شیر خداحضر ت علی کرم کی پہلی زوجہ محترمہ بنت رسولﷺ حضرت فاطمہ الزہراتھیں۔ان کے بطن سے چاراولادیں ہوئیں،حضرت امام حسن،حضرت امام حسین،حضرت زینب بنت علی اور حضرت ام کلثوم بنت علی۔حضرت زینب ؓ5جمادی الاول 6ھ،مدینہ منورہ میں پیداہوئیں۔ولادت مبارکہ کے وقت آپﷺ شہرسے باہر حالت سفرمیں تھے چنانچہ حضرت علی نے بذات خود اس رحمت خداوندی کے ایک کان میں آذان اوردوسرے کان میں اقامت کہی اوربہت دیرتک سینے سے لگائے ٹہلتے رہے۔حضرت فاطمہ الزہراؓ نے نام تجویزکرنے کی بابت جب شیرخداسے کہاتوجواب میں آپﷺکے انتظارکاحکم ملا۔آپﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ سفرپرجاتے ہوئے سب سے آخرمیں بی بی پاک فاطمہ الزہراؓ کے گھرتشریف لاتے تھے اورواپسی پرسب سے پہلے یہیں تشریف لاتے۔اب کی بارجب حجرہ مبارکہ میں واردہوئے تو نومولودکودیکھ کر باغ باغ ہوگئے کیونکہ آپ ﷺکوانتظاربھی تھا،نواسی کواپنی گودمیں بھرلیا،اپنے سینے سے لگایااور رخسارمبارک معصوم گالوں سے مس کیااورفرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئے،نواسی سے پیار،محبت،الفت اور شفقت کاکیاخوبصورت اظہارتھا،سبحان اللہ۔گزشتہ بچوں کی طرح اس بچی کانام بھی آپﷺنے تجویزفرمایااوراطلاع دی کہ اللہ تعالی رب العزت کی طرف سے اس نام کی منظوری کی اطلاع حضرت جبریل علیہ السلام نے دی ہے۔لفظ ”زینب“کامطلب ”اپنے والد کی زینت“ہے۔ایک روایت کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہ کی کل اٹھائس اولادوں میں سے تین بیٹیوں کے نام ”زینب“تھے۔چنانچہ ان ”زینب بنت علی کو ”زینب کبری“بھی کہاجاتاہے،ان کے علاوہ آپ کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر کم و بیش ساٹھ القابات سے آپ ؓ کویادکیاجاتاہے،ثانی زہرا،نائبۃ الزہرا،عقیلہ بنی ہاشم،صدیقہ صغری اورراضیۃ القدران میں سے چندمشہور ہیں۔حضرت زینب بنت علی ؓ کی عمر مبارک سات برس کی تھی جب محسن انسانیتﷺکاوصال ہوا۔اس سانحہ کے چھ ماہ بعد بی بی پاک فاطمہؓبھی اس دنیاسے پردہ فرماگئیں۔
حضرت زینب بنت علی کم و بیش سات سالوں تک صحبت نبویﷺ سے فیضیاب ہوئیں۔عمرکے ابتدائی ایام اس لحاظ سے بہت اہم ہوتے ہیں کہ بچے کاذہن خالی تختی کی مانندہوتاہے اوراس پر جوکچھ بھی نقش کردیاجائے وہ ان مٹ ہوتاہے۔بی بی پاک صاحبہ نے مدنی زندگی کاآخری دوربنظرخود مشاہدہ کیااورغیرمحسوس طورپراسے اپنی عادات کاحصہ بنالیا۔یہ بچپن کی تربیت تھی کہ جس نے آپ رضی اللہ تعالی عنھاکی آخری زندگی میں صبرورضاکے دامن کوبہرصورت تھامے رکھنے پرمجبورکیے رکھا۔آپ رضی اللہ تعالی عنھاکی زندگی سے یہ سبق ملتاہے کہ اپنی بیٹیوں کو بچپن سے ہی بہترین تربیت سے آراستہ کرناچاہیے، اورقرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ان کی ابتدائی عادات کو حسن سیرۃ میں میں ڈھالناچاہیے تاکہ وہ بقیہ عمرمیں للھیت اور خوف خداکے زیورسے اپنی شخصیت میں نکھارپیداکریں۔آپ رضی اللہ تعالی عنھااپنے ناناکوہمہ وقت اقامت دین اوراعلائے کلمۃ الحق کے لیے مصروف عمل دیکھتی تھیں چنانچہ یہ سبق واقعہ کربلامیں آپ کے لیے بہترین نمونہ عمل بنااوراس مشکل ترین وقت میں بھی اسوۃ حسنہ کے مطابق اپنے بھائی کے شانہ بشانہ ثابت قدم رہیں۔اسی طرح آپ نے اپنے باباجان کے چارسالہ پرآشوب دورخلافت کوبھی سن شعورمیں ملاحظہ کیااوریہ سبق واقعہ کربلاکے بعدکی زندگی میں آپ رضی اللہ تعالی عنھاکے لیے مشعل راہ بنا۔آپ رضی اللہ تعالی عنھانے اپنے گھرمیں کبھی نازنخرے،عیش و عشرت اورفارغ البالی نہیں دیکھی تھی۔اس کی وجہ مال و دولت کی کمی قطعاََ بھی نہیں تھی،بلکہ عادت سخاوت کے باعث گھرکاسب کچھ راہ خدالٹادیاجاتااور اہل بیت کے لیے صرف اللہ تعالی کانام باقی بچتاتھا۔گھریلو تربیت کی یہ جہت اس وقت بی بی صاحبہ کے کام آئی جب وقت اسیری یزیدیوں کے ہاں سے بہت ہی قلیل مقدارمیں کھانامیسرآتاتو تواپنے حصے کاتناول بھی دیگراسیران میں تقسیم فرمادیتیں۔ایک بارجب حضرت علی زین العابدین نے پوچھاکہ پھوپھی جان آپ بیٹھ کرنمازکیوں پڑتی ہیں توفرمایاکہ بہت کم کھاناملنے کے باعث کمزوری اورنقاہت نے مجبورکیاہے۔کیاخوبصورت تعلیمات ہیں کہ حقوق اللہ میں کمی کی وجہ حقوق العبادکی ادائگی تھی۔ایک لڑکی کی تربیت کے نتائج کااندازہ بی بی پاک صاحبہ کی حیات طیبہ و طاہرہ سے بخوبی لگایاجاسکتاہے۔زرق برق ملبوسات،چمک دمک سے بھرے ہوئے زیورات،ماکولات و مشروبات لبالب ظروف اورحسن وزیبائش کی عادات یقینی طورپر خواتین کے لیے اعلی ترمقصدحیات سے بعدکاباعث بنتی ہیں۔
حضرت زینب ؓکانکاح حضرت عبداللہ بن جعفرطیارؓسے 17ھ میں ہوا،یہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بھتیجے تھے اورحبشہ میں پیداہوئے تھے۔جنگ موتہ میں حضرت جعفرطیارؓکی شہادت کے بعدآپﷺ نے حجام کوبلاکرحضرت عبداللہ کے بال ترشوائے اور ان کی کفالت اپنے ذمے لے لی۔آپﷺ نے اس موقع پر حضرت عبداللہ بن جعفرطیارکاہاتھ پکڑکر فرمایا”اے اللہ تعالی حضرت جعفرکے گھروالوں کی نگہبانی فرمااورحضرت عبداللہ کے ہاتھ میں برکت عطافرما“،آپﷺ نے یہ دعاتین بارفرمائی۔بعداز وصال نبویﷺ یہ حضرت علیؓ کے زیرکفالت آگئے۔نکاح کے بعدحضرت عبداللہ بن جعفرطیارؓ بہت خوشحال ہوگئے تھے چنانچہ انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق تمام سہولیات وآسائشیں حضرت زینب ؓ کے لیے فراہم کررکھی تھیں،یہی وجہ تھی کہ بی بی صاحبہ زیادہ ترزہددنیااوردرس و تدریس میں مشغول رہتیں اورخواتین کی تربیت کرتی رہتی تھیں۔حضرت زینب کے بطن سے پانچ اولادیں ہوئیں،حضرت عونؓ،حضرت محمدؓ،حضرت عبداللہؓ،حضرت عباس ؓ اورحضرت ام کلثومؓ۔ان میں سے حضرت عونؓ اورحضرت محمدکاذکر واقعہ کربلامیں بہت کثرت سے ملتاہے جہاں ان دونوں نوجوانوں نے جام شہادت نوش جان فرمایا۔
واقعہ کربلا میں حضرت زینبؓ بذات خودموجودتھیں اورانہوں نے وہ تمام واقعات اپنی نظرمبارکہ سے بچشم خودمشاہدہ کیے تھے،ایسے جاں گسل واقعات کے دوران بھی صبرکادامن مضبوطی سے تھامے رکھنااوراستقامت کاپہاڑبن جاناصرف آپ جیسی باہمت خاتون کاہی خاصہ ہوسکتاتھا۔اس واقعہ کے بعدآپ رضی اللہ تعالی عنھاسمیت کل پسماندگان کو درباریزیدمیں پیش کیاگیاجہاں پرآپ رضی اللہ تعالی عنھاکاخطبہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھاگیاگیاہے،یہ خطبہ اس حدیث نبویﷺ کے عین مطابق ہے کہ سب سے بڑاجہادظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہناہے۔آپ رضی اللہ تعالی عنھانے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا”سب تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہیں اوردرودوسلام ہو نبی آخرالزماں پر،اے یزید؛اگرچہ حالات زمانہ نے ہمیں اس موڑ پرلاکھڑاکیاہے اور ہمیں قیدی بنادیاگیاہے لیکن جان لے کہ میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں،خداکی قسم صرف ایک خداکے سواکسی سے نہیں ڈرتی اوراللہ تعالی کے سواکسی سے کوئی گلہ یاشکوہ بھی نہیں کرتی،اے یزید؛مکروفریب اورحیلوں بہانوں سے توہم لوگوں سے جتنی دشمنی کرسکتاہے کرلے اورہمارے خلاف جتنی سازشیں کرسکتاہے کرلے لیکن خداکی قسم توہمارے نام لوگوں کے دلوں سے اورتاریخ سے نہیں مٹاسکتا،تیرے لیے ممکن نہیں کہ توتعلیمات وحی الہیہ کواس دنیاسے نابودکردے اورہمارے امتیازات کوختم کرسکے،پس لعنت ہوظالموں پر“۔ اس خطبے نے تاریخ کے دھارے موڑ کررکھ دیے تھے اوریزیدی استبدادکی حقیقت کھل کرسامنے آگئی تھی۔بی بی پاک ؓکے خطبے نے انبیاء علیھم السلام کی ہمت اورجرات کی یادتازہ کردی کہ جس طرح وہ وقت کے فراعین کے سامنے ڈٹ جاتے تھے اسی طرح آپ رضی اللہ تعالی عنھا بھی اپنے عہدکے طاغوت کے سامنے آہنی دیوار بنیں۔
عزم و ہمت اور حوصلہ کی یہ کوہ گراں 15رجب62ھ کو اس دارفانی سے پردہ فرماگئیں۔آپ کی مرقد انور دمشق میں واقع ہے جہاں زائرین جوق درجوق حاضری دیتے ہیں۔خواتین اسلام کااصل جوہر ان کی شرم وحیااورعفت و پاکدامنی ہے چنانچہ حضرت علی کوفہ میں جس مکان میں رہائش پزیرتھے اس کے پڑوس میں رہنے والے یحی مازنی نے بتایاکہ میں پانچ سال تک امیرالمومنین کاپڑوسی رہالیکن آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھرسے کبھی کوئی نسوانی آوازبلندنہیں ہوئی اورنہ کسی بی بی پاک کو گھرسے باہرکبھی دیکھا۔بچپن میں جب عمرمبارک صرف چارسال کی تھی توحضرت علی نے ایک مہمان کے لیے کھانے کاتقاضاکیا،جواب میں بی بی پاک فاطمہ الزہراؓ نے عرض کی کہ کھانے کوکچھ نہیں ہے،فقط معمولی ساکھاجا ننھی زینب کے لیے دھراہے،یہ سنتے ہی حضرت زینب بنت علی ؓدوڑتی آئیں اور بے ساختہ کہاکہ اماں جان میراکھاجا مہمان کوپیش کردیں،میں بعدمیں کھالوں گی،صاحبزادی کی اس سخاوت پر بی بی صاحبہ نے خوش ہوکرانہیں گلے لگالیا۔کوفہ میں قیام کے دوران بی بی صاحبہ نے ایک مدرسہ قائم کیاتھاجس میں خواتین کی بہت بڑی تعدادصباح و مساء آپ رضی اللہ تعالی عنھاکی خدمت میں حاضررہتی تھی اورقرآن و سنت کے علوم سے بہرہ مندہوتی تھی اوراحکامات شریعت کی تفہیم کے لیے آپ رضی اللہ تعالی عنھاسے ہی رجوع کیاجاتاتھا۔واقعہ کربلاکے بعد امام علی بن حسین زین العابدین ؓقدم بہ قدم آپ رضی اللہ تعالی عنھاکے ہمرکاب تھے،ایک موقع پرانہوں نے فرمایا مصائب و آلام کے انبوہ کثیراوراسیری و گرفتاری اورسفرمسلسل کے باوجود پھوپھی جان کی کوئی نمازکبھی قضانہیں ہوئی تھی۔واقعہ کربلامیں برادرعزیزحضرت امام حسین ؓ بھی جواپنی خواہرعزیزہ کے معمولات سے ازحد واقف تھے دم آخریں یہ درخواست کی تھی اپنی دعائے نیم شبی میں مجھے ہمیشہ یادرکھنا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...