔ادیب کاکام ہی اس معاصرت میں زندگی گزارنا ہے۔‘‘
وارث شاہ کو معاصرت کا شعور کامل ارزانی ہوا تھا ۔ہیر وارث شاہ سے دو تقابلی اقتباسات دیکھیں:
ہیرؔ صنمی سمن عذارے
کو راست بہر طرف ہزارے
بودہ گلِ گلشن جوانی
نو رستہ نیاںِ زندگانی
سرتا قدمش چوآب حیواں
کُوداد بصد ہزار کس جاں
حیراں بجمالِ او جہانے
ہر گوشہ در است ناتوانے
آشفتہ موی او ہزاراں
دل خستہ روی او ہزاراں
از سنبلِ او بنقشہ درتاب
گشتہ دل صد ہزار بے تاب
از چشم سیاہ پر فن او
دز طرزِ نگاہ کردن او
برخاستہ چشم فتنہ از خواب
بیدار شدہ فتاد بے تاب
نرگس شدہ بے قرار و بیمار
از پای فتادہ رفتہ از کار
از فتنہ گری آں دو جادو
بر خاستہ گتنہ ای نہ ہر سو
آتش زدہ رویٔ او جہاں را
خوں کرد دل بس عاشقاں را
در حسرت آں دو لعل خنداں
خوں بستہ دل چو من ہزاراں
خوں بستہ دلی بسے ازاں لب
شُد خستہ دل بسے ازاں لب
زاں پستہ دہاں شکریں لب
خوں بستہ دلِ ہزار یا رب
سرخیلِ پری وشاں بود ہیر
ہستیٔ جہاں جاں بود ہیر
ان اشعار میں گھسے پٹے استعاروں اور اسالیب کی بھر مار ہے جس سے قطعی مفہوم نہیں ہوتا کہ باقی کولابیؔ کس ملک وقوم کی عورت کا سراپا لکھ رہا ہے۔یہی سراپا شیریں ،عذارا ،لیلیٰ ،زلیخا کا بھی ہو سکتا ہے ۔وارث شاہ ہیر کے حسن و جمال کی تصویر کھنچتے ہوئے کہتے ہیں:
دند چنبے دی لڑی کہ ہنس موتی ،دانے نکلے حسن انار وچوں
لکھی چیں تصویر کشمیر جٹی، قد سرو بہشت گلزار وچوں
گردن کونج دی ،انگلیاں روانہہ پھلیان ،ہتھ کولڑے برگ چنار وچوں
سرخی ہونٹھاں دی،لوہڑ دنداسڑے دا، خوجے کھتری قتل بازار وچوں
شاہ پری دی بھین،پنج پھول رانی،گجھی رہے نہ ہیر ہزار وچوں
سہیلیاں نال،لِشکدی مان متی، جیویں ہرنیاں ترٹھیاں بار وچوں
لنک باغ دی پری کہ اند رانی ،حور نکلی چند انوار وچوں
پُتلی پیکنے دی،نقش روم والے،لدھا پری نے چند پروار وچوں
ان اشعار میں پنج پھول رانی ،لنک باغ دیپری(سیتا) اند رانی (اندر کی زوجہ)ملکی تلمیحات ہیں ،دند چنبے دی کلی کشمیر ،تصویر جٹی ،گردن کونج دی،انگلیاں روانہہ پھلیاں ،سرخی ہونٹھاں دی لوہڑ دنداسڑے دا،خوجے کھتری قتل بازار وچوں،ناہاں ویلیاںگنھ مکھن جیسی تمثیلیں اور تشبیہات گردو پیش سے لی گئیں ہیں۔جس سے مفہوم ہوتا ہے کہ ہیرؔ اسی ملک کی ایک خوبصورت مٹیار ہے۔
پنجابی اور اردو میں ماں بیٹی کا رشتہ ہے لیکن مقام حیرت ہے کہ اردو کے کسی شاعر نے ہیرؔ رانجھے کی عشقیہ داستان کو در خور اعتنا نہیں سمجھا حالاں کہ وہ اس سے بخوبی واقف تھے ۔اردو کے شاعر اور قصہ نویس ہندوستان میں بیٹھ کر شام،عرب،مصر،ایران میں فرنگ کی داستانیں لکھتے رہے لیکن پنجاب ،سندھ ،سرحد اور بلوچستان کی ولولہ انگیز عشقیہ کہانیوں کی طرف متوجہ نہ ہو سکے ۔ایک صاحب مقبول احمد گوپاموئی نے البتہ اردو نثر میں یہ قصہ لکھا تھا۔اس میں فرماتے ہیں:
’’افسانہ ہیر رانجھا سر زمین ہند میں عجیب دلچسپ نمکین و رنگین طرفہ صداقت،آئین و خلوص آگئیں واقع ہوا ہے۔ہر چند فقیر پُر تقصیر کو ایسے مقدمات کو قلم بند کرنے سے سرو کار نہ تھا بل کہ ننگ و عار تھا مگر بعض آشنا یان صدق و وفا نے تکلیف مالایطاق دی۔خیال نظم فارسی نے دل میں جا کی،کچھ اشعار لکھے پھر دھیان آیا کہ فی زمانہ رواج اردو کا بیشترہے اور نظم سے نثر وسعت اثر،اکثر حاصل مطلب خلاصہ مقصد حشو زو ائد مقفٰی و مسجع ،جلی بطرز مرصع بپاس خاطر احباب مخلص تحریر کیا؛‘‘
مقام غور ہے کہ جب گوپاموئی کے بقول افسانہ ہیر رانجھا ،طرفہ صداقت آئین و خلوص آگئیں واقع ہوا ہے تو اسے لکھنے میں انھیں ننگ و عار کیوں محسوس ہوا تھا۔بدقسمتی سے ہمارے یہاں آج بھی ایسے بر خود غلط گوپا موئیوں کی کمی نہیں ہے جو تہذیب و شائستگی کی اجارہ داری کے زعم میں علاقائی زبانوں کے شعر و ادب کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
وارث شاہ کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے ہیرؔ کے اوراق میں دیس پنجاب کے معاصر معاشرے کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا ہے۔اس پہلو سے شعر و ادب کو تاریخ پر برتری حاصل ہے کہ تاریخ محض ایک بے جان خاکہ ہوتا ہے جس میں رنگ شاعری اور قصوں سے بھرا جاتا ہے۔ہمارے شاہیت کے دور کے مورخین سلاطین و امرا کے سوانح اور ان کے جنگ و جدال کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں ۔عوام گویا ان کے لیے کبھی تھے ہی نہیں ۔چناں چہ ہمیں فرشتہ ،خانیؔخاں ،بدایونیؔ وغیرہ کی تاریخوں میں انھی لوگوں کے نام یاکام کا ذکر ملے گا جو سلاطین امرا کے درباریوں اور محلوں سے وابستہ تھے۔ان کے یہاں سلاطین و امرا کے خواجہ سراؤں ، لونڈیوں ،اصیلوں ،امرووں، قلماقینوں،کسبیوں ،فیل بانوں وغیرہ کے حالات مل جائیں گے لیکن ہم کبھی یہ معلوم نہیں کر پائیں گے کہ اس دور میں عوام کیسے گزر بسر کرتے تھے۔آئے دن کی خانہ جنگیوںسے ان کے روز مرہ کے معمولات کیسے متاثر ہوتے تھے قحط اور وبا میں ان کا کیا حشر ہوتا تھا۔سلاطین کی عیش و عشرت کاسامان فراہم کرنے کے لیے عوام پر جو بھاری محصول لگائے جاتے تھے وہ ان کے متحمل کیسے ہوتے تھے۔
شاہی کارندوں کی خوشنودی کے لیے اور ان کی تعدی سے بچنے کے لیے انھیں کیا کرنا پڑتا تھا ۔بدیانت اور قابوچی حکام کس بے دردی سے ان کے گاڑھے پسینے کی کمائی نذرانوں کی صورت میں ہڑپ کر جاتے تھے۔زمیندار اور جاگیردار کو کس طرح جبرو ستم کا نشانہ بناتے تھے اور کس طرح ان کی بہو بیٹیوں کی عصمت غارت کرتے تھے۔مکار پیر اور ریا کار ملا کس طرح عوام کو غچے دے کر دونوں ہاتھوں سے لوٹتے تھے ۔عوام سلاطین کے استبداد سے خائف تھے یا ان کے سینوں میں بغاوت کے جذبات بھی کروٹیں لیتے تھے،درباری مورخین ان امور کے بارے میں خاموش ہیں ان کی واقعہ نگاری دہلی ،آگرہ،لکھنو جیسے درباری شہروں کے گرد گھومتی ہے۔دیہاتی معاشرہ کی جھلک شاذ و نادر ہی ان کے اوراق میں دکھائی دے گی۔
ہیر کے مطالعے سے وارث شاہ کے زمانے کا پنجابی معاشرہ پوری طرح متشکل ہو کر ہماری نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ارسطو ؔ نے کہا تھا کہ آرٹ نیچر کی خامیوں کی تلافی کرتا ہے ۔ہمارے خیال میں شعرو ادب تاریخ نگاری کے خاکے میں رنگ بھرتے ہیں۔کم از کم وارث شاہ نے معاصر پنجابی معاشرے کی تصویر کشی کر کے اس عہد کے مورخین کی کوتاہیوں کی بوجہ احسن تلافی کر دی ہے۔
ہمارے زمانے میں صنعتی انقلاب کے بارے میں سماجی اور طبقاتی سانچہ بدلتا جارہا ہے ۔ترقی پسند شعرا اور ادبا جمالیاتی تقاضع کی تشقی کے ساتھ ساتھ نقد و ابلاغ کا فرض بھی ادا کر رہے ہیں اور انقلاب پسندوں کے دوش بدوش عوامی تحریکوں کو تقویت دے رہے ہیں ۔فنکار شاعر اور ادیب کے اس منصب کی جانب سے پہلے بیلنسکی اور لیوٹالسٹائی نے توجہ دلائی تھی،لیوٹالسٹائی شیکسپیئرکا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے :
’’شیکسپیئرکی تمثیلوں کا موضوع زندگی پر نہایت سوقیانہ اور پست نقد نظر ہے جس کی رو سے امرا ،روسا کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور ان کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔شیکسپیئر محنت کشوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔اور اس کوشش میں مانع ہے کہ مذہب یا انسان دوستی کی بنیاد پر معاشرے کے موجودہ نظام کو بدل دیا جائے۔‘‘
آرٹ کیا ہے ؟ شیکسپیئرسے متعلق یہ رائے انتہا پسندانہ ہے لیکن خیال رہے کہ یہ رائے دنیا کے عظیم ترین ناول نگارکی ہے جوہر لحاظ سے شیکسپیئر کا ہم پایہ ہے ۔ٹالسٹائی شیکسپیئرکے ھوالے سے اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے کہ جاگیردار انہ اور سرمایہ دارانہ نظام معاشرے کے فنکار اور ادبا عوامی آزادی کی انقلابی تحریکوں کی آبیاری سے قاصر رہے ہیں۔ٹالسٹائی نے شیکسپیئر کو انقلابی تصور کے اس معیار پر جانچا تو اسے کم عیار پایا ۔ٹالسٹائی نے ادیب اور فن کار کے جس انقلابی فرض کی طرف توجہ دلائی ہے وہ آج زیادہ شدت کے ساتھ مشرقی ادبا شعرا پر عائد ہوتا ہے اس پہلو سے وارث شاہ کی عوامی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو مفہوم واضح ہو جاتا ہے کہ وارث شاہ کا کلام ان معاصر شاعروں کے کلام سے زیادہ ترقی پرور ہے جو مغرب کی زوال پذیر فنی و ادبی تحریکوں سے ذوق فیضانحاصل کرتے ہیں اور موجودیت (Existentislism)ماورا واقعیت (Supperism) لالینیت(Absurdism) مکعبنیت (Cubism) لاحاصلیت (Futilitarianism) دادا (Dada)کے نام سے مغرب کی سقیم دروں بینی اور کھوکھلی بے جان قدروں کا پیوند مشرق کے از سر نو ابھرتے ترقی پذیر معاشرے اور ادب و فن پر ؛گانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
روسی ناول نگار وں گوگل،ترگینیف،دوستو فسکی،ٹالسٹائی وغیرہ پر نقد لکھتے وقت کہا جاتا ہے کہ ان کے ناولوں میں ’’روسی روح‘‘ پوری طرح منکشف ہوئی ہے۔بعض ان میں روسیوں کے اتھاہ غم و الم اور حزن و ملال کا امتزاج اعلیٰ نسب العینون کی جستو کے ساتھ ہوا ہے۔اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ’’دانتے‘‘ کے’’ طربیہ خدا وندی ‘‘میں’’اطالوی روح‘‘ اپنی تقدیس آمیز جمالیت اور گوئٹے کی فاوسٹ میں جرمن روح اپنی ہمہ گیر آفاقیت کے ساتھ منعکس ہوئی ہے۔ہیر وارث شاہ میں پنجابیوں کی شہامت ،وسعت قلب،جواں مردی،زندہ دلی،اور درد مندی کا امتزاج عاشقانہ وارفتگی اور رفعت پسندی کے ساتھ ایسے نادر پیرائے میں ہوا ہے کہ دنیائے شعرو شاعری کے چند گنے چنے شہکارہی ہیر کے مقابلے میں پیش کیے جا سکتے ہیں ۔قرائن و آثار بتا رہے ہیں کہ عنقریب پنجابی زبان کو اس کا کھویا ہوا مقام مل جائے گا جب دیس کے شاعر اپنے عظیم اور جیالے عوام کی آرزوؤں ،حسرتوں اور ولولوں کی ترجمانی پر نئے سرے سے کمر بستہ ہوں گے تو ہیر وارث شاہ ان کے لیے مسلسل ذوقی و لسانی فیضان کا سر چشمہ بن جائے گا ۔ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب وارث شاہ کو شعرائے عالم کی صف میں وہ مقام رفیع ارزانی ہو گا۔
“