دنیا میں حسن و جمال میں اپنی مثال آپ کی شہرت رکھنے والے پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی کا یہ عالم تھا کہ خواتین ان کے حسن کی تاب نہ سہہ کر اپنی انگلیاں تک کاٹ بیٹھتی تھیں انسانی تاریخ میں آج تک حسن اور خوبصورتی کے حوالے سے ان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ شاعر اپنی شاعری میں اور قصہ گو و کہانی نویس اپنے قصے اور کہانیوں میں داستان زیب کیلئے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کی مثال دیا کرتے ہیں اور یہ مثالیں جب تک دنیا قائم ہے دی جاتی رہیں گی مگر اس بے مثال خوبصورتی کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ اس حسن کی وجہ سے ان کی زندگی بہت ہی مشکلات کا شکار رہی ۔ ان کی خوبصورتی اور ان کا حسن ہی ان کیلئے مصائب و مشکلات اور آزمائشوں کا سبب بن گیا۔
ان کے اس حسن و جمال کی قدر اور قیمت کیا رہی یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے کیوں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو فروخت کیا گیا تھا اور تجسس اور تحقیق کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے چنانچہ انسان یہ جاننا چاہتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی کی کتنی بولی لگائی گئ ۔ بعض اوقات کسی انسان خواہ حیوان اور پرندے وغیرہ کی خوبصورتی ہی اس کیلئے وبال جان بن جاتی ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے ۔ ان کی خوبصورتی کی وجہ سے وہ اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیگر تمام بیٹوں سے زیادہ محبت تھی ۔ اس زیادہ محبت کی وجہ سے ان کے بھائی ان سے حسد کرنے لگے اور اس کی جان کے دشمن بن گئے ۔ایک منظم منصوبے کے تحت ان کے بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک ویرانے میں پانی کے ایک کنویں میں پھینک دیا اور گھر جا کر اپنے والد سے جھوٹ بولا کہ اس کو جنگل میں ایک خونخوار شیر نے چیر پھاڑ کر کھا لیا ہے ۔
یہ بات تو مشہور ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کے بازار میں ایک غلام کی حیثیت سے فروخت کیا گیا لیکن یہ نہیں معلوم کہ ان کو کتنی رقم کے عوض فروخت کیا گیا ۔ اسی سلسلے میں بہت سے مورخین اور محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کو کتنی رقم کے عوض فروخت کیا گیا۔ اس بارے میں بڑی تحقیق کے بعد لیور پول یونیورسٹی برطانیہ کے ریٹائر شدہ مصریات اور علوم شرقیہ کے ماہر پروفیسر کینتھ کچن نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ علم آثاریات اور بائبل کے تاریخی واقعات کے متن میں حیرت ناک مماثل موجود ہے ۔ کتاب پیدائش 37-28 میں یعقوب علیہ السلام کے فرزند یوسف علیہ السلام کو مصر میں بحیثیت غلام 20چاندی کے سکوں ( ٹیکل) کے عوض فروخت کیا گیا جس کی تصدیق اب جدید شام و عراق سے ملنے والی دستاویزات سے بھی ہوتی ہے۔ پروفیسر کینتھ کے مطابق 20ٹیکل کی رقم انیسویں سے سترہویں صدی قبل مسیح میں غلاموں کی انتہائی قیمت ہوا کرتی تھی ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی بحیثیت ایک غلام کے فروخت ہونے سے بہت سے سبق ملتے ہیں ایک یہ کہ انسان کتنا ہی خوب صورت یا طاقتور ہو دولت مند ہو یا پہلوان یا بادشاہ ہو کسی بھی صورت اور حیثیت میں غرور اور تکبر نہیں کرنا چاہیئے وقت اور حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اس سلسلے میں ہم دور کیوں جائیں اپنے ملک کی ہی مثال لے لیں یہ کل کی بات لگتی ہے کہ ملک پر جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی تھی وہ طاقت اور اختیار کے نشے میں اپنا مکا لہرا کر کہتے تھے کہ میں کسی سے ڈرتا روتا نہیں ہوں لیکن جب ان کے عروج کو زوال آیا تو ملک میں اس پر زمین تنگ ہو گئی اب اس کی حالت قابل رحم ہے ٹھیک اسی طرح آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف پر برا وقت آیا ہوا ہے یہ دونوں بھی مشرف کی طرح عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت ہے کہ ان کو بھی اپنے حسن پر غرور آگیا تھا وہ جب بھی آئینے میں اپنا عکس دیکھتے تھے تو ان کو دل میں خیال آتا کہ اگر مجھے فروخت کیا جائے تو میری قیمت کوئی ادا ہی نہیں کر سکے گا لیکن اللہ پاک کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ ایک غلام کی حیثیت میں فروخت کیئے گئے۔