وارث شاہ (1722ء تا 1798ء) ملکہ ہانس کے محلہ ٹبہ کی ایک مسجد کے امام تھے اور مسجد سے متصل حجرے میں رہائش پذیر تھے۔ 1766 ء میں یہیں انہوں نے مشہورعالم ’ہیر‘ لکھی۔ انہوں نے اسے فارسی رسم الخط میں لکھا تھا۔
وارث شاہ شیخوپورہ کے علاقے جنڈیالہ شیر خان میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے قصور میں مذہبی تعلیم پائی۔ ان کے والد کا نام سید گل شیر شاہ تھا۔
اپنی کتاب کے629 ویں بند میں انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں بتایا ہے:
وارث شاہ وسنیک جنڈیالڑے دا شاگرد مخدوم قصور دا۔
بند نمبر 6 اور 7 اور 627-629 میں انہوں نے ہیر لکھنے کی وجہ، قصے کی تکمیل کا سال اور مقام بتایا ہے:
“یاراں اساں نوں آن سوال کیتا عشق ہیر دا نواں بنائے جی
یاراں نال مجالساں وچ بہہ کے مزا ہیر دے عشق دا پائیے جی۔۔۔
ختم رب دے کرم دے نال ہوئی، فرمائش پیارڑے یار دی اے
کھرل ہانس دا شہر مشہور ملکہ، تتھے شعر کیتا یاراں واسطے میں۔۔۔
سن یاراں سے اسیاں نبی ہجرت (1180 ہجری)، لمے دیس دے وچّ تیار ہوئی
اٹھاراں سے تیئیسیاں (1823 بکرمی) سمتاں دی، راجا بکرماجیت دی سار ہوئی”
نفرت اور عداوت کے دور میں محبت پر ایک طویل نظم لکھنے سے بہتر بھلا کیا ہوسکتا ہے؟ ہیر اس دور میں لکھی گئی جب احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ جیسے بیرونی حملہ آوروں نے پنجاب کو برباد کردیا تھا اور سکھ مسلح جتھے پنجاب میں غارت گری کرتے پھررہے تھے۔ اس کا واضح تذکرہ بند نمبر627 میں انہوں نے کیا ہے:
جدوں دیس تے جٹ سردار ہوئے گھرو گھری جاں نویں سرکار ہوئی
چورچوہدری یار نیں پاکدامن بھُوت منڈلی اِک تھوں چار ہوئی
وارث شاہ سے قبل ہیر کا قصہ شاہ حسین (1539ء تا 1597ء)، بھائی گرداس (1551ء تا 1629ء) پیلو (1580ء تا 1675ء) اور حافظ برخوردار کی شاعری کے توسط سے عام تھا۔
پانچ دریاؤں کی سرزمین میں ہیر پر شاعری تمام مذاہب اور ذاتوں کو جوڑنے والی واحد شے اور ’پنجابیت‘ کی علامت بن گئی تھی۔
جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے وقت پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر مائیکل او ڈویر کو قتل کرنے والے شہید اُدھم سنگھ نے لندن میں عدالتی کارروائی کے دوران کسی مذہبی کتاب کی بجائے ہیر پر حلف لیا تھا۔
مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر میں دیش بھگت یادگار لائبریری میں ادھم سنگھ کی ‘ہیر مقبل’ کا ذاتی نسخہ آج بھی موجود ہے۔
وارث شاہ سے بہت پہلے اس قصے کو بہت سے شعرا نے فارسی اور پنجابی زبان میں پیش کیا تھا۔ اس حوالے سے بابر کے اقتدار (تقریباً 1525ء) سے قبل ہری داس ہریا کی پنجابی شاعری اولین شمار ہوتی ہے۔
اس کے بعد دمودر گلاتی (1486ء تا 1568ء)، احمد گجر (1682ء) چراغ اعوان (1790 ء) منسا رام خوشابی (1744ء) اور شاہ جہان مقبل (1745ء) نے اس داستان محبت کو اپنے اپنے انداز سے پیش کیا۔
گویا ہیر کو پہلی مرتبہ 16ویں صدی میں لکھا گیا تھا۔
وارث شاہ کی شاعرانہ تراکیب اپنے پیش روؤں احمد گجر اور شاہ جہاں مقبل کے قریب ہیں۔ وارث شاہ کی ہیرمیں سوائے اختتام کے تمام بڑے واقعات مقبل کی ہیر سے ملتے جلتے ہیں۔ اسے وارث شاہ سے تقریباً دو دہائی قبل لکھا گیا تھا۔ مقبل نے ہیر اور رانجھا کا ملاپ کرا دیا تھا اوران کے مکہ جانے کا اشارہ بھی دے دیا تھا جبکہ وارث شاہ کی نظم میں انجام دونوں کی موت کی صورت میں ہوتا ہے۔
وارث شاہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہیر کا نسخہ کہاں گیا؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ البتہ کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں پرنٹنگ پریس کے آنے کے بعد ہیر وارث شاہ کی اولین اشاعت 1865ء میں ہوپ پریس لاہورسے ہوئی تھی۔
ڈاکٹر باقر کی سربراہی میں پنجابی ادبی بورڈ نے اسی نسخے کو دوبارہ شائع کیا ہے۔ اسی کے ساتھ “اصلی تے وڈی ہیر” کے نام پر ہیر وارث شاہ کی اشاعت میں ہیرا پھیری کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ہوپ پریس کی اشاعت میں سیکڑوں ایسے مصرعے شامل ہیں جو وارث شاہ نے لکھے ہی نہیں۔ وارث شاہ کے کل بندوں کی تعداد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 625 سے 635 ہیں جبکہ ہوپ پریس نے 749 بند شائع کیے تھے۔
وارث شاہ کے نام پر ہیر میں اضافے کی شروعات میاں ہدایت اللہ سے شروع ہوئی۔ انہوں نے ہیر میں 1673 سطروں کا اضافہ کیا اور 1885ء میں اسے موتی بازار لاہور کے رکن الدین شیر فروش سے چھپوایا۔
اس ’واردات‘ کا اعراف انہوں نے خود بھی کیا ہے:
خاکسار فقیر ہدایت اللہ گھوڑا فکر دا خوب دوڑایا ای
اس کے بعد پیراں دتا ترگڑ نے 1910ء میں کتب خانہ محمدی لاہور سے ہیر وارث شاہ کا جو نسخہ چھپوایا اس میں اپنی 1192 سطروں کا اضافہ کردیا۔
وہ بھی اپنی ‘ذہانت’ کےمعترف ہیں:
نسخہ ہیر دا اے ترمیم کرکے لوکاں عاشقاں لئی چھپوایا اے
کہا جاتا ہے کہ اسے “اصلی تے وڈی ہیر” بنانے کے لیے پبلشر نے ہر اضافی سطر کا ایک روپیہ دیا تھا۔
1917ء میں میاں محمد دین سوختہ نے 794 سطروں کا اضافہ کرکے اپنا نسخہ چھپوایا اور یہ رجحان جاری رہا۔
دلچسپ امر یہ کہ ہیر کی مندرجہ ذیل مقبول عام سطریں وارث شاہ نے نہیں لکھیں:
ہیر آکھیا عشق دے راہ پونا نہیں کم ملوانیاں قاضیاں دا
ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں، مینوں لے چلے بابلا لے چلے وے
ڈاکٹر موہن سنگھ ابروئی (1899ء تا 1984ء) ان اولین سکالروں میں سے تھے جنہوں نے ہیر وارث شاہ کی تدوین کی کوشش کی اور 100 صفحات پر مشتمل ابتدایہ بھی تحریر کیا جو 1947ء میں لاہور بک شاپ سے شائع ہوا۔
لیکن وہ بھی کئی مقامات پر لڑکھڑا گئے۔
جت سنگھ سیتل (نیویوگ، 1963ء) اور سنت سنگھ سکھون (ساہتیا اکیڈمی، 1969ء) نے مشرقی پنجاب میں ہیر پر گراں قدر کام کیا ہے۔
شیخ عبدالعزیز بار ایٹ لا (1880ءتا 1970ء) نے ہیر وارث شاہ کی تدوین کا بہت معیاری کام کیا ہے۔ اسے 1960ء میں ڈاکٹر باقر کی پنجابی اکیڈمی لاہور نے شائع کیا اور2013ء میں الفیصل لاہور نے اسے دوبارہ شائع کیا ہے۔
شیخ عبدالعزیز نے ہیر کو اکٹھا کرنے اور اس کی تدوین میں اپنی زندگی کے 30 برس صرف کردیے۔ انہوں نے ہاتھ سے لکھے 21 مسودوں کی چھان بین کی اور اپنے ابتدایے میں ان تمام کی تفصیل دی ہے۔
انہوں نے اپنے مسودے کی بنیاد ملکہ ہانس سے ملنے والے مسودے پر رکھی ہے جہاں وارث شاہ نے یہ شاہکار تخلیق کیا تھا۔ عبدالعزیز نے اس مسودے کو ایک الف کا نام دیا۔ ان کے خیال میں یہ 1818ء اور1820 ء کے درمیان کا ہے یعنی اصل کی تکمیل کے 50 سال بعد کا۔
مسودے کے نو صفحے غائب ہیں، لکھائی کا معیار برا اور متن میں اغلاط ہیں۔ ان خامیوں کے باوجود انہوں نے ایک الف کوہیر کا بنیادی ماخذ بنایا ہے۔ البتہ جہاں کہیں متن میں شک یا اختلاف ہوا انہوں نے تفصیل لکھ دی ہے۔
عبدالعزیز نے ان میں سے 18 قلمی نسخے ڈاکٹر باقر کو تحفتاً دے دیے تھے۔
یہ تمام آج نیشنل میوزیم آف پاکستان کراچی میں محفوظ ہیں۔
شریف صابر (1928 ء تا 2015ء) عبدالعزیز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 12 سال تک ہیر پر تحقیق کی۔ انہوں نے دو سال وارث شاہ میموریل کمیٹی میں کام کیا۔ اس کمیٹی کو پنجاب کے کلچرل ڈپارٹمنٹ نے جنڈیالہ شیرخان میں وارث شاہ کے مزار کی تعمیر اور ہیر وارث شاہ کا مستند متن شائع کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔
یہاں تعیناتی کے بعد شریف صابر کو نا صرف اپنے کام کے ازسرنو جائزے کا موقع ملا بلکہ 1821ء میں ہاتھ سے لکھا ہوا ہیر کا مسودہ بھی ان کے ہاتھ لگا جو بقول شرف صابر مشرقی پنجاب کے شہر پٹیالہ سے ملا تھا۔
کمیٹی نے 1985ء میں صابر کی تدوین شدہ ہیر شائع کی۔ 2006 ءمیں شریف صابر نے پروگریسو بکس لاہور کے تعاون سے اس کا ایک بہتر اور نظرثانی شدہ ایڈیشن شائع کروایا گیا۔ ان کی تدوین کردہ ہیر کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ انہوں نے مشکل الفاظ کے معانی اور وارث شاہ کی شاعری میں بیان کردہ لوگوں اور مقامات کی تفصیل بتائی گئی ہے۔ تاہم وہ کچھ زیادہ ہی آگے چلے گئے۔ کتاب کے ابتدایے میں انہوں تسلیم کیا کہ اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق انہوں نے بحر اور فاقیوں میں درستی کی ہے۔ کلاسیکل متن کے سکالروں میں یہ بحث جاری ہے کہ آیا کسی محقق کو ایسا کرنے کا حق ہے یا نہیں؟
حال ہی میں امریکا میں مقیم پنجابی شاعرمحمد افضل شاہد کو پنجاب پبلک لائبریری لاہور سے ہیر کا 1859ء کا ایک مسودہ ملا ہے۔ انہوں نے اسے انگریزی ترجمے کے ساتھ 2014 ء میں راوی کتاب گھر سے شائع کروایا ہے۔
مذکورہ مسودے کے آخری صفحے پر فارسی میں درج ہے کہ یہ مسودہ قصبہ حافظ آباد کے کرپا رام ولد چندر مل عرف ٹنڈو نے لاہور کے دیوان ہردیو سنگھ کے لیے لکھا۔
یہ وہی مسودہ ہے جسے شیخ عبدالعزیز نے 13- میم نام تفویض کیا تھا اور اپنی تدوین کردہ ہیر میں لکھا تھا “یہ شروع سے آخر تک درست اور مکمل ہے اور لکھائی بھی اچھی ہے۔”
افضل شاہد کا خیال ہے کہ 625 بندوں پر مشتمل یہ وارث شاہ کا سب سے مستند مسودہ ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ اسے بنیادی ماخد تسلیم کیا جائے۔
ہیر وارث شاہ انگریزی (1973ء)، اطالوی (1971ء)، جرمن (ء1985) اور فرانسیسی (1988ء) میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں پاکستان میں اس کا سندھی، بلوچی، کشمیری یا پشتو ترجمہ نہیں ہوا۔
ناتھ آکھدا دس کھاں سچ میتھے توں ہیں کیہڑے دُکھ فقیر ہوندا!
http://nuktanazar.sujag.org/55932/punjabi-classic-heer
“